بلوغ المرام
كتاب الحج
حج کے مسائل
4. باب الإحرام وما يتعلق به
احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان
حدیث نمبر: 605
وعن عبد الله بن زيد بن عاصم رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «إن إبراهيم حرم مكة ودعا لأهلها وإني حرمت المدينة كما حرم إبراهيم مكة وإني دعوت في صاعها ومدها بمثلي ما دعا به إبراهيم لأهل مكة» . متفق عليه.
سیدنا عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تحقیق ابراھیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت دی اور اس کے بسنے والوں کیلئے دعا کی اور بیشک میں نے مدینہ کو حرمت دی۔ جس طرح ابراھیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام قرار دیا اور یقیناً میں نے مدینہ کے ”صاع“ اور اس کے ”مد“ کے متعلق ابراھیم علیہ السلام کی طرح دعا کی جو مکہ میں بسنے والوں کے متعلق تھی۔“ (بخاری و مسلم)
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، البيوع، باب بركة صاح النبي صلي الله عليه وسلم ومده، حديث:2129، ومسلم، الحج، باب فضل المدينة، حديث:1360.»
حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 605 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 605
605 لغوی تشریح:
«حَرَّمَ مَكَّةَ» یہ تحریم سے ہے، یعنی اسے حرم بنایا۔ اور مدینہ طیبہ کی تحریم کا مفہوم یہ ہے کہ اس میں شکار کرنا، اس کے درخت کاٹنا اور وہاں بدعات کا ارتکاب کرنا حرام ہے۔
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ طیبہ بھی حرم ہے اور ”حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا“ کا مفہوم یہ ہے کہ ان کی دعا کی وجہ سے اسے حرمت دی گئی کیونکہ ایک روایت میں ہے: «اَنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا ﷲ» یعنی ”اللہ نے مکہ کو حرام قرار دیا ہے۔“ [صحيح بخاري، العلم، حديث: 104]
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 605
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2129
2129. حضرت عبد اللہ بن زید سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "حضرت ابرا ہیم ؑ نے جس طرح مکہ کو حرم قراردیا اور اس کے لیے دعا فرمائی، اسی طرح میں مدینہ طیبہ کو حرم قراردیتا ہوں۔ اور میں مدینہ طیبہ کے مداور صاع میں برکت کی دعا کرتا ہوں جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ مکرمہ کے لیے دعا کی تھی۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2129]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ ناپ تول کے لیے صاع اور مد کا دستور عہد رسالت میں بھی تھا۔
جن میں برکت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور مدینہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی جو اسی طرح قبول ہوئی، جس طرح مکہ شریف کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اللہ نے قبول فرمائی، بلکہ بعض خصوصیات برکت میں مدینہ ممتاز ہے، وہاں پانی شہر میں بکثرت موجود ہے۔
آس پاس جنگل سبزہ سے لہلہا رہے ہیں۔
پھر آج کل حکومت سعودیہ خلد اللہ بقاہا کی مساعی سے مدینہ ہر لحاظ سے ایک ترقی یافتہ شہر بنتا جارہا ہے، جو سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ دعاؤں کا ثمرہ ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اللهم حبب الینا المدینۃ کحبنا مکۃ او اشد یا اللہ! مکۃ المکرمہ ہی کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت ڈال دے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2129
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2129
2129. حضرت عبد اللہ بن زید سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "حضرت ابرا ہیم ؑ نے جس طرح مکہ کو حرم قراردیا اور اس کے لیے دعا فرمائی، اسی طرح میں مدینہ طیبہ کو حرم قراردیتا ہوں۔ اور میں مدینہ طیبہ کے مداور صاع میں برکت کی دعا کرتا ہوں جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ مکرمہ کے لیے دعا کی تھی۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2129]
حدیث حاشیہ:
(1)
مدینہ طیبہ کے صاع اور مد میں برکت سے مراد یہ ہے کہ جو چیز ان میں ماپی جائے اس میں برکت ہو،نیز سابقہ حدیث میں جو غلے کی خیرو برکت کا ذکر ہے وہ اس صورت میں ممکن ہے،جب اسے اہل مدینہ کے صاع اور مد سے ناپ تول کیا جائے یا پھر جو ان کے موافق ہو۔
(2)
مدینہ طیبہ کو حرام قرار دینے کے یہ معنی ہیں کہ وہاں درخت وغیرہ نہ کاٹے جائیں تاکہ اس مقدس شہر کی زینت برقرار رہے اور اس کے متعلق لوگوں کی محبت میں کمی نہ آئے۔
والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2129