Note: Copy Text and to word file

بلوغ المرام
كتاب النكاح
نکاح کے مسائل کا بیان
4. باب الصداق
حق مہر کا بیان
حدیث نمبر: 883
وعن ابن عباس قال: لما تزوج علي فاطمة،‏‏‏‏ قال له رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏أعطها شيئا» ‏‏‏‏ قال: ما عندي شيء قال: «‏‏‏‏فأين درعك الحطمية؟» . رواه أبو داود والنسائي وصححه الحاكم.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کچھ دو۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ تمہاری حطمی زرہ کہاں ہے؟ اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، باب في الرجل يدخل بامرأته قبل أن ينقدها شيئًا، حديث:2125، والنسائي، النكاح، حديث:3377، والحاكم: لم أجده، وابن حبان (الإحسان):9 /50.»

حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 883 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 883  
تخریج:
«أخرجه أبوداود، باب في الرجل يدخل بامرأته قبل أن ينقدها شيئًا، حديث:2125، والنسائي، النكاح، حديث:3377، والحاكم: لم أجده، وابن حبان (الإحسان):9 /50.»
تشریح:
1. اس حدیث سے مسئلۂ مہر کے علاوہ یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ماکان وما یکون حاصل نہیں تھا‘ اسی لیے آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دریافت فرما رہے تھے کہ تمھاری حطمی زرہ کہاں ہے؟ ورنہ یوں فرماتے کہ تمھاری حطمی زرہ جو فلاں مقام پر تم نے رکھی ہوئی ہے وہ لا کر دے دو۔
2.یہ بھی معلوم ہوا کہ سسر حق مہر کا مطالبہ کر سکتا ہے‘ البتہ داماد سے وہی چیز طلب کی جائے جو اس کے پاس ہو۔
ایسی چیز کا تقاضا و مطالبہ نہ کیا جائے جو اس کے بس میں نہ ہو۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 883   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3377  
´پہلی ملاقات میں بیوی کو خلوت کا تحفہ (عطیہ) دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: مجھے ملنے کا موقع عنایت فرمائیے۔ آپ نے فرمایا: اسے کچھ (تحفہ) دو، میں نے کہا: میرے پاس تو کچھ ہے نہیں، آپ نے فرمایا: تیری حطمی زرہ کہاں ہے؟ میں نے کہا: یہ تو میرے پاس ہے، آپ نے فرمایا: وہی اسے دے دو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3377]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ کی تبویب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذکورہ زرہ کو مہر سے الگ سمجھ رہے ہیں اور اسے رخصتی اور خلوت (علیحدگی) کا خصوصی تحفہ قرار دیتے ہیں جب کہ بہت سے اہل علم کے نزدیک یہ مہر ہی ہے جو نکاح کی بجائے رخصتی کے موقع پر دیا گیا۔ واللہ أعلم۔
(2) حطمی زرہ بعض نے اہل علم نے کہا کہ حُطَمِیَّہ‘ زرہ کی صفت ہے‘ یعنی توڑ دینے والی اور اس سے مراد ہے تلواروں‘ نیزوں اور تیروں کو توڑ دینے والی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کھلی اور بھاری زرہ کو حُطَمِیَّہ‘ کہا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حُطَمِیَّہ‘ قبیلئہ عبدالقیس کی ایک شاخ حطم بن محارب کی طرف منسوب ہے جس کے باشندے یہ زرہیں بناتے تھے۔ اور یہی قول زیادہ معتبر ہے۔ واللہ أعلم۔ دیکھیے: (النھایة فی غریب الحدیث: 1/402)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3377