Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الجنايات
جنایات ( جرائم ) کے مسائل
1. (أحاديث في الجنايات)
(جنایات کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 1008
وعن أبي شريح الخزاعي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏فمن قتل له قتيل بعد مقالتي هذه فأهله بين خيرتين: إما أن يأخذوا العقل أو يقتلوا» ‏‏‏‏ أخرجه أبو داود والنسائي وأصله في الصحيحين من حديث أبي هريرة بمعناه.
سیدنا ابوشریح خزاعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے اس خطبہ کے بعد اگر کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو متوفی کے ورثاء کو دو اختیار ہیں یا تو دیت لے لیں یا قاتل کو مقتول کے بدلہ میں قتل کر دیں۔ اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور اس روایت کا اصل اس کے ہم معنی صحیحین میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «[إٍسناده صحيح]أخرجه أبوداود، الديات، باب ولي العمد يأخذ الدية، حديث:4504، والترمذي، الديات، حديث:1406، وأصله متفق عليه، البخاري، الديات، حديث:6880، ومسلم، الحج، حديث:1355.»

حكم دارالسلام: صحيح

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1008 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1008  
تخریج:
« «إٍسناده صحيح» أخرجه أبوداود، الديات، باب ولي العمد يأخذ الدية، حديث:4504، والترمذي، الديات، حديث:1406، وأصله متفق عليه، البخاري، الديات، حديث:6880، ومسلم، الحج، حديث:1355.»
تشریح:
راویٔ حدیث:
«حضرت ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ عمرو بن خویلد اور بعض کے نزدیک خویلد بن عمرو کعبی عدوی خزاعی ہیں۔
فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیا۔
مدینہ میں ۶۸ ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1008   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 112  
´ (دینی) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں `
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ خُزَاعَةَ قَتَلُوا رَجُلًا مِنْ بَنِي لَيْثٍ عَامَ فَتْحِ مَكَّةَ بِقَتِيلٍ مِنْهُمْ قَتَلُوهُ، فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَخَطَبَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْقَتْلَ أَوِ الْفِيلَ، شَكَّ أَبُو عَبْد اللَّهِ، كَذَا قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ: وَاجْعَلُوهُ عَلَى الشَّكِّ الْفِيلَ أَوِ الْقَتْلَ . . .»
. . . وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ خزاعہ (کے کسی شخص) نے بنو لیث کے کسی آدمی کو اپنے کسی مقتول کے بدلے میں مار دیا تھا، یہ فتح مکہ والے سال کی بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی گئی، آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ اللہ نے مکہ سے قتل یا ہاتھی کو روک لیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ كِتَابَةِ الْعِلْمِ:: 112]
تشریح:
یعنی اس کے اکھاڑنے کی اجازت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنی سائل کی درخواست پر یہ جملہ مسائل اس کے لیے قلم بند کروا دیے۔ جس سے معلوم ہوا کہ تدوین احادیث و کتابت احادیث کی بنیاد خود زمانہ نبوی سے شروع ہو چکی تھی، جسے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں نہایت اہتمام کے ساتھ ترقی دی گئی۔ پس جو لوگ احادیث نبوی میں ایسے شکوک و شبہات پیدا کرتے اور ذخیرہ احادیث کو بعض عجمیوں کی گھڑنت بتاتے ہیں، وہ بالکل جھوٹے کذاب اور مفتری بلکہ دشمن اسلام ہیں، ہرگز ان کی خرافات پر کان نہ دھرنا چاہئیے۔ جس صورت میں «قتل» کا لفظ مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ اللہ پاک نے مکہ والوں کو قتل سے بچا لیا۔ بلکہ قتل و غارت کو یہاں حرام قرار د ے دیا۔ اور لفظ «فيل» کی صورت میں اس قصے کی طرف اشارہ ہے جو قرآن پاک کی سورۃ فیل میں مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سال ولادت میں حبش کا بادشاہ ابرہ نامی بہت سے ہاتھی لے کر خانہ کعبہ کو گرانے آیا تھا مگر اللہ پاک نے راستے ہی میں ان کو ابابیل پرندوں کی کنکریوں کے ذریعے ہلاک کر ڈالا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 112   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6880  
6880. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر قبیلہ خزاعہ نے بنو لیث کا ایک شخص اپنے جاہلیت کے مقتول کے بدلے میں قتل کر دیا تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے ہاتھیوں کے لشکر کو روک دیا تھا اور وقتی طور پر اپنے رسول اور اہل ایمان کو اس پر مسلط کیا۔ آگاہ ہو! مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے حلال نہیں کیا گیا اور نہ میرے بعد ہی کسی کے لیے حلال ہوگا اور میرے لیے بھی صرف اس دن ایک حصے کے لیے حلال ہوا، اب اس وقت اس کی حرمت پھر قائم ہو گئی ہے۔ اس کا کانٹا نہ توڑا جائے اور نہ اس کا کوئی درخت ہی کاٹا جائے، اعلان کرنے والے علاوہ کوئی دوسرا اس کی گری پڑی چیز نہ اٹھائے۔ جس کا کوئی عزیز قتل کر دیا جائے تو اسے دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے: چاہے تو قصاص لے لے یا دیت قبول کر لے۔ اس دوران میں ابو شاہ نامی ایک یمنی کھڑا ہوا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6880]
حدیث حاشیہ:
حرب بن شداد کے ساتھ اس حدیث کو عبیداللہ بن موسیٰ نے بھی شیبان سے روایت کیا۔
اس میں بھی ہاتھی کا ذکر ہے۔
بعض لوگوں نے ابونعیم سے فیل کے بدلے قتل کا لفظ روایت کیا ہے اور عبیداللہ بن موسی نے اپنی روایت میں (رواہ مسلم)
و امایقاد کے بدلے یوں کہا إما أن يعطی الدية و إما أن یقاد أهل القتیل۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6880   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2434  
2434. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے ر سول ﷺ کے لیے مکہ فتح کردیا تو آپ لوگوں میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرنے کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مکہ سے قتل وغارت کو روک دیا اور اس پر اپنے رسول اور اہل ایمان کومسلط کردیا۔ آگاہ رہو کہ یہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی میں حلال ہوا اور میرے بعد کسی کے لیے بھی حلال نہیں ہوگا۔ خبردار!اس کے شکار کو نہ چھیڑا جائے اور نہ اس کی جھاڑیاں ہی کاٹی جائیں۔ اور یہاں کی گری پڑی چیز صرف اس کے لیے جائز ہے جو اس کا اعلان کرنے کے لیے اٹھاتا ہے اور یہاں جس کا کوئی آدمی قتل ہوجائے تو اسے دو معاملات میں سے ایک کا اختیار ہے: دیت قبول کرلے یا بدلہ لے لے۔ حضرت عباس ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! اذخر گھاس کو مستثنیٰ ہونا چاہیے کیونکہ ہم اسے اپنی قبروں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2434]
حدیث حاشیہ:
روایت میں ہاتھی والوں سے مراد ابرہہ ہے جو خانہ کعبہ کو ڈھانے کے لیے ہاتھیوں کا لشکر لے کر آیاتھا۔
جس کا سورۃ ألم تر کیفَ الخ میں ذکر ہے۔
اس حدیث سے عہدنبوی میں کتابت حدیث کا بھی ثبوت ملا، جو منکرین حدیث کے ہفوات باطلہ کی تردید کے لیے کافی وافی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2434   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 604  
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کی فتح دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ نے ہاتھیوں کو مکہ سے روک دیا مگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کو اس پر غلبہ عطا فرمایا اور تحقیق مجھ سے پہلے مکہ کسی پر حلال نہ تھا مگر میرے لئے دن کی ایک گھڑی حلال کر دیا گیا ہے اور یقیناً میرے بعد یہ کسی کیلئے حلال نہیں ہو گا یعنی نہ اس کا شکار بھگایا جائے، نہ اس کا کوئی کانٹے دار درخت کاٹا جائے اور نہ ہی اس کی گری ہوئی چیز سوائے شناخت کرنے والے کے کسی پر حلال ہے اور جس کا کوئی آدمی مارا جائے وہ دو بہتر سوچے ہوئے کاموں میں سے ایک کام میں اختیار رکھتا ہے۔ تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اذخر (ایک قسم کی گھاس) کے سوا، کیونکہ اسے ہم اپنی قبروں اور چھتوں میں رکھتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوائے اذخر کے، (یعنی اسے کاٹنے کی اجازت ہے۔) (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 604]
604 لغوی تشریح:
«حَبَسَ» یعنی روکا اور منع کیا۔
«الْفِيل» ہاتھی جسے اور ابرہہ کا لشکر بیت اللہ کو گرانے کے لیے لے کر آیا تھا، اس کا قصہ مشہور و معروف ہے۔
«وَسَلَّطْ» یہ «تسليط» سے ماخوذ ہے۔ غلبہ کے معنی میں ہے۔
«سَاعَةً مِّنْ نَهَارِ» دن کی ایک گھڑی۔ اس سے بیت اللہ میں داخل ہونے سے عصر کا وقت مراد ہے۔
«لَايُنَفَّرُ» «تنفير» سے صیغۂ مجہول ہے، یعنی بھگایا نہ جائے۔
«وَلَا يُخْتَلٰي» یہ بھی صیغۂ مجہول ہے، یعنی نہ کاٹا جائے۔
«سَاقِطَتُهَا» یعنی اس کی گری پڑی چیز۔
«أِلَّا لِمُنْشِدٍ» یہ «انشاد» سے ماخوذ ہے، یعنی وہاں گری پڑی چیز کھانے یا قبضہ کرنے کی نیت سے نہ اٹھائی جائے البتہ اسے اس نیت سے اٹھانا جائز ہے کہ اسے لوگوں میں متعارف کرایا جائے یہاں تک کہ اس کا مالک مل جائے اور وہ اسے حاصل کر لے۔
«قَتِيل» یعنی مقتول۔
«فَهُوَ» یعنی مقتول کا ولی۔
«بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ» یعنی ولی کو دو چیزوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا حق ہے، چاہے تو قصاص لے اور چاہے تو دیت وصول کر لے۔
«أِلّا الأِذْخِرِ» یعنی آپ یہ فرمائیں: «أِلَّا الْاِذْخِرَ» اذخر کے سوا کہ اسے کاٹنے کی اجازت ہے۔ اذخر کے ہمزہ اور خا کے نیچے زیر اور دونوں کے درمیان میں ذال ساکن ہے۔ یہ چوڑے پتوں والی خشبودار گھاس ہے جسے گھروں کی چھتوں میں لکڑیوں کے اوپر رکھا جاتا تھا اور قبروں کو بند کرنے میں بھی اس کا استعمال ہوتا تھا اور قبر کے اوپر رکھے جانے والے پتھروں یا کچی اینٹوں کے سوراخ بند کیے جاتے تھے۔ مکہ مکرمہ کی حرمت کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ مکہ میں رہنے والوں سے لڑائی کرنا حرام ہے۔ جو اس میں داخل ہو گیا اسے گویا امن مل گیا۔ اس میں شکار اور اس کے درخت اور جڑی بوٹیاں کاٹنی حرام ہیں، نیز اس میں گری پڑی چیز اپنے استعمال کے لیے اٹھانا حرام ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 604   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3305  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ پر فتح دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی، پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مکہ سے ہاتھ روک دیا، اور اس پر اپنے رسول اور مومنوں کو غلبہ عنایت فرمایا، واقعہ یہ ہے کہ مکہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال قرار نہیں دیا گیا تھا، (کسی کو اس پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں ملی) اور یہ میرے لیے بھی دن کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3305]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

جم ہور کے نزدیک مکہ میں گری پڑی چیز وہی اٹھا سکتا ہے جس نے ہمیشہ ہمیشہ تشہیر اور اعلان کرناہو،
جو ایسا نہیں کرسکتا،
وہ نہ اٹھائے،
لیکن احناف،
اکثرمالکیہ اور بعض شوافع کے نزدیک،
اس کا حکم بھی باقی علاقوں جیسا ہے اوریہاں مقصد بالغہ ہے اور اس تصور وخیال کو ختم کرتا ہے کہ حاجی مختلف اکناف واطراف سے آتے ہیں اور پتہ نہیں یہ کس کی چیز ہے،
اس لیے اعلان وتشہیر کا کیا فائدہ،
اس لیے اس وہم کو دور کیا اورفرمایا،
اسکی تشہیر میں عام اصول اورضابطہ کے مطابق ضروری ہے (لُقْطَہ کا حکم اپنے موقع پراور محل پر آئے گا اور ساعت مخصوصہ عصر تک تھی)

جمہور کے نزدیک کانٹے کاٹنا بھی جائز نہیں ہے۔
اور بعض شوافع کا یہ مؤقف درست نہیں ہے کہ تکلیف دہ کانٹے کاٹےجاسکتے ہیں۔
اس طرح شکار کو اس جگہ سے اٹھانا اور پریشان کرنا بھی جائز نہیں ہے،
مالکیہ اور احناف کے نزدیک حرم کی گھاس چرانا بھی جائز نہیں ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جس طرح اذخر انسانی ضرورت ہے گھاس حیوانوں کی ضرورت ہے۔
اس لیے جانور وں کو چرانا جائز ہے۔

جمہور کے نزدیک قتل اور دیت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا حق مقتول کے ورثاء کو ہے،
لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اختیار قاتل کو ہے،
ظاہربات تو یہ ہے کہ اس کا فیصلہ باہم رضا مندی سے ہوسکتا ہے۔
کیونکہ اصل تو قصاص ہے۔
اب اگر ورثاء دیت قبول نہیں کرتے،
یا قاتل دیت کی ادائیگی پر آمادہ نہیں ہے تو پھر جبر کیسے ممکن ہے۔

حضرت ابوشاہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لکھوانے کے سوال سے ثابت ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری دور میں لکھنے کا رواج ہو چکا تھا۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو شخصی طور پر لکھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ عام حکم دیا کہ:
اُكْتُبُوا لأَبِي شَاه)
ابوشاہ کو لکھ دو،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی احادیث مبارکہ لکھنے کا کام شروع ہو گیا تھا،
لیکن تمام احادیث کو یکجا کرنے کا کام بعد میں ہوا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3305   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3305  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ پر فتح دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی، پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مکہ سے ہاتھ روک دیا، اور اس پر اپنے رسول اور مومنوں کو غلبہ عنایت فرمایا، واقعہ یہ ہے کہ مکہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال قرار نہیں دیا گیا تھا، (کسی کو اس پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں ملی) اور یہ میرے لیے بھی دن کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3305]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

جم ہور کے نزدیک مکہ میں گری پڑی چیز وہی اٹھا سکتا ہے جس نے ہمیشہ ہمیشہ تشہیر اور اعلان کرناہو،
جو ایسا نہیں کرسکتا،
وہ نہ اٹھائے،
لیکن احناف،
اکثرمالکیہ اور بعض شوافع کے نزدیک،
اس کا حکم بھی باقی علاقوں جیسا ہے اوریہاں مقصد بالغہ ہے اور اس تصور وخیال کو ختم کرتا ہے کہ حاجی مختلف اکناف واطراف سے آتے ہیں اور پتہ نہیں یہ کس کی چیز ہے،
اس لیے اعلان وتشہیر کا کیا فائدہ،
اس لیے اس وہم کو دور کیا اورفرمایا،
اسکی تشہیر میں عام اصول اورضابطہ کے مطابق ضروری ہے (لُقْطَہ کا حکم اپنے موقع پراور محل پر آئے گا اور ساعت مخصوصہ عصر تک تھی)

جمہور کے نزدیک کانٹے کاٹنا بھی جائز نہیں ہے۔
اور بعض شوافع کا یہ مؤقف درست نہیں ہے کہ تکلیف دہ کانٹے کاٹےجاسکتے ہیں۔
اس طرح شکار کو اس جگہ سے اٹھانا اور پریشان کرنا بھی جائز نہیں ہے،
مالکیہ اور احناف کے نزدیک حرم کی گھاس چرانا بھی جائز نہیں ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جس طرح اذخر انسانی ضرورت ہے گھاس حیوانوں کی ضرورت ہے۔
اس لیے جانور وں کو چرانا جائز ہے۔

جمہور کے نزدیک قتل اور دیت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا حق مقتول کے ورثاء کو ہے،
لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اختیار قاتل کو ہے،
ظاہربات تو یہ ہے کہ اس کا فیصلہ باہم رضا مندی سے ہوسکتا ہے۔
کیونکہ اصل تو قصاص ہے۔
اب اگر ورثاء دیت قبول نہیں کرتے،
یا قاتل دیت کی ادائیگی پر آمادہ نہیں ہے تو پھر جبر کیسے ممکن ہے۔

حضرت ابوشاہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لکھوانے کے سوال سے ثابت ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری دور میں لکھنے کا رواج ہو چکا تھا۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو شخصی طور پر لکھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ عام حکم دیا کہ:
اُكْتُبُوا لأَبِي شَاه)
ابوشاہ کو لکھ دو،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی احادیث مبارکہ لکھنے کا کام شروع ہو گیا تھا،
لیکن تمام احادیث کو یکجا کرنے کا کام بعد میں ہوا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3305   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:112  
112. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے سال خزاعہ نے بنولیث کے ایک شخص کو اپنے اس مقتول کے بدلے میں قتل کر دیا جسے بنو لیث نے قتل کیا تھا۔ نبی ﷺ کو اس کی اطلاع دی گئی، آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور ایک خطبہ دیا: اللہ تعالیٰ نے مکے سے قتل یا فیل (ہاتھی) کو روک دیا۔ امام بخاری نے کہا: ابو نعیم نے ایسے ہی (شک کے ساتھ) کہا ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ اور اہل ایمان کو ان (کافروں) پر غالب کر دیا گیا۔ خبردار! مکہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا۔ آگاہ رہو! یہ میرے لیے بھی دن میں ایک گھڑی کے لیے حلال ہوا تھا۔ خبردار! وہ اس وقت بھی حرام ہے۔ وہاں کے کانٹے نہ کاٹے جائیں، نہ اس کے درخت قطع کیے جائیں، اعلان کرنے والے کے علاوہ وہاں کی گری ہوئی چیز کوئی نہ اٹھائے۔ اور جس کا کوئی عزیز مارا جائے، اسے دو میں سے ایک کا اختیار ہے: دیت قبول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:112]
حدیث حاشیہ:

دور جاہلیت میں عرب کے دو مشہور قبائل خزاعہ اور بنو لیث میں عداوت تھی جس کے نتیجے میں، بنولیث کے ایک آدمی نے خزاعہ کے ایک احمر نامی شخص کو قتل کر دیا تھا، پھر فتح مکہ کے وقت اعلان امن کے بعد خزاعہ کے ایک خراش بن امیہ نامی آدمی نے بنو لیث کے جندب بن اقرع نامی شخص کو موقع پا کر قتل کر دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کی گئی کہ اعلان امن کے بعد خزاعیوں کی طرف سے یہ حرکت ہوئی ہے کہ جس سے امن عامہ کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، چنانچہ آپ فوراً تشریف لائے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔

اس روایت میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے استاد ابونعیم نے القتل یا الفیل کو تردد کے ساتھ پیش کیا ہے جبکہ اس روایت کے دوسرے راوی عبیداللہ بن موسیٰ وغیرہ متعین طور پر الفیل کہتے ہیں جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الدیات(حدیث 6880)
میں اس کی وضاحت کی ہے۔
متعین طور پر بیان کرنے کی صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے اصحاب فیل کو روکا ہے، یعنی جب شاہ حبشہ نے ہاتھیوں سے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے سے ان کے دماغ درست کردیے تھے۔
یہ اس وقت کا ذکر ہے جب مکہ بیت الاصنام تھا۔
اب جبکہ وہ دارالاسلام بن چکا ہے تواس میں قتل وغارت اور امن شکنی کو کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے۔
(فتح الباري: 272/1)

یمنی قبیلہ بنو کلب کے شخص نے کیا لکھنے کی درخواست کی؟ اس کی یہاں وضاحت نہیں جس سے اشکال پیدا ہوتا ہے۔
ایک دوسری روایت کے آخر میں وضاحت ہے کہ آپ نے اسے خطبہ لکھ کردینے کا حکم دیا تھا، چنانچہ اس حدیث کے راوی ولید بن مسلم نے اپنے استاد الاوزاعی سے دریافت کیا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا چیز لکھنے کی درخواست کی گئی تھی؟ تو انھوں نےفرمایا:
پند ونصائح پر مبنی خطبہ لکھنے کی درخواست کی گئی تھی۔
(صحیح البخاري، اللقطة، حدیث: 2434)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان سے حدیث کا یہی حصہ مطابقت رکھتا ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ کتابت حدیث کا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں آپ کی اجازت سے شروع ہوچکا تھا۔
(فتح الباري: 273/1)
اس کا مطلب یہ ہے کہ تدوین احادیث کی بنیاد خود زمانہ نبوی سے رکھی جا چکی تھی جسے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں نہایت اہتمام سے ترقی دی گئی۔
اب جو لوگ اسے عجمی سازش قراردیتے ہیں اور اس میں شکوک وشبہات پیداکرتے ہیں وہ دشمن اسلام ہیں، ان کی باتیں قابل التفات نہیں ہیں۔

جب مکے کی سرزمین باعث حرمت ہے تو اس کا درخت کاٹنا، کانٹا توڑنا جائز نہیں ہے، البتہ وہ کانٹے جوگزرنے والوں کے لیے باعث تکلیف ہوں کاٹے جاسکتے ہیں کیونکہ حدود حرم میں اذیت ناک چیزوں کو ختم کرنا ضروری ہے جیسا کہ پانچ موذی جانوروں کو مارنے کی وضاحت ہے۔
جب کانٹوں کے متعلق اتنی پابندی ہے تو گھاس کاٹنے کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی، اسی بنا پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درخواست پیش کی کہ اذخر(خوشبودار گھاس)
کاٹنے کی اجازت دی جائے کیونکہ ہم اسے اپنے گھروں میں بچھاتے اور چھتوں پر ڈالتے ہیں، نیز قبروں میں لحد اور ان کے فرجات بند کرنے میں کام آتی ہے، یعنی زندوں اور مردوں ہی کو اس کی ضرورت رہتی ہے، چنانچہ آپ نے اسے کاٹنے کی اجازت دے دی۔
نوٹ:
حرم اور غیرحرم میں گری پڑی چیز اٹھانے کے مسائل اور قتل ناحق کے احکام کتاب اللقطہ اور کتاب الدیات میں بیان کیے جائیں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 112   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2434  
2434. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے ر سول ﷺ کے لیے مکہ فتح کردیا تو آپ لوگوں میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرنے کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مکہ سے قتل وغارت کو روک دیا اور اس پر اپنے رسول اور اہل ایمان کومسلط کردیا۔ آگاہ رہو کہ یہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی میں حلال ہوا اور میرے بعد کسی کے لیے بھی حلال نہیں ہوگا۔ خبردار!اس کے شکار کو نہ چھیڑا جائے اور نہ اس کی جھاڑیاں ہی کاٹی جائیں۔ اور یہاں کی گری پڑی چیز صرف اس کے لیے جائز ہے جو اس کا اعلان کرنے کے لیے اٹھاتا ہے اور یہاں جس کا کوئی آدمی قتل ہوجائے تو اسے دو معاملات میں سے ایک کا اختیار ہے: دیت قبول کرلے یا بدلہ لے لے۔ حضرت عباس ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! اذخر گھاس کو مستثنیٰ ہونا چاہیے کیونکہ ہم اسے اپنی قبروں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2434]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عبدالرحمٰن بن عثمان تیمی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حاجیوں کی گری پڑی چیز اٹھانے سے منع کیا ہے۔
(صحیح مسلم، اللقطة، حدیث: 4509(1724)
اس حدیث کا تقاضا ہے کہ حرم میں کوئی گری پڑی چیز نہیں اٹھانی چاہیے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان اور پیش کردہ باب پر دو حدیثوں سے ثابت کیا ہے کہ حرم مکی میں گری ہوئی چیز اٹھانا جائز ہے، ممانعت اس صورت میں ہے کہ جب اس کا مالک بننے کے لیے اٹھائی جائے۔
مذکورہ احادیث کا تقاضا ہے کہ حرم کا لقطہ وہی اٹھائے جو اس کی تشہیر کرے، بصورت دیگر اسے وہاں پڑا رہنے دے۔
اعلان کرنے کے بعد اگر اس کا مالک نہ ملے تو اسے استعمال میں لانے کی بھی اجازت نہیں۔
(3)
اب حکومت سعودیہ نے حرم میں گری پڑی اشیاء محفوظ کرنے کے لیے حرم ہی میں ایک امانت خانہ قائم کیا ہے، جن لوگوں کو کوئی چیز ملتی ہے وہ وہاں جمع کرا دیتے ہیں اور جن کی اشیاء گم ہو جاتی ہیں وہ ان سے رابطہ قائم کرتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2434   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6880  
6880. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر قبیلہ خزاعہ نے بنو لیث کا ایک شخص اپنے جاہلیت کے مقتول کے بدلے میں قتل کر دیا تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے ہاتھیوں کے لشکر کو روک دیا تھا اور وقتی طور پر اپنے رسول اور اہل ایمان کو اس پر مسلط کیا۔ آگاہ ہو! مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے حلال نہیں کیا گیا اور نہ میرے بعد ہی کسی کے لیے حلال ہوگا اور میرے لیے بھی صرف اس دن ایک حصے کے لیے حلال ہوا، اب اس وقت اس کی حرمت پھر قائم ہو گئی ہے۔ اس کا کانٹا نہ توڑا جائے اور نہ اس کا کوئی درخت ہی کاٹا جائے، اعلان کرنے والے علاوہ کوئی دوسرا اس کی گری پڑی چیز نہ اٹھائے۔ جس کا کوئی عزیز قتل کر دیا جائے تو اسے دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے: چاہے تو قصاص لے لے یا دیت قبول کر لے۔ اس دوران میں ابو شاہ نامی ایک یمنی کھڑا ہوا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6880]
حدیث حاشیہ:
(1)
جان بوجھ کر قتل کرنے والے سے دیت لینے میں علمائے امت کا اختلاف ہے۔
علمائے کوفہ کا موقف ہے کہ قتل عمد میں دیت صرف اس وقت ہے جب قاتل دیت دینے پر راضی ہو ورنہ قصاص ہے جبکہ جمہور کا موقف ہے کہ مقتول کے ورثاء اگر قتل عمد میں دیت کا مطالبہ کریں تو قاتل کو دیت دینے پر مجبور کیا جائے گا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے جمہور کی تائید میں یہ عنوان اور حدیث پیش کی ہے کہ مقتول کے ورثاء کو اختیار ہے کہ وہ قصاص لیں یا دیت لیں۔
(2)
بنی اسرائیل میں قصاص ہی لازم تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اس امت کو دیت لینے کی سہولت دی ہے اور اسے اپنی طرف سے تخفیف قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یہ تمھارے رب کی طرف سے تخفیف ہے۔
(البقرة: 2: 178)
ایک روایت میں ہے کہ مقتول کے ورثاء کو تین چیزوں میں سے ایک کا اختیار ہے:
٭قصاص لیں۔
٭معاف کر دیں۔
٭دیت پر صلح کر لیں۔
اگر کوئی چوتھی صورت نکالتا ہے تو اس کے ہاتھ روکے جا سکتے ہیں۔
(سنن أبي داود، الدیات، حدیث: 4496)
چوتھی چیز سے مراد قصاص یا دیت سے زیادہ کا مطالبہ ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6880