بلوغ المرام
كتاب الزكاة
زکوٰۃ کے مسائل
4. باب قسم الصدقات
صدقات کی تقسیم کا بیان
حدیث نمبر: 526
وعن سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه رضي الله عنهم أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كان يعطي عمر بن الخطاب العطاء، فيقول أعطه أفقر مني، فيقول: «خذه فتموله، أو تصدق به، وما جاءك من هذا المال، وأنت غير مشرف ولا سائل، فخذه وما لا فلا تتبعه نفسك» .رواه مسلم.
سیدنا سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی چیز عطا فرماتے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عرض کرتے کہ جو لوگ مجھ سے زیادہ غریب ہیں انہیں عطا فرما دیجئیے۔ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ”اسے لے لو اور اپنا مال بنا لو یا اسے صدقہ کر دو۔ جو مال بغیر خواہش اور مانگنے کے تمہارے پاس آئے اسے لے لیا کرو اور جو اس طرح نہ ملے اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ لگاؤ۔“ (مسلم)
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الزكاة، باب جواز الأخذ بغير سؤال ولا تطلع، حديث:1045.»
حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 526 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 526
لغوی تشریح 526:
اَلعَطَاءَ کام کرنے کا معاوضہ، اجرت یا عطیہ۔
أَفقَرَ أفعل التفضیل کا صیغہ ہے، یعنی جو زیادہ فقیر ہے۔
فَتَمَوَّلْہُ امر کا صیغہ ہے، یعنی اسے اپنا مال بنالے۔
مُشرِفٍ اس کی خواہش کرتے ہوے اس کی طرف نگاہیں اٹھا کر دیکھنا اور اس کا تعرض کرنا اور اس پر حریص و لالچی ہونا۔
فَلَا تُتبِعْہُ أتباع سے امر کا صیغہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو اس کی طلب میں معلق نہ کرو۔ سبل السلام میں اس حدیث کی شرح میں لکھا ہوا ہے کہ یہ حدیث اسپر دلالت کررہی ہے کہ عامل کو اپنی مزدوری واجرت حاصل کرلینی چاہیے، واپس نہیں کرنی چاہیے۔ اکثریت کی راے کے مطابق یہاں امر ندب کے لیے ہے، یعنی ایسا کرنا مندوب ہے، فرض وواجب نہیں۔ اور ایک راے یہ ہے کہ اسے قبول کرنا واجب ہے۔ اور ایک راے یہ کہ ہر وہ چیز جو انسان کو دی جائے اسے لے لینا چاہیے، لہٰذا اس کا قبول کرنا دو شرطوں سے مشروط ہے جو اس حدیث میں مذکور ہیں۔
فوائد و مسائل 526:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عامل کو اپنے کام اور کارکردگی کی اجرت و معاوضہ لے لینا چاہیے کیونکہ اس حدیث میں عطاء سے یہی مراد ہے۔ علاوہ ازیں صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وصولیٔ زکاۃ کی اجرت کے بارے میں فرمائی تھی۔ [صحيح مسلم، الزكاة، باب جواز الأخذ بغير سؤال ولا تطلع، حديث: 1045]
یہ امر استحباب ہے، وجوب کے لیے نہیں، اور اس سے ہر قسم کا عطیہ اور تحفہ بھی مراد ہو سکتا ہے۔ بنا بریں جب دل میں حرص نہ ہو اور خود زبان سے یا حال سے اس کا حصول کا تقاضا بھی نہ ہو تو پھر جو کچھ وصول ہو اسے اخذ کر لے بشرطیکہ حلال ہو حرام نہ ہو۔
2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مالی حرص وطمع کے ساتھ سوال کرنا بھی حرام ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 526