بلوغ المرام
كتاب البيوع
خرید و فروخت کے مسائل
8. باب الحوالة والضمان
ضمانت اور کفالت کا بیان
حدیث نمبر: 739
وعن جابر رضي الله تعالى عنه قال: توفي رجل منا فغسلناه وحنطناه وكفناه ثم أتينا به رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فقلنا: تصلي عليه؟ فخطى خطا ثم قال:«أعليه دين؟» قلنا: ديناران فانصرف فتحملهما أبو قتادة فأتيناه فقال أبو قتادة: الديناران علي فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «حق الغريم وبرىء منهما الميت؟» قال: نعم، فصلى عليه. رواه أحمد وأبو داود والنسائي وصححه ابن حبان والحاكم.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم میں سے ایک آدمی فوت ہو گیا ہم نے اسے غسل دیا، خوشبو لگائی اور کفن پہنایا۔ پھر ہم اسے اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے اور عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند قدم آگے بڑھنے کیلئے اٹھائے اور دریافت فرمایا کہ ”کیا اس کے ذمہ قرض ہے؟“ ہم نے عرض کیا دو دینار تھے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے آئے۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے دو دینار کی ادائیگی اپنے ذمہ لے لی۔ پھر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا دو دینار میرے ذمہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مقروض کی طرح لازم و حق ہو گیا اور میت اس سے بری الذمہ ہو گئی۔“ اس نے کہا کہ ہاں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اسے احمد، ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، البيوع، باب في التشديد في الدين، حديث:3343، والنسائي، الجنائز، حديث:1964، وأحمد:3 /330، 5 /297، 304، وابن حبان (الإحسان):5 /25،26، حديث:3048.»
حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 739 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 739
تخریج: «أخرجه أبوداود، البيوع، باب في التشديد في الدين، حديث:3343، والنسائي، الجنائز، حديث:1964، وأحمد:3 /330، 5 /297، 304، وابن حبان (الإحسان):5 /25،26، حديث:3048.»
تشریح:
1. میت کی جانب سے قرض ادا کرنے کی ضمانت درست ہے۔
2. ضمانت دینے والا آدمی ضمانت کی رقم مرنے والے کے ترکے میں سے نہیں لے سکتا‘ اسے اپنی جیب سے زر ضمانت ادا کرنا ہوگا۔
3.میت کے حقوق مالیہ‘ جو اس پر واجب ہیں‘ مثلاً: حج‘ زکاۃ‘ قرض کی ادائیگی وغیرہ‘ کا اسے فائدہ پہنچتا ہے اور اس کی جانب سے دوسرے کے ادا کرنے سے ادا ہو جاتے ہیں۔
4.قرض ہو یا دوسرے حقوق العباد‘ جب تک ان کی ادائیگی نہ کی جائے یا حقدار یا قرض خواہ خود معاف نہ کر دے‘ کبھی ساقط نہیں ہوتے حتیٰ کہ مرنے کے بعد بھی ازخود معاف نہیں ہوتے۔
5. قرضہ لینا بہت ہی سنگین اور سخت معاملہ ہے‘ حتی الوسع قرض لینے سے گریز ہی کرنا چاہیے‘ اگر اشد مجبوری اور ناگزیر ضرورت کی بنا پر لے لے تو جلد از جلد اس کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہیے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 739