Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الجنايات
جنایات ( جرائم ) کے مسائل
2. باب الديات
اقسام دیت کا بیان
حدیث نمبر: 1009
عن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم عن أبيه عن جده رضي الله عنهم أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم كتب إلى أهل اليمن فذكر الحديث وفيه: «‏‏‏‏إن من اعتبط مؤمنا قتلا عن بينة فإنه قود إلا أن يرضى أولياء المقتول وإن في النفس الدية مائة من الإبل وفي الأنف إذا أوعب جدعه الدية وفي العينين الدية وفي اللسان الدية وفي الشفتين الدية وفي الذكر الدية وفي البيضتين الدية وفي الصلب الدية وفي الرجل الواحدة نصف الدية وفي المأمومة ثلث الدية وفي الجائفة ثلث الدية وفي المنقلة خمس عشرة من الإبل وفي كل إصبع من أصابع اليد والرجل عشر من الإبل وفي السن خمس من الإبل وفي الموضحة خمس من الإبل وإن الرجل يقتل بالمرأة وعلى أهل الذهب ألف دينار» .‏‏‏‏ أخرجه أبو داود في المراسيل والنسائي وابن خزيمة وابن الجارود وابن حبان وأحمد واختلفوا في صحته.
سیدنا ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے اپنے باپ کے حوالہ سے اپنے دادا سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کو لکھا، پھر حدیث بیان کی جس میں یہ تحریر تھا جس کسی نے ایک بےگناہ مسلمان کو قتل کیا اور اس قتل کے گواہ ہوں تو اس پر قصاص لازم ہے۔ الایہ کہ مقتول کے ورثاء راضی ہوں تو ایک جان کے قتل کی دیت سو اونٹ ہے اور ناک میں بھی پوری دیت ہے جبکہ اسے جڑ سے کاٹ دے اور دونوں آنکھوں اور زبان اور دونوں ہونٹوں کے عوض بھی پوری دیت ہے۔ اسی طرح عضو مخصوص اور دو خصیہ میں پوری دیت ہے اور پشت میں بھی پوری دیت ہے اور ایک پاؤں کی صورت میں آدھی دیت ہے اور دماغ کے زخم اور پیٹ کے زخم میں تہائی دیت ہے اور وہ زخم جس سے ہڈی ٹوٹ جائے اس میں پندرہ اونٹ اور ہاتھ اور پاؤں کی ہر ایک انگلی میں دس دس اونٹ دیت ہے اور ایک دانت کی دیت پانچ اونٹ اور ایسے زخم میں جس سے ہڈی نظر آنے لگے پانچ اونٹ دیت ہے اور مرد کو عورت کے بدلہ قتل کیا جائے گا اور جن کے پاس اونٹ نہ ہوں اور سونا ہو تو ان سے ایک ہزار دینار وصول کئے جائیں گے۔ ابوداؤد نے اسے اپنی مراسیل میں لکھا ہے اور نسائی، ابن خزیمہ، ابن جارود، ابن حبان اور احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی صحت میں انہوں نے اختلاف کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود في المراسيل، حديث:225، والنسائي، القسامة، حديث"4857، وابن حبان(الإحسان):8 /180، 181، حديث:6525، وأحمد:2 /217، وابن خزيمة: لم أجده.»

حكم دارالسلام: ضعيف

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1009 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1009  
تخریج:
«أخرجه أبوداود في المراسيل، حديث:225، والنسائي، القسامة، حديث"4857، وابن حبان(الإحسان):8 /180، 181، حديث:6525، وأحمد:2 /217، وابن خزيمة: لم أجده.»
تشریح:
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ اس میں مذکور دیات دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہیں‘ نیز بعض محققین نے دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر اسے حسن قرار دیا ہے۔
بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۱۱ /۶۰۴- ۶۰۶)
راویٔ حدیث:
«حضرت ابوبکربن محمد رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ بن عمرو بن حزم انصاری نجاری مدنی قاضی۔
ان کا نام اور کنیت ایک ہی ہے۔
اور ایک قول یہ ہے کہ ان کی کنیت ابومحمد ہے‘ ثقہ ہیں‘ عبادت گزار ہیں‘ کتب ستہ کے راوی ہیں اور پانچویں طبقے میں شمار ہوتے ہیں۔
ان کی اہلیہ نے کہا تھا کہ عرصۂ چالیس سال سے رات کو بستر پر نہیں لیٹے۔
ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔
ابن سعد کے قول کے مطابق ۱۲۰ ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1009