صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
36. بَابُ غَزْوَةِ الْحُدَيْبِيَةِ:
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 4172
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ , حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا سورة الفتح آية 1 , قَالَ: الْحُدَيْبِيَةُ , قَالَ أَصْحَابُهُ: هَنِيئًا مَرِيئًا سورة النساء آية 4 فَمَا لَنَا , فَأَنْزَلَ اللَّهُ: لِيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ سورة الفتح آية 5 , قَالَ شُعْبَةُ: فَقَدِمْتُ الْكُوفَةَ فَحَدَّثْتُ بِهَذَا كُلِّهِ عَنْ قَتَادَةَ , ثُمَّ رَجَعْتُ فَذَكَرْتُ لَهُ , فَقَالَ: أَمَّا إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ سورة الفتح آية 1, فَعَنْ أَنَسٍ , وَأَمَّا هَنِيئًا مَرِيئًا سورة النساء آية 4 فَعَنْ عِكْرِمَةَ".
مجھ سے احمد بن اسحاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی ‘ انہیں قتادہ نے اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ (آیت) «إنا فتحنا لك فتحا مبينا» ”بیشک ہم نے تمہیں کھلی ہوئی فتح دی۔“ یہ فتح صلح حدیبیہ تھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تو مرحلہ آسان ہے (کہ آپ کی تمام اگلی اور پچھلی لغزشیں معاف ہو چکی ہیں) لیکن ہمارا کیا ہو گا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «ليدخل المؤمنين والمؤمنات جنات» ”اس لیے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں جنت میں داخل کی جائیں گی جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔“ شعبہ نے بیان کیا کہ پھر میں کوفہ آیا اور میں قتادہ سے پورا واقعہ بیان کیا ‘ پھر میں دوبارہ قتادہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے سامنے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ «إنا فتحنا لك» ”بیشک ہم نے تمہیں کھلی فتح دی ہے۔“ کی تفسیر تو انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے لیکن اس کے بعد «هنيئا مريئا» (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تو ہر مرحلہ آسان ہے) یہ تفسیر عکرمہ سے منقول ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4172 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4172
حدیث حاشیہ:
1۔
اللہ تعالیٰ کے کلام میں"فتح مبین" سے مراد صلح حدیبیہ ہے جیسا کہ پہلے حضرت براء بن عازب ؓ کے حوالے سے بیان ہوچکا ہے کیونکہ یہ صلح مستقبل قریب میں فتوحات کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
مسلمانوں نے تبلیغ کی تو لوگوں نے کسی قسم کا دباؤ کے بغیر اسلام قبول کیا۔
صلح کے نتیجے میں میل جول میں وسعت پیدا ہوئی۔
ان آیات کے آغاز میں رسول اللہ ﷺ سے خطاب ہے، اس لیے صحابہ کرام ؓ نے پوچھا کہ اس صلح کے نتیجے میں ہمارے لیے کیا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے اگلی آیات نازل فرمائیں کہ ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔
2۔
غفران ذنوب اگرچہ رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت ہے لیکن فتح کے فوائد وثمرات میں تو سب شریک ہیں۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4172