Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب البيوع
خرید و فروخت کے مسائل
20. باب الفرائض
فرائض (وراثت) کا بیان
حدیث نمبر: 815
وعن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «‏‏‏‏ما أحرز الوالد أو الولد فهو لعصبته من كان» .‏‏‏‏ رواه أبو داود والنسائي وابن ماجه وصححه ابن المديني وابن عبد البر.
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا ہے والد یا اولاد جو کچھ جمع کر کے اپنے گھر میں لائے تو وہ اس کے عصبہ کے لئے ہے خواہ عصبہ کوئی بھی ہو۔ اسے ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ ابن مدینی اور ابن عبدالبر نے اسے صحیح کہا ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الفرائض، باب في الولاء، حديث:2917، وابن ماجه، الفرائض، حديث:2732، والنسائي في الكبرٰي:4 /75، حديث:6348.»

حكم دارالسلام: حسن

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 815 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 815  
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الفرائض، باب في الولاء، حديث:2917، وابن ماجه، الفرائض، حديث:2732، والنسائي في الكبرٰي:4 /75، حديث:6348.»
تشریح:
اس حدیث میں جو مسئلہ بیان ہوا ہے وہ دراصل اس واقعے سے تعلق رکھتا ہے کہ ایک خاتون فوت ہوگئی۔
اس کے بیٹے اس کے وارث ہوئے‘ پھر بیٹے بھی فوت ہوگئے اور حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ان لڑکوں کے عصبہ ہونے کی حیثیت سے ان کے وارث بنے‘ پھر اس عورت کا آزاد کردہ غلام بھی فوت ہوگیا تو حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اس غلام کا ورثہ بھی اپنے قبضے میں کر لیا۔
اس عورت کے بھائیوں نے عورت کے آزاد کردہ غلام کی میراث کا دعویٰ کر دیا۔
اور یہ مقدمہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش ہوا۔
اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان فرمائی اور اس آزاد کردہ غلام کی میراث کا فیصلہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے حق میں کر دیا جو کہ اس عورت کے بیٹوں کے عصبہ تھے۔
واضح رہے کہ ولا‘ یعنی آزاد کردہ غلام کا ترکہ ذوی الفروض کے ورثے کی طرح تقسیم نہیں ہوتا بلکہ وہ سب سے قریبی عصبہ کا حصہ ہے۔
اگرچہ بعض نے اس میں اختلاف بھی کیا ہے‘ تاہم صحیح یہی ہے کہ یہ میراث میں تقسیم نہیں ہوتا۔
واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 815   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2917  
´ولاء (آزاد کیے ہوئے غلام کی میراث) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رئاب بن حذیفہ نے ایک عورت سے شادی کی، اس کے بطن سے تین لڑکے پیدا ہوئے، پھر لڑکوں کی ماں مر گئی، اور وہ لڑکے اپنی ماں کے گھر کے اور اپنی ماں کے آزاد کئے ہوئے غلاموں کی ولاء کے مالک ہوئے، اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ان لڑکوں کے عصبہ (یعنی وارث) ہوئے اس کے بعد عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے انہیں شام کی طرف نکال دیا، اور وہ وہاں مر گئے تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ آئے اور اس عورت کا ایک آزاد کیا ہوا غلام مر گیا اور مال چھوڑ گیا تو اس عورت کے بھائی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس اس عورت کے ولاء ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2917]
فوائد ومسائل:
غلاموں کا ولاء میت کے وارث عصبات کو منقتل ہوگا۔
جیسے کہ دیگر اموال۔


عصبہ کے ہوتے ہوئے ماموں وارث نہیں بن سکتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2917   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2732  
´ولاء یعنی غلام آزاد کرنے پر حاصل ہونے والے حق وراثت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رباب بن حذیفہ بن سعید بن سہم نے ام وائل بنت معمر جمحیہ سے نکاح کیا، اور ان کے تین بچے ہوئے، پھر ان کی ماں کا انتقال ہوا، تو اس کے بیٹے زمین جائیداد اور ان کے غلاموں کی ولاء کے وارث ہوئے، ان سب کو لے کر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ شام گئے، وہ سب طاعون عمواس میں مر گئے تو ان کے وارث عمرو رضی اللہ عنہ ہوئے، جو ان کے عصبہ تھے، اس کے بعد جب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ شام سے لوٹے تو معمر کے بیٹے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے خلاف اپنی بہن کے ولاء (حق میراث) کا مقدمہ لے کر عم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2732]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
وراثت کی تقسیم میں پہلے اصحاب الفروض کو ان کے مقررہ حصے دیے جاتے ہیں۔
جو کچھ ان سے بچے وہ میت کے رشتے داروں کو دیا جاتا ہے۔
اگر آزاد کردہ غلام کے عصبہ رشتےدار نہ ہوں تو آزاد کرنے والا عصبہ کی جگہ وارث ہوگا۔
اگر غلام کے اصحاب الفروض اور عصبہ رشتہ دار نہ ہوں تو سارا ترکہ آزاد کرنے والے کو ملے گا۔

(3)
حضرت ام وائل کی ولاء ان کے بیٹوں کو ملی۔
بیٹوں کی وفات کے بعد ولاء اسی خاندان، یعنی ان بچوں کے دوھیال اور ام وائل کےسسرال میں رہی۔
ام وائل کے میکے اوربچوں کےننھیال والے جو اس ترکے کے دعویدار تھے، ان کا دعویٰ قبول نہیں کیا گیا۔

(3)
عصبہ کی موجودگی میں ذوی الارحام وارث نہیں ہوتے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2732