تخریج: «أخرجه سعيد بن منصور.* سفيان بن عيينة عنعن، وهو في البيهقي أيضًا:7 /469.»
تشریح:
اگرشوہر عورت کا نان و نفقہ نہ دے سکتا ہو تو عورت کو فسخ نکاح کا حق ہے یا نہیں؟ اس مسئلے میں ائمہ کا اختلاف ہے۔
صحابہ میں سے حضرت علی‘ حضرت عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم اور تابعین کی ایک جماعت اور فقہائے اربعہ میں سے امام مالک‘ امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ فسخ نکاح کا اختیار عورت کو دیتے ہیں۔
اہل ظاہر کا بھی یہی قول ہے:
«لاَ ضَرَرَ وَلاَ ضِرَارَ» والی حدیث اس کی تائید میں پیش کی جاتی ہے۔
احناف کا قول ہے کہ شوہر کے پاس خرچے کی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں عورت کو فسخ نکاح کا اختیار نہیں۔
انھوں نے دلیل میں قرآن حمید کی آیت:
﴿ وَ مَنْ قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰہُ اللّٰہُ لاَیُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ مَآ اٰتٰھَا سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا ﴾ (الطلاق۶۵:۷) پیش کی ہے۔
اور حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ جب عورت نے مرد سے نکاح کیا اس وقت مرد تنگ دست تھا اور مرد کی تنگ دستی کا عورت کو علم بھی تھا یا نکاح کے وقت مرد کی مالی حالت تسلی بخش تھی مگر بعد میں کسی وجہ سے تنگ دستی کا شکار ہوگیا تو ایسی صورت میں عورت کو فسخ نکاح کا اختیار نہیں کیونکہ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔
آج تنگ دستی ہے تو کل فراخ دستی بھی ہو سکتی ہے‘ بصورت دیگر عورت کو فسخ نکاح کا اختیار ہوگا۔
جن علماء و فقہاء نے عورت کو فسخ نکاح کا اختیار دیا ہے ان میں سے امام مالک رحمہ اللہ خاوند کو ایک ماہ کا وقت دیتے ہیں‘ امام شافعی رحمہ اللہ صرف تین دن کا اور حماد رحمہ اللہ نے ایک سال کی میعاد دی ہے۔
راویٔ حدیث: «حضرت سفیان رحمہ اللہ» ابوعبداللہ سفیان بن سعید بن مسروق ثوری کوفی۔
بڑے ائمۂ کرام میں سے ایک ہیں۔
مُسَلّم امام ہیں۔
اتقان‘ ضبط و حفظ‘ معرفت اور زہد و ورع کے اوصاف سے متصف تھے۔
۷۷ ہجری میں پیدا ہوئے اور بصرہ میں ۱۶۱ ہجری میں فوت ہوئے۔
«حضرت ابو زناد رحمہ اللہ» عبداللہ بن ذکوان اُموی مدنی۔
نامور ائمہ میں ان کا شمار ہوتاہے۔
امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے: ثقہ اور امیرالمومنین فی الحدیث ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ أبوالزناد عن الأعرج عن أبي ہریرۃ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح ترین سند ہے۔
۱۳۰ یا ۱۳۱ ہجری میں وفات پائی۔