تخریج: «أخرجه الترمذي، الأحكام، باب ما ذكر عن رسول الله صلي الله عليه وسلم في الصلح بين الناس، حديث:1352، وسنده ضعيف جدًا ولكن له شواهد كثيرة عند أبي داود وابن حبان وغيرهما.* حديث أبي هريرة أخرجه ابن حبان (الموارد)، حديث:1199، وأبوداود، القضاء، حديث:3594، «وسنده حسن» .»
تشریح:
1. اس حدیث میں مسلمانوں کا ذکر اس وجہ سے ہے کہ شریعت اسلامی کے احکام کے مخاطب اور مکلف مسلمان ہی ہیں‘ ورنہ جہاں تک صلح کا تعلق ہے تو وہ اہل کتاب کے دونوں گروہوں یہود و نصاریٰ کے ساتھ بھی جائز ہے اور مشرکین اور دہریہ لوگوں کے ساتھ بھی۔
2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود اہل کتاب سے بھی صلح کی ہے۔
میثاق مدینہ میں یہود مدینہ کے ساتھ صلح ثابت ہے‘ نصارٰیٔ نجران کے ساتھ صلح ثابت ہے اور صلح حدیبیہ میں آپ نے مشرکین مکہ سے صلح کی۔
3. صلح کے لیے ضابطہ اور قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ صلح شریعت اسلامیہ کے کسی حکم کے خلاف نہ ہو جس سے کوئی حرام چیز حلال ہو جائے یا حلال چیز حرام ہو جائے۔
راویٔ حدیث: «حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ» عمرو بن عوف بن زید بن ملحہ المزنی
(مزنی کے ”میم“ پر ضمہ اور ”زا“ پر فتحہ)۔
ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے۔
یہ کثیر بن عبد اللہ کے جد امجد ہیں۔
قدیم الاسلام تھے۔
بدر میں حاضر ہوئے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حرم مدینہ کا عامل مقرر کیا۔
اللہ کے ڈر سے بہت زیادہ رونے والے تھے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں فوت ہوئے۔
«کثیر بن عبداللہ» امام شافعی اور امام ابوداود رحمہما اللہ اس کی بابت فرماتے ہیں: یہ بہت بڑا جھوٹا اور کذّاب رکن ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ نے اسے منکر الحدیث کہا ہے اور کہا ہے کہ اس کی کچھ حیثیت نہیں۔
امام نسائی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ ثقہ نہیں۔
ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس نے اپنے باپ اور دادا کی سند سے ایک موضوع نسخہ روایت کیا ہے۔