تخریج: «أخرجه عبدالرزاق في المصنف:10 /101، حديث:18514، وابن أبي شيبة، والطحاوي،135، وفي سنده إبراهيم بن أبي يحييٰ وهو متروك، وله شاهد مرسل عند الطحاوي فيه محمد بن أبي حميد ضعيف جدًا، قال البخاري: منكر الحديث، وشاهد مرسل عند أبي داود في المراسيل، وفيه عبدالله بن يعقوب وعبدالله بن عبدالعزيز بن صالح الحضرمي مجهولان، فائدة: ولم يثبت عن عمر أنه قتل رجلاً مسلمًا في قتل الكافر، رواه إبراهيم النخعي وهو ولد بعد شهادة عمررضي الله عنه، وأما أثرعبيدالله بن عمر بن الخطاب، فإنه قتل مسلمين:الهرمزان وابنة أبي لؤلؤة ولم يريدوا أن يقتلوه في قتل الكافر، وأثر علي فيه قيس بن الربيع وحسين بن ميمون ضعيفان.»
تشریح:
اس حدیث کے شدت ضعف اور حدیث
«لاَ یُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِکَافِرٍ» کے معارض ہونے کی وجہسے جمہور نے اسے ناقابل استدلال قرار دیا ہے‘ البتہ احناف اسی طرف گئے ہیں۔
احناف اکثر اوقات صحیح حدیث پر ضعیف کو ترجیح دے دیتے ہیں‘ لہٰذا اس مسئلے میں بھی جو کچھ انھوں نے کیا ہے اس پر کوئی تعجب نہیں۔
راویٔ حدیث: «حضرت عبدالرحمن بن بیلمانی رحمہ اللہ» عبدالرحمن بن ابو زید‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔
مدنی تھے۔
حران میں جا کر فروکش ہوئے۔
تابعی ہیں اور طبقۂ سادسہ سے ہیں۔
امام ابوحاتم کا قول ہے کہ یہ کمزور راوی ہے اور ابن حبان نے اسے ثقہ قرار دیا ہے۔
اور امام داراقطنی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے دلیل نہیں لی جاسکتی۔
جبکہ ازدی نے اسے منکر الحدیث کہا ہے۔
بیلمان کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے بیلمانی کہلائے۔
بیلمان کے
”با
“ پر فتحہ اور
”یا
“ ساکن اور
”لام
“ پر فتحہ ہے۔