Note: Copy Text and to word file

بلوغ المرام
كتاب البيوع
خرید و فروخت کے مسائل
3. باب الربا
سود کا بیان
حدیث نمبر: 704
وعن سمرة بن جندب رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم نهى عن بيع الحيوان بالحيوان نسيئة. رواه الخمسة وصححه الترمذي وابن الجارود.
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیوان کو حیوان کے بدلے میں ادھار فروخت کرنا ممنوع قرار دیا ہے۔ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے۔ ترمذی اور ابن جارود نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، البيوع، باب في الحيوان بالحيوان نسيئة، حديث:3356، والترمذي، البيوع، حديث:1237، والنسائي، البيوع، حديث:4624، وابن ماجه، التجارات، حديث:2270، وأحمد:5 /12، 19، 3 /310.»

حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 704 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 704  
تخریج:
«أخرجه أبوداود، البيوع، باب في الحيوان بالحيوان نسيئة، حديث:3356، والترمذي، البيوع، حديث:1237، والنسائي، البيوع، حديث:4624، وابن ماجه، التجارات، حديث:2270، وأحمد:5 /12، 19، 3 /310.»
تشریح:
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ حیوان کے بدلے میں حیوان کی ادھار فروخت جائز نہیں‘ مگر اسی باب میں آنے والی حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی روایت اور دیگر روایات اس کے معارض ہیں‘ اسی بنا پر جمہور حیوان کے بدلے میں حیوان کو مطلقاً ادھار فروخت کرنا جائز سمجھتے ہیں‘ اگرچہ کمی بیشی بھی ہو۔
اور بعض اس سے منع کرتے ہیں۔
مگر امام شافعی رحمہ اللہ نے ان دونوں کے درمیان تطبیق یوں دی ہے کہ یہاں ادھار سے مراد دونوں طرف سے ادھار ہے‘ اس لیے کہ نسیئۃکا لفظ اس کا احتمال رکھتا ہے کہ یہ ادھار کے بدلے میں ادھار بیع کی صورت ہے اور یہ کسی کے نزدیک بھی صحیح نہیں ہے۔
امام خطابی رحمہ اللہ نے اس تطبیق اور جمع کی صورت کو پسند کیا ہے اور کہا ہے کہ جمع کی یہ صورت اچھی اور عمدہ ہے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ کا رجحان منع کی احادیث کی طرف ہے مگر راجح رائے وہی ہے جسے امام شافعی‘ علامہ خطابی رحمہما اللہ اور جمہور نے اختیار کیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 704   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4624  
´ذی روح کو ذی روح کے بدلے ادھار بیچنے کا بیان۔`
سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی روح کے بدلے ذی روح کو ادھار بیچنے سے منع فرمایا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4624]
اردو حاشہ:
پچھلے باب کی روایات حیوان قرض لینے کے بارے میں تھیں اور وہ جائز ہے۔ یہ باب اور یہ حدیث حیوان کی بیع کے بارے میں ہے۔ قرض تو ہوتا ہی ادھار ہے، البتہ بیع نقد بھی ہو سکتی ہے ادھار بھی۔ حیوان کی بیع حیوان کے ساتھ نقد تو درست ہے، خواہ کمی بیشی ہی ہو، مثلاََ: ایک طرف ایک جانور ہے اور دوسری طرف دو یا تین تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ آئندہ باب میں صراحت ہے لیکن حیوان کی بیع حیوان کے بدلے میں ہو تو ادھار درست نہیں۔ جن لوگوں نے پچھلے باب کی حدیثوں میں بیان کردہ قرض کی صورت کو بیع قرار دیا ہے انھیں اس روایت کی تاویل کرنا پڑے گی جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ حیوان کی بیع حیوان کے بدلے اس وقت منع ہے جب دونوں طرف ادھار ہو جیسا کہ بيع الكالِي بالكالِي میں ہوتا ہے۔ اگر ادھار ایک طرف ہو تو بیع جائز ہے۔ اس تاویل سے پچھلے باب کی روایات اس حدیث کے خلاف نہیں رہیں گی لیکن صحیح یہ ہے کہ ادھار بیع تو ہر صورت میں منع ہے۔ ادھار ایک طرف ہو یا دونوں طرف، البتہ حیوان کا قرض جائز ہے۔ گویا بیع اور قرض کے حکم میں فرق ہے۔ اس طریقے سے نہ تو حدیث کی تاویل کرنی پڑے گی اور نہ سابقہ احادیث کا انکار۔ اور یہی طریقہ صحیح ہے۔ بیع اور قرض میں فرق صرف حیوان کے مسئلے ہی میں نہیں دیگر اشیاء میں بھی جاری و ساری ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4624