تخریج: «أخرجه أبويعلي: لم أجده، والحاكم:2 /420، وللحديث شواهد، وحديث المسور بن مخرمة: أخرجه ابن ماجه، الطلاق، حديث:2048 وهو حديث حسن.»
تشریح:
1. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی نے جب طلاق اور آزادی کو معلق کیا‘ مثلاً: یوں کہا کہ وہ عورت جس سے میں نکاح کروں گااسے طلاق ہے یا یوں کہے کہ ہر وہ غلام جسے میں خریدوں گا وہ آزاد ہے تو نکاح کر لینے اور غلام خرید لینے کے بعد اس پر عمل نہیں کیا جائے گا‘ یعنی نکاح کے بعد عورت پر طلاق واقع نہیں ہوگی اور خریدنے کے بعد غلام بھی آزاد نہیں ہوگا بلکہ اس کا یہ قول لغو اور ضائع ہو گا۔
2.اس مسئلے کی بے شمار صورتیں ہیں‘ یہ حدیث مطلقاً تمام صورتوں کو شامل ہے۔
اسے عام رکھا جائے گا اور مختلف احوال میں فرق نہیں کیا جائے گا۔
3. یہ مسئلہ ان اختلافی مسائل میں سے ہے جو مشہور و معروف ہیں۔
جمہور تو کہتے ہیں کہ یہ طلاق اورآزادی قطعاً واقع نہیں ہوگی جبکہ احناف کہتے ہیں کہ بہرنوع یہ واقع ہو جائے گی۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس میں تفصیل ہے اور مختلف احوال کے لحاظ سے فرق ہے‘ چنانچہ اگر کسی عورت کا نام لیا گیا ہو یا کسی گروہ ‘قبیلے‘ جگہ یا وقت کی تعیین کی جائے تو طلاق اور آزادی واقع ہو جائے گی۔
اگر یہ صورت نہ ہو تو پھر نہیں۔
لیکن ظاہر یہ ہے کہ ایسی صورت میں طلاق ہر گز واقع نہیں ہوگی جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔