بلوغ المرام
كتاب الصيام
روزے کے مسائل
1. (أحاديث في الصيام)
(روزے کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 532
وعن حفصة أم المؤمنين رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «من لم يبيت الصيام قبل الفجر فلا صيام له» .رواه الخمسة ومال الترمذي والنسائي إلى ترجيح وقفه وصححه مرفوعا ابن خزيمة وابن حبان. وللدارقطني: «لا صيام لمن لم يفرضه من الليل» .
سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا ام المؤمنین سے مروی کہ نبی کریم صلی اللہ وسلم نے فرمایا ”جس شخص نے صبح صادق سے پہلے روزے کی نیت نہ کی اس کا کوئی روزہ نہیں۔“ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے۔ ترمذی اور نسائی کا رجحان اس کے موقوف ہونے کی طرف ہے اور ابن خزیمہ اور ابن حبان نے اس کا مرفوع ہونا صحیح قرار دیا ہے اور دارقطنی کی روایت میں ہے ”جس نے رات کو اپنے آپ پر واجب نہ کر لیا اس کا کوئی روزہ نہیں۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصوم، باب النية في الصيام، حديث:2454، والترمذي، الصوم، حديث:730، والنسائي، الصيام، حديث:2333، وابن ماجه، الصيام، حديث:1700، وأحمد:6 /287، وابن خزيمة:3 /212، حديث:1933، وابن حبان: لم أجده، والدارقطني:2 /172، الزهري عنعن.»
حكم دارالسلام: ضعيف
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 532 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 532
لغوی تشریح 532:
مَنْ لَّم یُبَیِّتِ۔۔۔ الخ یُبَیِّتِ تَبِییت سے ماخوذ ہے، یعنی رات میں روزے کی نیت کرنا۔
لَم یَفرِضہُ باب ضرب یضرب سے ہے، یعنی اسے اپنے اوپر فرض نہیں کیا اور یہ اس طرح کہ اس نے روزے کی نیت نہ کی۔
فوائد و مسائل 532:
➊ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سندًا ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح کہا ہے۔ علاوہ ازیں فاضل محقق نے سنن ابنِ ماجہ کی تحقیق میں اس روایت کی بابت لکھا ہے کہ یہ مذکورہ روایت سنن نسائی میں بھی حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے، وہ روایت موقوفًا صحیح ہے۔ دیکھیے: تحقیق و تخریج سنن ابنِ ماجہ، رقم: 1700 شیخ البانی رحمہ اللہ نے أرواءالغلیل میں اسپر کافی بحث کی ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [أرواءالغليل: 25/4، 30، رقم: 914]
بنابریں فرضی روزے کی نیت صبح صادق سے پہلے کر لینا ضروری ہے۔ گویا غروبِ آفتاب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے تک نیت کی جا سکتی ہے۔ 2۔ نفلی روزے کی نیت دن میں بھی کی جا سکتی ہے۔
➌ نیت اس لیے ضروری اور لازمی ہے کہ روزہ ایک عمل ہے اور عمل کے لیے نیت ضروری ہے اور ہر دن کے روزے کے لیے الگ الگ نیت شرط ہے، البتہ روزے کی نیت کے جو الفاظ زبان سے کہے جاتے ہیں وہ بدعت ہیں کیونکہ نیت دل کا عمل ہے، زبان کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور نہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ہی سے ثابت ہیں۔
راوئ حدیث:
حضرت حفصہ بنت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنھا پہلے یہ خنیس بن حذافہ سھمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ ان کے ساتھ ہجرت کی۔ غزؤہ بدر کے بعد وہ وفات پا گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 3 ہجری میں انہیں اپنی زوجیت میں لے کر اپنے حرم میں داخل فرمالیا۔ ساٹھ سال کی عمر میں شعبان 45 ہجری میں فوت ہوئیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 532
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2333
´اس باب میں حفصہ رضی الله عنہا کی حدیث کے ناقلین کے اختلاف کا ذکر۔`
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص طلوع فجر سے پہلے روزہ کی نیت نہ کرے تو اس کا روزہ نہ ہو گا“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2333]
اردو حاشہ:
(1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ اسی مفہوم کی روایت: 2338 کو موقوفاً صحیح قرار دیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے محقق کتاب کے نزدیک یہ روایت معناً صحیح ہے، نیز دیگر محققین نے بھی مذکورہ حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور ان کی تحقیق سے راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ روایت قابل عمل ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے (ذخیرة العقبی شرح سنن النسائي: 21/ 247- 251، وارواء الغلیل: 4/ 25-30، رقم: 914)
(2) اہل علم نے اس حدیث کو فرض یا اس کی قضا ادا کرنے اور دوسرے واجب روزوں پر محمول کیا ہے اور نفل روزے کو اس سے مستثنیٰ کیا ہے جیسا کہ مندرجہ بالا کثیر روایات سے صاف واضح ہوتا ہے۔ اس طریقے سے تمام احادیث میں تطبیق دی جا سکتی ہے، لہٰذا اگردن کو پتا چلے کہ آج رمضان المبارک شروع ہو چکا ہے تو اسی وقت روزہ شروع کیا جا سکتا ہے، کچھ کھایا پیا ہو یا نہ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2333
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2454
´روزے کی نیت کا بیان۔`
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے فجر ہونے سے پہلے روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں ہو گا۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے لیث اور اسحاق بن حازم نے عبداللہ بن ابی بکر سے اسی کے مثل (یعنی مرفوعاً) روایت کیا ہے، اور اسے معمر، زبیدی، ابن عیینہ اور یونس ایلی نے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا پر موقوف کیا ہے، یہ سارے لوگ زہری سے روایت کرتے ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2454]
فوائد ومسائل:
فرض روزوں میں فجر سے پہلے نیت کر لینا ضروری ہے اور افضل یہ ہے کہ ہر ہر روزے کی نیت علیحدہ سے کی جائے مگر خیال رہے کہ نیت دل کے عزم و ارادہ کا نام ہے۔
ان عبادات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یا ان کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے لفظی نیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے، لفظی نیت کا اہتمام بدعت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2454
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 730
´جو رات ہی کو روزے کی نیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں۔`
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے روزے کی نیت فجر سے پہلے نہیں کر لی، اس کا روزہ نہیں ہوا“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 730]
اردو حاشہ:
1؎:
بظاہر یہ عام ہے فرض اور نفل دونوں قسم کے روزے کو شامل ہے لیکن جمہور نے اسے فرض کے ساتھ خاص مانا ہے اور راجح بھی یہی ہے،
اس کی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس آتے اور پوچھتے:
کیا کھانے کی کوئی چیز ہے؟ تو اگر میں کہتی کہ نہیں تو آپ فرماتے:
میں روزے سے ہوں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 730