Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
36. بَابُ غَزْوَةِ الْحُدَيْبِيَةِ:
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 4187
وَقَالَ هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ , حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعُمَرِيُّ , أَخْبَرَنِي نَافِعٌ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:" أَنَّ النَّاسَ كَانُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ تَفَرَّقُوا فِي ظِلَالِ الشَّجَرِ , فَإِذَا النَّاسُ مُحْدِقُونَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ انْظُرْ مَا شَأْنُ النَّاسِ قَدْ أَحْدَقُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَوَجَدَهُمْ يُبَايِعُونَ , فَبَايَعَ , ثُمَّ رَجَعَ إِلَى عُمَرَ فَخَرَجَ فَبَايَعَ".
اور ہشام بن عمار نے بیان کیا ‘ ان سے ولید بن مسلم نے بیان کیا ‘ ان سے عمر بن عمری نے بیان کیا ‘ انہیں نافع نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ رضی اللہ عنہم جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ‘ مختلف درختوں کے سائے میں پھیل گئے تھے۔ پھر اچانک بہت سے صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف جمع ہو گئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: بیٹا عبداللہ! دیکھو تو سہی لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع کیوں ہو گئے ہیں؟ انہوں نے دیکھا تو صحابہ بیعت کر رہے تھے۔ چنانچہ پہلے انہوں نے خود بیعت کر لی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کو آ کر خبر دی پھر وہ بھی گئے اور انہوں نے بھی بیعت کی۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4187 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4187  
حدیث حاشیہ:
یہاں بیعت کرنے میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے عمر ؓ سے پہلے بیعت کی جو خاص وجہ سے تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4187   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4187  
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر ؓ نے حدیبیہ کے دن جو حالات دیکھے تھے ان کے پیش نظر انھیں یقین تھا کہ لڑائی ہو کر رہے گی، اس لیے انھوں نے حضرت ابن عمر ؓ کو انصاری سے گھوڑا لانے کے متعلق کہا اور خود بھی تیاری میں مصروف ہو گئے۔
آپ نے جب اپنے بیٹے کو گھوڑا لانے کے لیے بھیجا تو دیکھا کہ لوگ جمع ہیں۔
اس لیے فرمایا کہ لوگوں کو بھی دیکھنا کیوں جمع ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے پہلے لوگوں کا حال معلوم کیا اور بیعت کر لی۔
پھر گھوڑالا کر حاضر کیا اوراپنے باپ کو لوگوں کے اجتماع کا حال بتایا پھر انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی، بظاہر یہ بیعت، بیعت اسلام معلوم ہوتی تھی، اس لیے جس شخص کو حضرت عمر ؓ کےمسلمان ہونے کا علم نہیں تھا جب اس نے بیعت کا لفظ سنا تو سمجھا کہ حضرت ابن عمر ؓ اپنے باپ سے پہلے بیعت اسلام کر کے آئے ہیں، حالانکہ یہ بیعت رضوان تھی۔
بیعت اسلام کے وقت بھی اس طرح کا واقعہ پیش آیا تھا جس کی تفصیل ایک دوسری حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
اس حدیث کے مطابق جب کہا جاتا کہ ابن عمر ؓ نے اپنے باپ سے پہلے ہجرت کی ہے تو آپ ناراض ہو جاتے اور اس کی وضاحت کرتے کہ لوگوں کا گمان غلط ہے۔
(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3916)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4187