تخریج: «أخرجه أحمد:2 /217، والدارقطني: 3 /88، ابن جريج مدلس وعنعن.»
تشریح:
1. اس حدیث کی رو سے زخموں کی دیت اس وقت لی جانی چاہیے جب زخم مندمل ہو جائیں اور زخمی صحت یاب ہو جائے۔
جمہور ائمہ رحمہم اللہ کے نزدیک یہ انتظار کرنا واجب ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ اسے مستحب کہتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ عین ممکن ہے زخم خراب صورت اختیار کر لے اور اسی بنا پر وہ عضو ضائع ہو جائے جبکہ ان دونوں صورتوں میں دیت الگ الگ ہے۔
2. مذکورہ بالا واقعہ میں اس آدمی نے بے صبری اور عجلت سے کام لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل نہ کیا تو اسے صرف پانچ اونٹ ملے‘ حالانکہ جب وہ زخم کی خرابی کی وجہ سے لنگڑا ہوگیا تھا تو اس وقت وہ پچاس اونٹوں کا مستحق تھا۔
بے صبری ‘ عجلت پسندی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عدم توجہ کے نتیجے میں اسے صرف پانچ اونٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔
3. مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم معناً صحیح ہے کیونکہ دیگر روایات سے بھی مسئلۂ مذکورہ کی تائید ہوتی ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد: (۱۱ /۶۰۷‘ ۶۰۸)