بلوغ المرام
كتاب البيوع
خرید و فروخت کے مسائل
1. باب شروطه وما نهي عنه منه
بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام
حدیث نمبر: 659
وعن جابر رضي الله تعالى عنه قال: كنا نبيع سرارينا أمهات الأولاد، والنبي صلى الله عليه وآله وسلم حي، لا يرى بذلك بأسا. رواه النسائي وابن ماجه والدارقطني، وصححه ابن حبان.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ام ولد لونڈیوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں فروخت کر دیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں کوئی قباحت و مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ اسے نسائی، ابن ماجہ اور دارقطنی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن ماجه، العتق، باب أمهات الأولاد، حديث:2517، والنسائي في الكبرٰي:3 /199، حديث:5039، والدارقطني:4 /135، وابن حبان(الإحسان):6 /265، حديث:4308.»
حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 659 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 659
تخریج: «أخرجه ابن ماجه، العتق، باب أمهات الأولاد، حديث:2517، والنسائي في الكبرٰي:3 /199، حديث:5039، والدارقطني:4 /135، وابن حبان(الإحسان):6 /265، حديث:4308.»
تشریح:
یہ حدیث ام ولد کی بیع کے جواز کی مقتضی ہے لیکن اکثر علماء اس کی حرمت کے قائل ہیں‘ یہاں تک کہ متأخرین کی ایک جماعت نے تو اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے اور کہا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اسے فروخت کرنے سے منع کرنا اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا مخالفت نہ کرنا اس کی دلیل ہے کہ وہ اس کی ممانعت پر متفق تھے اور ان کی تائید نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتی ہے:
«أَیُّمَا امْرَأَۃٍ وَلَدَتْ مِنْ سَیِّدِھَا فَھِيَ مُعْتَقَۃٌ عَنْ دُبُرٍ مِنْہُ» ”جو لونڈی اپنے مالک سے بچے کو جنم دے وہ اس کی وفات کے بعد آزاد ہو جاتی ہے۔
“ (مسند أحمد: ۱ /۳۰۳‘ ۳۱۷‘ ۳۲۰‘ وسنن ابن ماجہ‘ العتق‘ باب أمھات الأولاد‘ حدیث:۲۵۱۵) اس حدیث کے اور بھی بہت سے طرق اور الفاظ ہیں۔
ملاحظہ ہو:
(عون المعبود:۴ /۴۷) اس حدیث سے استدلال کی وجہ یہ ہے کہ یہ اصل عام اور ضابطۂکلیہ پر دلالت کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ لونڈی جو ام ولد ہو‘ مالک کی موت کے بعد آزاد ہو جاتی ہے۔
اس اصل پر عمل اسی صورت میں ممکن ہے جب ام ولد لونڈی کی بیع ممنوع ہو۔
اور رہی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت تو وہ بہت سے احتمالات رکھتی ہے۔
کسی وقت کسی فعل پر مجرد خاموشی ایسی تحدید کی معرفت فراہم نہیں کرتی جو اصل عام اور ضابطۂکلیہ کا مقابلہ کر سکے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 659
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3954
´ام ولد (بچے والی لونڈی) مالک کے مرنے کے بعد آزاد ہو جائے گی۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں ام ولد ۱؎ کو بیچا کرتے تھے، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو انہوں نے ہمیں اس کے بیچنے سے روک دیا چنانچہ ہم رک گئے۔ [سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3954]
فوائد ومسائل:
ام ولد لونڈی کو بیچنا جائز ہے، یا نہیں؟ اس میں علماء کی دونوں ہی رائے ہیں۔
کچھ جواز کے قائل ہیں اور کچھ عدم جواز کے۔
امام شوکانی کی رائے ہے کہ احتیاط کے طورپر اس کا عدم جواز ہی راجح ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھیے: (نیل الأوطار،کتاب العتق، باب ماجاء في أم الولد) واللہ اعلم۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3954
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2517
´ام ولد (یعنی وہ لونڈی جس کی مالک سے اولاد ہو) کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ اپنی لونڈیاں اور «امہات الاولاد» بیچا کرتے تھے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان زندہ تھے، اور ہم اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2517]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ام ولد کسی شخص کی لونڈی کو کہتے ہیں جس سے مالک اولاد پیدا ہو جائے خواہ ایک ہی بچہ یا بچی پیدا ہو جائے۔
ام ولد کی جمع امہات اولاد ہے۔
(2)
جب آقا اپنی لونڈی سے جنسی تعلقات قائم کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں ہونے والی اولاد آزاد ہوتی ہے۔
(3)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نےفرمایا:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب (کتاب العتق باب ام الولد)
میں دو حدیثیں ذکر کی ہیں۔
ان میں کسی مسئلہ کی دلیل موجود نہیں۔
میرے خیال میں اس مسئلے میں سلف (صحابہ کرام ؓ)
میں قوی اختلاف موجود تھا اگرچہ متئاخرین میں ممنوع ہونے پراتفاق ہوگیا حتی کہ امام ابن حزم اور ان کے متبعین اہل ظاہر بھی ام ولد بیچنے کی ممانعت کے قائل ہو گئے لہٰذا دوسرا قول شاذ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباری باب مذکورہ بالا)
۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2517