Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الجنايات
جنایات ( جرائم ) کے مسائل
1. (أحاديث في الجنايات)
(جنایات کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 1001
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله عنهما أن رجلا طعن رجلا بقرن في ركبته فجاء إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال: أقدني فقال: «حتى تبرأ» ‏‏‏‏ ثم جاء إليه فقال: أقدني،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأقاده،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم جاء إليه فقال: يا رسول الله عرجت فقال: «قد نهيتك فعصيتني فأبعدك الله وبطل عرجك» ‏‏‏‏ ثم نهى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أن يقتص من جرح حتى يبرأ صاحبه. رواه أحمد والدارقطني وأعل بالإرسال.
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ نے اپنے والد اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کے گھٹنے میں سینگ چبھو دیا تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا مجھے اس سے قصاص لے کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زخم مندمل ہونے کے بعد آنا۔ وہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا مجھے قصاص دلوائیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قصاص دلوایا اس کے بعد پھر آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول! میں لنگڑا ہو گیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تجھے منع کیا تھا لیکن تو نے میری بات نہ مانی۔ اللہ تعالیٰ نے تجھے دور کر دیا اور تیرے لنگڑے پن کو باطل کر دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ زخموں کا قصاص اس وقت تک لینا ممنوع ہے کہ جب تک زخمی آدمی صحت مند و تندرست نہ ہو جائے۔ اس روایت کو احمد اور دارقطنی نے روایت کیا ہے اور اسے مرسل ہونے کی وجہ سے معلول کہا ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد:2 /217، والدارقطني: 3 /88، ابن جريج مدلس وعنعن.»

حكم دارالسلام: ضعيف

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1001 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1001  
تخریج:
«أخرجه أحمد:2 /217، والدارقطني: 3 /88، ابن جريج مدلس وعنعن.»
تشریح:
1. اس حدیث کی رو سے زخموں کی دیت اس وقت لی جانی چاہیے جب زخم مندمل ہو جائیں اور زخمی صحت یاب ہو جائے۔
جمہور ائمہ رحمہم اللہ کے نزدیک یہ انتظار کرنا واجب ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ اسے مستحب کہتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ عین ممکن ہے زخم خراب صورت اختیار کر لے اور اسی بنا پر وہ عضو ضائع ہو جائے جبکہ ان دونوں صورتوں میں دیت الگ الگ ہے۔
2. مذکورہ بالا واقعہ میں اس آدمی نے بے صبری اور عجلت سے کام لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل نہ کیا تو اسے صرف پانچ اونٹ ملے‘ حالانکہ جب وہ زخم کی خرابی کی وجہ سے لنگڑا ہوگیا تھا تو اس وقت وہ پچاس اونٹوں کا مستحق تھا۔
بے صبری ‘ عجلت پسندی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عدم توجہ کے نتیجے میں اسے صرف پانچ اونٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔
3. مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم معناً صحیح ہے کیونکہ دیگر روایات سے بھی مسئلۂ مذکورہ کی تائید ہوتی ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد: (۱۱ /۶۰۷‘ ۶۰۸)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1001