بلوغ المرام
كتاب الزكاة
زکوٰۃ کے مسائل
3. باب صدقة التطوع
نفلی صدقے کا بیان
حدیث نمبر: 513
وعنه رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «تصدقوا» فقال رجل: يا رسول الله عندي دينار؟ قال: «تصدق به على نفسك» قال: عندي آخر قال: «تصدق به على ولدك» قال: عندي آخر قال: «تصدق به على خادمك» قال: عندي آخر قال: «أنت أبصر» . رواه أبو داود والنسائي وصححه ابن حبان والحاكم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”صدقہ و خیرات کرو“ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ! میرے پاس ایک دینار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اسے تو اپنی ذات پر خرچ کر“ وہ بولا میرے پاس ایک اور بھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اسے اپنی اولاد پر صدقہ (خرچ) کر۔“ اس نے پھر عرض کیا میرے پاس ایک اور بھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اسے اپنی اہلیہ پر صدقہ (خرچ) کر“ اس نے پھر عرض کیا میرے پاس ایک اور بھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اسے اپنے خادم پر صدقہ (خرچ) کر“ وہ بولا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اس کے خرچ کرنے کی تجھے زیادہ سمجھ بوجھ ہے۔“ اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الزكاة، باب في صلة الرحم، حديث:1691، والنسائي، الزكاة، حديث:2536، وابن حبان (الإحسان):5 /141، حديث:3326، والحاكم:1 /415.»
حكم دارالسلام: حسن
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 513 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 513
لغوی تشریح 513:
تَصَدَّقْ بِىہ عَلٰی نَفسِکَ تَصَدَّقْ أَنفِقْ کے معنی میں استعمال ہوا ہے، یعنی اسے اپنی ذات پر خرچ کر۔ صدقے کا لفظ بول کر انفاق مراد لینے سے اس جانب اشارہ کرنا مقصود ہے کہ حقوق والوں پر خرچ کرنا اجر و ثواب میں صدقہ کرنے کے برابر ہے۔
أَنتَ أَبصَر یعنی تجھے زیادہ علم ہے کہ تیرے خرچ کرنے کا کون سا شخص زیادہ مستحق ہے؟ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ اب تیری مرضی پر منحصر ہے کہ چاہے تو اسے بھی خرچ کر دے اور چاہے اسے اپنے پاس روک رکھ۔
فائدہ 513:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا اپنی ذات پر حدود شرعی کے اندر رہتے ہوے خرچ کرنا بھی صدقہ و خیرات کرنے کی طرح اجروثواب رکھتا ہے۔ ترتیب اس طرح بیان ہوئی ہے کہ پہلے اپنی ذات پر، پھر اولاد پر، پھر بیوی پر اور پھر خادم پر۔ جو بچ جائے اسے اس کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ چاہے تو کسی جگہ خرچ کر دے اور چاہے تو اسے اپنے پاس محفوظ رکھے تاکہ آئندہ کسی کام آئے، لہٰذا ثابت ہوا کہ اہل حقوق کی ترتیب کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہے تاکہ کسی مستحق کا استحقاق مجروح نہ ہو۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 513
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1691
´رشتے داروں سے صلہ رحمی (اچھے برتاؤ) کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کا حکم دیا تو ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس ایک دینار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اپنے کام میں لے آؤ“، تو اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اپنے بیٹے کو دے دو“، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اپنی بیوی کو دے دو“، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اپنے خادم کو دے دو“، اس نے کہا میرے پاس ایک اور ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب تم زیادہ بہتر جانتے ہو (کہ کسے دیا جائے)۔“ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1691]
1691. اردو حاشیہ:
➊ اپنے آپ پر اوراپنے عزیزوں پر خرچ کرنے کو نبی کریم ﷺنے صدقہ سے تعبیر فرمایا ہے۔یعنی حسن نیت کی بنا پر ان لازمی اخراجات پر بھی انسان اللہ کے ہاں صدقے کاساثواب پاتا ہے۔
➋ اوراس ترتیب میں اپنی جان کو اولیت اور اہمیت دی گئی ہے۔کیونکہ انسان کی اپنی صحت عمدہ اور قویٰ بحال ہوں گے۔تودوسروں کے لئے بھی کوئی محنت مشقت کرسکے گا۔
➌ اہل خانہ کو بھی اشارہ ہے۔کہ کسب و مشقت کی بنا پر شوہر اور باپ کو اولیت اوراولویت حاصل ہے۔
➍ اور یہی حکم اس خاتون کا ہوگا۔جس کے کندھوں پر گھر کا یا بچوں کا خرچہ آن پڑا ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1691
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 985
´نفقات کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، اے اللہ کے رسول! میرے پاس ایک دینار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اپنے آپ پر خرچ کرو۔“ اس نے عرض کیا میرے پاس ایک اور ہے؟ فرمایا ”اپنی اولاد پر خرچ کرو۔“ وہ پھر بولا میرے پاس ایک اور ہے۔ فرمایا ”اپنی بیوی پر خرچ کرو۔“ اس نے عرض کیا میرے پاس اور ہے فرمایا ”اپنے خادم پر خرچ کرو۔“ وہ بولا میرے پاس اور ہے۔ فرمایا ”تجھے خوب علم ہے کہ تو اسے کہاں خرچ کرے۔“ اس کی شافعی اور ابوداؤد نے تخریج کی ہے اور یہ الفاظ ابوداؤد کے ہیں اور نسائی اور حاکم نے بھی اس کی تخریج کی ہے۔ اس میں ولد سے پہلے زوجہ کا ذکر ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 985»
تخریج: «أخرجه أبوداود، باب في صلة الرحم، حديث:1691، والشافعي في مسنده:2 /64، والنسائي، الزكاة، حديث:2536، والحاكم: 1 /415.»
تشریح:
اس حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ مال خرچ کرنے کے مصارف کی ترتیب کیا ہونی چاہیے۔
چنانچہ فرمایا: انسان پر سب سے پہلا حق اس کی اپنی جان کا ہے۔
اس کے بعد اسی ترتیب کے مطابق خرچ کرے جیسے اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے اور آخر میں جو یہ فرمایا:
«أَنْتَ أَعْلَمُ» اور ایک دوسری روایت میں
«أَنْتَ أَبْصَرُ» بھی ہے‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان مصارف میں خرچ کرنا تو شرعی ترتیب ہے‘ اس کے بعد تو بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ حق دار اور مستحق ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 985
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2536
´صدقہ دینے والی حدیث کی شرح و تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ دو“، ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس ایک دینار ہے، آپ نے فرمایا: ”اسے اپنی ذات پر صدقہ کرو“ ۱؎ اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اپنی بیوی پر صدقہ کرو“، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اسے اپنے بیٹے پر صدقہ کرو“، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اپنے خادم پر صدقہ کر دو“، اس نے کہا: میرے پاس [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2536]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث میں تَصَدَّقُوْا کا لفظ ہے، مگر مراد فرض یا نفل صدقہ نہیں بلکہ مطلق خرچ کرنا مراد ہے۔ اس لفظ میں نکتہ یہ ہے کہ مومن کو اپنے واجب اخراجات پر بھی ثواب ملتا ہیے بشرطیکہ حلال مال سے کرے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور ثواب کی نیت رکھے۔
(2) بعض احادیث میں اولاد کو بیوی سے پہلے بیان کیا گیا ہے۔ کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں کے اخراجات یکساں واجب ہیں۔
(3) بیان کردہ ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک فرض اخراجات پورے نہ ہوں، آگے صدقہ نہیں کرنا چاہیے۔ اول خویش بعد درویش۔ الا یہ کہ اختیار نہ رہے، مثلاً: مہمان گھر آجائے تو گھر والوں کو بھوکا رکھ کر بھی مہمان نوازی کی جا سکتی ہے۔ گویا یہاں اختیاری صدقے کا بیان ہے۔
(4) ”تو زیادہ جانتا ہے۔“ یعنی پھر تیری مرضی۔ جہاں مناسب سمجھتا ہے خرچ کر۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2536
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1210
1210- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! میرے پاس ایک دینار موجود ہے (میں اس کا کیا کروں؟) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے اپنے اوپر خرچ کرو۔“ اس نے عرض کی: میرے پاس ایک اور بھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے تم اپنی اولاد پر خرچ کرو“! اس نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے تم اپنے بیوی پر خرچ کرو۔“ اس نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! می۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1210]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کس پر خرچ کیا جائے، شریعت نے اس کے بھی مرتبے مقرر کیے ہیں، پہلے اپنے نفس پر، پھر اپنی اولاد پر، پھر اپنے گھر والوں پر، پھر اپنے خادم پر، اگر پھر بھی گنجائش ہوتو پھر جس کو مستحق سمجھے اس کو دے دے، وہ لوگ غلطی پر ہیں جو اپنوں کو بھوکا چھوڑ دیتے ہیں اور دوسروں پر خرچ کرتے ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1208