Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب البيوع
خرید و فروخت کے مسائل
7. باب الصلح
صلح کا بیان
حدیث نمبر: 735
عن عمرو بن عوف المزني رضي الله تعالى عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏الصلح جائز بين المسلمين إلا صلحا حرم حلالا أو أحل حراما والمسلمون على شروطهم إلا شرطا حرم حلالا أو أحل حراما» .‏‏‏‏ رواه الترمذي وصححه وأنكروا عليه لأنه من رواية كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف وهو ضعيف وكأنه اعتبره بكثرة طرقه. وقد صححه ابن حبان من حديث أبي هريرة رضي الله عنه.
سیدنا عمرو بن عوف مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے مگر ایسی صلح جائز اور درست نہیں جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال کر دے۔ مسلمان اپنی شرائط پر قائم ہیں (ان کی تمام شرائط ٹھیک ہیں) مگر بجز اس شرط کے جس سے کوئی حلال چیز حرام ہو جائے یا حرام چیز حلال ہو جائے۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور صحیح کہا ہے اور دوسرے محدثین نے ان پر انکار کیا ہے کیونکہ اس کا ایک راوی کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف ضعیف ہے۔ ایسا محسوس و معلوم ہوتا ہے کہ ترمذی نے کثرت طرق کی وجہ سے اس کو صحیح قرار دیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، الأحكام، باب ما ذكر عن رسول الله صلي الله عليه وسلم في الصلح بين الناس، حديث:1352، وسنده ضعيف جدًا ولكن له شواهد كثيرة عند أبي داود وابن حبان وغيرهما.* حديث أبي هريرة أخرجه ابن حبان (الموارد)، حديث:1199، وأبوداود، القضاء، حديث:3594، [وسنده حسن].»

حكم دارالسلام: صحيح

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 735 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 735  
تخریج:
«أخرجه الترمذي، الأحكام، باب ما ذكر عن رسول الله صلي الله عليه وسلم في الصلح بين الناس، حديث:1352، وسنده ضعيف جدًا ولكن له شواهد كثيرة عند أبي داود وابن حبان وغيرهما.* حديث أبي هريرة أخرجه ابن حبان (الموارد)، حديث:1199، وأبوداود، القضاء، حديث:3594، «وسنده حسن»
تشریح:
1. اس حدیث میں مسلمانوں کا ذکر اس وجہ سے ہے کہ شریعت اسلامی کے احکام کے مخاطب اور مکلف مسلمان ہی ہیں‘ ورنہ جہاں تک صلح کا تعلق ہے تو وہ اہل کتاب کے دونوں گروہوں یہود و نصاریٰ کے ساتھ بھی جائز ہے اور مشرکین اور دہریہ لوگوں کے ساتھ بھی۔
2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود اہل کتاب سے بھی صلح کی ہے۔
میثاق مدینہ میں یہود مدینہ کے ساتھ صلح ثابت ہے‘ نصارٰیٔ نجران کے ساتھ صلح ثابت ہے اور صلح حدیبیہ میں آپ نے مشرکین مکہ سے صلح کی۔
3. صلح کے لیے ضابطہ اور قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ صلح شریعت اسلامیہ کے کسی حکم کے خلاف نہ ہو جس سے کوئی حرام چیز حلال ہو جائے یا حلال چیز حرام ہو جائے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ عمرو بن عوف بن زید بن ملحہ المزنی (مزنی کے میم پر ضمہ اور زا پر فتحہ)۔
ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے۔
یہ کثیر بن عبد اللہ کے جد امجد ہیں۔
قدیم الاسلام تھے۔
بدر میں حاضر ہوئے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حرم مدینہ کا عامل مقرر کیا۔
اللہ کے ڈر سے بہت زیادہ رونے والے تھے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں فوت ہوئے۔
«کثیر بن عبداللہ» امام شافعی اور امام ابوداود رحمہما اللہ اس کی بابت فرماتے ہیں: یہ بہت بڑا جھوٹا اور کذّاب رکن ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ نے اسے منکر الحدیث کہا ہے اور کہا ہے کہ اس کی کچھ حیثیت نہیں۔
امام نسائی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ ثقہ نہیں۔
ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس نے اپنے باپ اور دادا کی سند سے ایک موضوع نسخہ روایت کیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 735