صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
36. بَابُ غَزْوَةِ الْحُدَيْبِيَةِ:
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 4176
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ بَزِيعٍ , حَدَّثَنَا شَاذَانُ , عَنْ شُعْبَةَ , عَنْ أَبِي جَمْرَةَ , قَالَ: سَأَلْتُ عَائِذَ بْنَ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ , هَلْ يُنْقَضُ الْوِتْرُ؟ قَالَ:" إِذَا أَوْتَرْتَ مِنْ أَوَّلِهِ فَلَا تُوتِرْ مِنْ آخِرِهِ".
ہم سے محمد بن حاتم بن زریع نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شاذان (اسود بن عامر) نے ‘ ان سے شعبہ نے ‘ ان سے ابوحمزہ نے بیان کیا کہ انہوں نے عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے پوچھا: وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے اور بیعت رضوان میں شریک تھے کہ کیا وتر کی نماز (ایک رکعت اور پڑھ کر) توڑی جا سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ اگر شروع رات میں تو نے وتر پڑھ لیا ہو تو آخر رات میں نہ پڑھو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4176 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4176
حدیث حاشیہ:
حافظ صاحب فرما تے ہیں۔
یعني إذا اوتر المرءثم نام أراد أن یتطوع صلی یصلي رکعة لیصیر الوتر شفعا ثم یتطوع ما شاءثم یوتر محافظة علی قوله اجعلوا آخرصلاتکم باللیل وترا ویصلی تطوعا ما شاءولا ینقض وترہ ویکتفي بالذي تقدم فأجاب باختیار الصفة الثانیة فقال إذا أوترت من أوله فلا توتر من آخرہ وھذہ المسئلة فیھا السلف فکان ابن عمر یری نقض الوتر والصحیح عند الشافعیة أنه لا ینقض کما في حدیث الباب وھو قو ل المالکیة۔
(فتح)
یعنی مطلب یہ کہ جب آدمی سونے سے پہلے وتر پڑھ لے اور پھر رات کو اٹھ کر نفل پڑھنا چاہے تو کیا وہ ایک اور رکعت پڑھ کر پہلے وتر کو شفع (جوڑا)
بنا سکتا ہے پھر اس کے بعد جس قدر چاہے نفل پڑھے اور آخر میں پھر وتر پڑھ لے۔
اس حدیث کی تعمیل کے لیے جس میں ارشاد ہے کہ رات کی آخری نماز وتر ہونی چاہیے یا دوسری صورت یہ کہ وتر کو شفع بنا کر نہ توڑ ے بلکہ جس قدر چاہے رات کو اٹھ کر نفل نماز پڑھ لے اور وتر کے لیے پہلے ہی پڑھی ہوئی رکعت کو کافی سمجھے پس دوسری صورت کے اختیار کرنے کا جواب دیا ہے اور کہا کہ جب تم پہلے وتر پڑھ چکے تو اب دوبارہ ضرورت نہیں ہے۔
اس مسئلہ میں سلف کا اختلاف ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ وتر کو دوبارہ توڑ کر پڑھنے کے قائل تھے اور شافعیہ کا قول صحیح یہی ہے کہ اسے نہ توڑا جائے جیسا کہ حدیث باب میں ہے۔
مالکیہ کا بھی یہی قول ہے۔
واللہ اعلم۔
حضرت عائذ بن عمرو مدنی ؓ بیعت رضوان والوں میں سے ہیں۔
آخر میں بصرہ میں سکونت کرلی تھی۔
ان سے روایت کر نے والے زیادہ بصری ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4176
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4176
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری ؒ کا اس حدیث کو بیان کرنے کا مقصود یہ ہے کہ حضرت عائذ بن عمرو ؓ اصحاب شجرہ سے ہیں اور انھوں نے بیعت رضوان میں شرکت کی تھی۔
2۔
چونکہ اس حدیث میں نقص وتر کا مسئلہ بیان ہوا ہے، اس مناسبت سے ہم اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں:
اگر کوئی نماز عشاء کے بعد وتر پڑھ لے اور سوجائے، پھر رات کے کسی حصے میں بیدار ہوکرتہجد پڑھنا چاہے توپہلے سے ادا کردہ وتروں کی تعداد کو ایک رکعت پڑھ کر جفت کرنا نقض وتر کہلاتا ہے۔
صحابہ کرام ؓ میں نقص وتر کے متعلق اختلاف تھا۔
کچھ حضرات اس کے قائل تھے اور اکثریت اس کے خلاف تھی، چنانچہ امام ترمذی ؒ لکھتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ کرام ؓ اور ان کے بعد کچھ تابعین ؒ نقض وتر کے قائل تھے۔
وہ اس طرح کہ دوبارہ بیدار ہوکر ایک رکعت پڑھے اور اسے ادا شدہ وتروں سے ملا دیا جائے، پھر جس قدر نوافل میسر ہوں پڑھ لیے جائیں، ان کے اختتام پر وتر ادا کرلیے جائیں کیونکہ حدیث میں ہے:
”ایک رات میں دو وتر نہیں ہوتے۔
“ اس کے برعکس کچھ اہل علم صحابہ کرام ؓ اور تابعین ؒ کا موقف ہے کہ اگر کوئی عشاء کے بعد وترپڑھ کرسوجائے پھر رات کے کسی حصے میں بیدار ہوتوحسب توفیق نفل پڑھتا رہے۔
اسے نقض وتر کی ضروررت نہیں بلکہ اس کے پہلے سے اداشدہ وتر ہی برقرار ہیں، اسے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
پھر فرماتے ہیں کہ یہ آخری موقف زیادہ صحیح ہے۔
کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے نماز وتر کے بعد نفل ادا کرنا ثابت ہے۔
اس کے بعد امام ترمذی ؒ نے حضرت ام سلمہ ؓ سے مروی حدیث ذکر کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتروں کے بعد رورکعت پڑھتے تھے۔
(جامع الترمذي، الوتر، باب 13 ماجاء لا وتران في لیلة)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کسی وتر کے متعلق سوال کیا توآپ نے فرمایا:
اگر میں سونے سے پہلے وترپڑھ لوں، پھر بیدار ہوکر نفل پڑھنا چاہوں تو اپنے پہلے ادا کردہ وتروں کو ایک رکعت پڑھ کر جفت کرلیتا ہوں، پھر دورکعت نماز ادا کرتا ہوں۔
آخر میں ایک رکعت پڑھتا ہوں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
”تمہاری رات کی آخری نماز وتر ہونی چاہیے۔
“ (مسند أحمد: 135/2)
حضرت مسروق ؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے نقض وتر کے متعلق سوال کیا توآپ نے فرمایا:
میرے پاس اس سلسلے میں کوئی روایت نہیں بلکہ اپنے اجتہاد سے کام لے کر ایسا کرتا ہوں۔
حضرت مسروق ؒ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے ساتھی اس عمل پر بہت تعجب کیا کرتے تھے۔
(مختصر قیام اللیل:
ص: 220)
حضرت ابن عباس ؓ کے پاس جب نقض وترکا ذکر ہواتوآپ نے فرمایا:
نقض وتر کرنے والا وتروں سے کھیلتا ہے، نیز آپ نے فرمایا:
اس طرح تورات میں تین دفعہ پڑھے جاتے ہیں، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے رات میں دو فعہ وترپڑھنے سے منع فرمایا ہے، حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:
جو لوگ نقض وتر کرتے ہیں وہ گویا اپنی نماز کے ساتھ کھیلتے ہیں۔
(مختصر قیام اللیل، ص: 221)
اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہےکہ اگر کسی نے رات کے پہلےحصے میں وتر پڑھ لیے ہیں تو اگررات کے پچھلے حصے میں نفل پڑھنے کے لیے وقت میسر آئے تو اسے مزید نفل پڑھنے کی اجازت ہے۔
وہ نہ تو نقض وتر کرے اور نہ دوبارہ وتر ہی ادا کرے۔
حضرت عائذ بن عمرو ؓ نے مذکورہ حدیث میں اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔
اس سلسلے میں ہمارا تفصیلی فتوی ضرور ملاحظہ کیا جائے جو ہم نے ہفت روزہ اہل حدیث میں لکھا تھا، جسے کتابی شکل میں الگ شائع کیا گیا ہے۔
(فتاویٰ أصحاب الحدیث: 147/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4176