Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب النكاح
نکاح کے مسائل کا بیان
8. باب الطلاق
طلاق کا بیان
حدیث نمبر: 924
وعن عائشة رضي الله تعالى عنها أن ابنة الجون لما أدخلت على رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ودنا منها قالت: أعوذ بالله منك فقال لها: «‏‏‏‏لقد عذت بعظيم الحقي بأهلك» . رواه البخاري.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جون کی بیٹی جب نکاح کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت گاہ میں داخل کی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب ہوئے تو اس نے کہا میں آپ سے اللہ کی پناہ پکڑتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے بڑی عظیم الشان ذات کی پناہ طلب کی ہے۔ تو اپنے گھر والوں کے ساتھ جا مل۔ (بخاری)

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الطلاق، باب من طلق وهل يواجه الرجل امرأته باطلاق، حديث:5254، وانظر، حديث:891.»

حكم دارالسلام: صحيح

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 924 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 924  
تخریج:
«أخرجه البخاري، الطلاق، باب من طلق وهل يواجه الرجل امرأته باطلاق، حديث:5254، وانظر، حديث:891.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کنائے کے الفاظ میں بھی طلاق ہو جاتی ہے۔
2. طلاق صریح تو یہ ہے کہ طلاق دینے والا صریح الفاظ میں کہے کہ میں نے تجھے طلاق دی۔
یہ طلاق واقع ہو جائے گی‘ خواہ طلاق دینے والے کی نیت طلاق کی نہ ہو کیونکہ اس میں لفظ طلاق بالکل واضح ہے۔
3.اور طلاق بالکنایہ یہ ہے کہ طلاق دینے والا ایسے الفاظ کہے جن کا معنی و مفہوم طلاق بھی ہو سکتا ہے اور اس کا غیربھی‘ مثلاً: شوہر نے کہہ دیا کہ تو آزاد ہے‘ یا اس طرح کہے کہ جا اپنے میکے چلی جا وغیرہ‘ ایسی صورت میں اس طرح کے الفاظ کہنے والے کی نیت پر منحصر ہوگا۔
اگر اس کا ارادہ طلاق کا ہوگا تو ایک طلاق واقع ہو جائے گی اور اگر ایسے الفاظ بول کر اس کا مقصود طلاق نہیں ہوگا تو پھر طلاق واقع نہیں ہوگی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 924   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 891  
´حق مہر کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ عمرہ بنت الجون نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی جب اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (خلوت میں) داخل کیا گیا یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نکاح کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے ٹھیک پناہ دینے والے کی پناہ طلب کی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے طلاق دیدی اور اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اس کو فائدے کے طور پر تین کپڑے دے دو۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کی ہے۔ اس کی سند میں متروک راوی ہے۔ اس کا اصل قصہ صحیح بخاری میں ابواسید ساعدی سے مروی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 891»
تخریج:
« «موضوع» أخرجه ابن ماجه، الطلاق، باب متعة الطلاق، حديث:2037.* عبيد بن القاسم متروك، كذبه ابن معين، واتهمه أبوداود بالوضع (تقريب)، وحديث البخاري، الطلاق، حديث:5254 هو الصحيح، وحديث أبي أسيد الساعدي: أخرجه البخاري، الطلاق، حديث:5255 وانظر، حديث:924.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے صحیح بخاری کی روایت صحیح ہے‘ علاوہ ازیں شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ اس میں حضرت اسامہ کا ذکر منکر ہے اور مزید لکھا ہے کہ صحیح الفاظ صحیح بخاری کے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو اسید رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اسے اس کے والدین کے ہاں بھیجنے کے لیے تیار کریں اور اسے پہننے کے لیے دو سوتی کپڑے دے دیں‘ لہٰذا صحیح بخاری کی روایت ہی صحیح ہے جیسا کہ دیگر محققین نے بھی کہا ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲۵ /۴۶۰.۴۶۲‘ والإرواء:۷ /۱۴۶‘ حدیث:۲۰۶۴) 2. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت کو دخول سے پہلے طلاق ہو جائے اور اس کا مہر بھی معین نہ ہوا ہو تو اسے کچھ نہ کچھ مال ضرور دینا چاہیے۔
علماء کی اکثریت اسے واجب کہتی ہے۔
آیت کا ظاہر بھی اسی کا مؤید ہے۔
وضاحت: «عَمْرَہ بنت جون» عمرہ میں عین پر فتحہ اور میم ساکن ہے۔
جون میں جیم پر فتحہ اور واؤ ساکن ہے۔
اس جونیہ کے (نام کے) بارے میں اختلاف ہے‘ چنانچہ اس روایت میں ہے کہ یہ عَمْرہ ہے۔
اورابن جوزی نے اپنی کتاب (التلقیح‘ ص:۱۳) میں ذکر کیا ہے کہ یہ اسماء بنت نعمان بن ابی الجون بن حارث کندیہ ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی نقل کردہ ابو اسید کی حدیث کے بعض طرق اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ امیمہ بنت نعمان بن شراحیل ہے۔
امام زہری کہتے ہیں کہ یہ فاطمہ بنت ضحاک ہے۔
(التلقیح‘ ص:۱۲) صاف ظاہر ہے کہ ان سب سے ایک ہی عورت مراد ہے اور اختلاف تو راویوں کے تصرفات کی وجہ سے ہے۔
اور درست بات یہ ہے کہ اس کا نام امیمہ ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت ابواُسَیْد رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ اُسَیْد اسد کی تصغیرہے۔
یہ مالک بن ربیعہ بن بَدَن ہیں۔
(بدن کے با اور دال دونوں پر فتحہ ہے۔
)
یہ نام کی بجائے اپنی کنیت سے زیادہ مشہور تھے۔
غزوۂ بدر اور دیگر غزوات میں شریک ہوئے۔
۳۰ ہجری میں وفات پائی۔
اور ایک قول کے مطابق اس کے بعد وفات پائی۔
بلکہ مدائنی کے قول کے مطابق ۶۰ ہجری میں وفات پائی اور بدری صحابہ میں سے وفات پانے والے سب سے آخری صحابی یہ ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 891   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3446  
´شوہر عورت کا منہ دیکھتے ہی اسے طلاق دے دے۔`
اوزاعی کہتے ہیں کہ میں نے زہری سے اس عورت کے متعلق سوال کیا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (بچنے کے لیے، اللہ کی) پناہ مانگی تھی تو انہوں نے کہا: عروہ نے مجھ سے عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت بیان کی ہے کہ کلابیہ (فاطمہ بنت ضحاک بن سفیان) جب (منکوحہ کی حیثیت سے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئی اور (اپنی سادہ لوحی سے دوسری ازواج کے سکھا پڑھا دینے کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی) کہہ بیٹھی «أعوذباللہ منک» میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3446]
اردو حاشہ:
(1) کلابی بیوی ان کا نام فاطمہ بنت ضحاک تھا۔ ان کے والد گرامی نے ان کا نکاح رسول اللہﷺ کے ساتھ کیا تھا۔ اختلاف یہ ہے کہ انہوں نے یہ لفظ (میں آپ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں) کیوں کہے تھے۔ بعض روایات میں ہے کہ کسی نے انہیں دھوکا دیتے ہوئے کہا کہ تو یہ لفظ رسول اللہﷺ سے اول ملاقات میں کہے گی تو آپ بڑے خوش ہوں گے۔ وہ اس دھوکے میں آگئیں کیونکہ یہ لفظ تو طلاق طلب کرنے کے لیے ہیں۔ یا ممکن ہے‘ باپ کے کیے ہوئے نکاح پر راضی نہ ہوں‘ لہٰذا یہ لفظ کہے۔ بہر حال آپ نے طلاق دے دی۔
(2) طلاق چونکہ انتہائی قبیح چیز ہے‘ اس لیے بہتر ہے کہ عورت کو بالمشافہ طلاق نہ دی جائے بلکہ پیغام یا تحریر کی صورت میں بھیجی جائے۔ لیکن چونکہ اس عورت نے خود مطالبہ کیا تھا‘ لہٰذا آپ نے اسے بالمشافہ طلاق دی۔ گویا ایسے بھی ہوسکتا ہے۔
(3) اپنے گھر چلی جا یہ الفاظ اگر طلاق کی نیت سے کہے جائیں تو طلاق ہوجائے گی۔ یہاں ایسے ہی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3446   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2050  
´جن الفاظ سے طلاق واقع ہوتی ہے ان کا بیان۔`
اوزاعی کہتے ہیں میں نے زہری سے پوچھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی بیوی نے آپ سے اللہ کی پناہ مانگی تو انہوں نے کہا: مجھے عروہ نے خبر دی کی عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جَون کی بیٹی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت میں آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب گئے تو بولی: میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ایک بڑی ہستی کی پناہ مانگی ہے تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2050]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
طلاق کے لیے بعض الفاظ صریح ہیں، مثلاً:
تجھے طلاق ہے۔
میں نے تجھے طلاق دی۔
ان سے بالاتفاق طلا ق ہوجاتی ہے۔

(2)
بعض الفاظ ایسے ہیں کہ ان سے طلاق بھی مراد ہوسکتی ہے اور کوئی دوسرا مفہوم بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔
انہیںکنایہ کےالفاظ کہتے ہیں۔
ان میں کہنے والے کی نیت کو دخل ہے۔
اگر اس نے طلاق کی نیت سے کہےہیں تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں، مثلاً:
اس حدیث میںاپنے گھروالوں کے پاس چلی جا سے مراد طلاق ہے لیکن حضرت کعب بن مالک کی توبہ کے مشہور واقعے میں جب رسول اللہﷺ نے انہیں حکم دیا کہ بیوی سے مقاربت نہ کریں تو انہوں نے بیوی سے یہی الفاظ کہے:
(الحقی باهلك)
اپنے گھروالوں کے ہاں چلی جا۔
اور وہ طلاق شمار نہیں ہوئی کیونکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ تم اس گھر میں رہائش نہ رکھو جہاں میں موجود ہوں، ایسا نہ ہو کہ نبیﷺ کےحکم کی خلاف ورزی ہوجائے اور میں مقاربت کربیٹھوں۔ (صحیح البخاري، المغازي، باب حدیث کعب بن مالك حدیث: 4481)

(3)
  اس واقعہ سے متعلق چند فوائد حدیث: 2037 کے تحت بیان ہوچکے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2050   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5254  
5254. سیدنا اوزاعی بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام زہری سے دریافت کیا: نبی ﷺ کی وہ کون سی بیوی تھی جس نے آپ ﷺ سے پناہ مانگی تھی؟ تو انہوں نے کہا کہ مجھے سیدنا عروہ نے بتایا، انہوں نے سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت کیا کہ دختر جون کو جب رسول اللہ ﷺ کے پاس بلایا گیا اور آپ ﷺ اس کے قریب گئے تو اس نے کہا: میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: تو نے بڑی عظیم ذات کے ذریعے سے پناہ مانگی ہے، لہذا تو اپنے اہل خانہ کے ہاں چلی جا۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری) نے فرمایا: اس حدیث کو حجاج بن ابو منیع نے اپنے دادا سے، انہوں نے امام زہری سے انہوں نے عروہ سے بیان کیا کہ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5254]
حدیث حاشیہ:
آپ نے اس عورت سے فرمایا کہ اپنے میکے چلی جا، یہ طلاق کا کنایہ ہے۔
ایسے کنایہ کے الفاظ میں اگر طلاق کی نیت ہو تو طلاق پڑ جاتی ہے۔
کہتے ہیں پھر ساری عمر یہ عورت مینگنیاں چنتی رہی اور کہتی جاتی تھی میں بد نصیب ہوں۔
ایک روایت میں یوں ہے کہ یہ عورت بڑی خوبصورت تھی بعض عورتوں نے جب اسے دیکھا تو انہوں نے اس کو فریب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب تیرے پاس آئیں تو (أعوذ باللہ منك)
کہہ دینا۔
آپ کو ایسا کہنا پسند آتا ہے۔
وہ بھولی بھالی عورت اس چکمہ میں آ گئی۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے صحبت کرنے چاہی تو وہ یہی کہہ بیٹھی۔
آپ نے اس کو طلاق دے دی۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے یہ نکالا کہ عورت کے منہ در منہ اسے طلاق دینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
میں (وحیدا لزماں)
کہتا ہوں کہ یہ ایک خاص واقعہ ہے۔
اول تو اس عورت کا کوئی حق صحبت آپ پر نہ تھا۔
دوسرے خود اس نے شرارت کی، بھلا یہ کیا بات تھی کہ خاوند جورو کا سب سے پیارا ہوتا ہے، اس سے اللہ کی پناہ مانگنے لگی۔
اس لیے آپ نے اس کے منہ در منہ طلاق دے دی۔
یہ کچھ بھی مروت کے خلاف نہ تھا۔
بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ عورت زندگی بھر نادم رہی اور کہتی رہی کہ میں بڑی بد بخت ہوں۔
یہ بھی مروی ہے کہ وہ مرنے سے پہلے فاتر العقل ہو گئی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5254   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5254  
5254. سیدنا اوزاعی بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام زہری سے دریافت کیا: نبی ﷺ کی وہ کون سی بیوی تھی جس نے آپ ﷺ سے پناہ مانگی تھی؟ تو انہوں نے کہا کہ مجھے سیدنا عروہ نے بتایا، انہوں نے سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت کیا کہ دختر جون کو جب رسول اللہ ﷺ کے پاس بلایا گیا اور آپ ﷺ اس کے قریب گئے تو اس نے کہا: میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: تو نے بڑی عظیم ذات کے ذریعے سے پناہ مانگی ہے، لہذا تو اپنے اہل خانہ کے ہاں چلی جا۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری) نے فرمایا: اس حدیث کو حجاج بن ابو منیع نے اپنے دادا سے، انہوں نے امام زہری سے انہوں نے عروہ سے بیان کیا کہ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5254]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے عنوان کے ہر دو اجزاء ثابت ہوئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیوی سے فرمایا:
تم اپنے میکے چلی جاؤ۔
اس سے مراد طلاق تھی۔
معلوم ہوا کہ نکاح کے بعد طلاق دینا جائز ہے۔
اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔
(2)
اسی طرح آپ نے اسے مخاطب ہو کر فرمایا، اس سے عنوان کا دوسرا جز ثابت ہوا۔
لیکن بہتر ہے کہ طلاق دیتے وقت بیوی کومنہ در منہ نہ کہے۔
اس میں آسانی بھی ہے اور بیوی کے ساتھ نرمی کرنا بھی ہے۔
ہاں، اگر ضرورت ہو تو بیوی کے سامنے بھی طلاق دی جا سکتی ہے۔
بہرحال اس معاملے میں کوئی پابندی نہیں ہے۔
طلاق دینا خاوند کا اپنا اختیار ہے، وہ اپنا اختیار جس طرح چاہے استعمال کر سکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5254