Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الزكاة
زکوٰۃ کے مسائل
1. (أحاديث في الزكاة)
(زکوٰۃ کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 494
وعن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏ليس فيما دون خمس أواق من الورق صدقة وليس فيما دون خمس ذود من الإبل صدقة وليس فيما دون خمسة أوسق من الثمر صدقة» .‏‏‏‏ رواه مسلم. وله من حديث أبي سعيد: «‏‏‏‏ليس فيما دون خمسة أوساق من تمر ولا حب صدقة» .‏‏‏‏ وأصل حديث أبي سعيد متفق عليه.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ اوقیہ سے کم چاندی پر کوئی زکوٰۃ نہیں۔ اسی طرح اونٹوں کی تعداد پانچ سے کم ہو تو ان پر بھی زکوٰۃ نہیں اور پانچ وسق سے کم کھجوروں پر بھی زکوٰۃ نہیں۔ (مسلم)
اور مسلم میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پانچ وسق سے کم کھجوروں یا غلہ پر زکوٰۃ نہیں۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت کی اصل بخاری و مسلم میں ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم،الزكاة، باب:1، حديث:980، وحديث أبي سعيد الخدري أخرجه البخاري، الزكاة، حديث:1405، ومسلم، الزكاة، حديث:979.»

حكم دارالسلام: صحيح

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 494 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 494  
لغوی تشریح:
«اَوَاقٍ» اس پر تنوین ہے۔ اور قاف کے بعد یاء مشددہ اور مخفصہ کی صورت بھی جائز ہے، اوقیہ کی جمع ہے۔ اوقیہ کے ہمزاہ پر ضمہ اور یا پر تشدید ہے۔ ایک اوقیے میں چالیس درہم ہوتے ہیں اور یوں پانچ اوقیوں کے دو سو درہم ہیں۔ جدید وزنی پیمانے کے مطابق دو سو درہم کا وزن 615 گرام بنتا ہے۔
«اَلْوَرِقِ» واو پر فتحہ اور را کے نیچے کسرہ ہے اور را ساکن بھی پڑھی گئی ہے۔ معنی اس کے چاندی کے ہیں۔
«ذَوْدِ» ذال پر فتحہ اور واو' پر ساکن ہے اونٹ کے معنی میں ہے۔ یہ اسم جمع ہے۔ اس میں مذکر و مونث اور قلیل و کثیر سبھی شامل ہیں۔ اسی لیے خمس کی اضافت اس کی طرف جائز ہے۔
«اَوْسُقِ» ہمزہ پر فتحہ واو ساکن اور سین پر ضمہ ہے۔ «وسق» کی جمع ہے۔ «وسق» کی واو پر فتحہ اور کسرہ دونوں جائز ہیں۔ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور پانچ وسق تین سو وصاع کے ہوئے۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں اور ایک مد ایک رطل اور تہائی رطل کے برابر ہوتا ہے، نیز جدید پیمانے کے مطابق ایک صاع تقریباً اڑھائی کلو گرام کا ہوتا ہے۔
«‏‏‏‏اَوْسَاقٍ» «وسق» کی جمع ہے، «اوسق» کی طرح۔
«حَبَّ» حا پر فتحہ اور با پر تشدید ہے۔ بیچ، تخم، گندم کا بیج، جو اور مسور وغیرہ۔
لفظ «دُونَ» چاروں جگہ «اَقَلُّ» کے معنی میں ہے، یعنی مذکورہ اشیاء کی اس مقدار سے کم پر زکاۃ واجب نہیں۔

فائدہ:
اس حدیث میں چاندی کا نصاب پانچ اوقیے بیان ہوا ہے جبکہ اس سے پہلی حدیث میں دو سو درہم ہے۔ ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض اور اختلاف نہیں ہے۔ اس لیے کہ ایک اوقیے میں چالیس درہم ہوتے ہیں اور پانچ اوقیوں کے دو سو درہم ہو گئے، لہٰذا کوئی تعارض نہ رہا۔ تین سو صاع حجازی ہمارے ملک میں مروج انگریزی وزن کے اعتبار سے تقریباً بیس من ہوتے ہیں۔ ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں جو چار من کے برابر ہے۔
گویا ہمارے ملکی حساب سے بیس من غلے سے کم میں کوئی زکاۃ نہیں، مگر احناف نے کتاب اللہ اور حدیث کے عموم کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فتویٰ دیا ہے کہ غلہ اور کھجور، خواہ ایک من یا اس سے بھی کم ہی کیوں نہ ہو اس میں بھی زکاۃ ہے۔ مگر پہلی رائے ہی زیادہ صحیح ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خود وزن مقرر فرما دیا ہے تو پھر ہمیں اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ اس میں اپنی جانب سے کمی بیشی کرنے کی اجازت نہیں، ہر اس جنس میں جو سال بھر ذخیرہ ہو سکتی ہے اس میں زکاۃ ہے، مثلاً: گندم، چاول، جو، باجرہ، مکئی، ماش، مونگ اور چنے وغیرہ۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 494   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2271  
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں صدقہ نہیں ہے اور پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں ہے اورپانچ وسق سے کم کھجوروں میں صدقہ نہیں ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2271]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت میں غلہ اور پھلوں کا نصاب پانچ وسق بیان کیا گیا ہے کہ ا گر غلہ یا پھل پانچ وسق سے کم ہوں تو ان میں صدقہ (زکاۃ)
فرض نہیں ہے۔
اگرکوئی اپنی خوشی سے نفلی طور پر صدقہ ادا کرے تو اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
لیکن ان دونوں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ان روایات میں یہ بیان نہیں ہے کہ صدقہ (زکاۃ)
کس مقدار میں یعنی کتنا نکالنا ہو گا۔
اگلے باب کے تحت جو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت آ رہی ہے اس میں نکالے جانے والی مقدار کا ذکر موجود ہے۔
اور اس روایت میں نصاب کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔

جمہور امت کا جس میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ،
اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ داخل ہیں۔
اس بات پر اتفاق ہے کہ پانچ وسق سے کم غلہ اور پھلوں پر زکاۃ فرض نہیں ہے۔
لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کے لیے کوئی نصاب مقرر نہیں ہے۔
جس قدر غلہ یا پھل یا سبزیاں زمین سے برآمد ہوں گی کم ہوں یا زیادہ ہر صورت میں اس سے دسواں بیسواں حصہ نکالنا ہو گا۔
پیداوار کی مقدار دس سیر ہو یا دس من یا اس سے کم وبیش مگر یہ قول صریح حدیث کےخلاف ہے۔

اوسق اور اوساق وسق کی جمع ہے اور ایک وسق میں بالاتفاق ساٹھ صاع ہوتے ہیں۔
اس طرح پانچ وسق میں تین سو صاع ہوئے اور ایک صاع میں 4 مد ہوتے ہیں۔
یعنی انسان اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا کر پھیلائے تو اس میں جس قدر غلہ یا پھل آئے گا وہ مد کے برابر ہو گا لیکن اس میں اختلاف ہے کہ ایک مد میں کس قدر رطل غلہ یا پھل آتا ہے۔
ظاہر ہے صاع۔
رطل۔
مد پیمائش(ماپ)
ہے وزن نہیں اور ان وسائل یا آلات کیل میں جو چیز ڈالی جائے گی۔
اس کے بھاری یا ہلکے ہونے کی بنا پر ان کے وزن میں اختلاف یقیناً پیدا ہو گا۔
احناف کے نزدیک چونکہ ایک مد میں دو رطل ہوتے ہیں۔
اس لیے ایک صاع میں آٹھ رطل ہوں گے۔
باقی ائمہ اور اُمت کے نزدیک ایک 1/1/3 رطل کا ہوتا ہے۔
اور چار مد میں5/1/3 رطل آتے ہیں۔
اس لیے پانچ وسق کی مقدار میں اختلاف ہوگا۔
اور اس اختلاف کی زد صدقۃ الفطر پر پڑے گی اور زکاۃ کا نصاب بھی متاثر ہو گا۔
لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک زکاۃ کے لیے تو نصاب ہی نہیں ہے۔
)
بہرحال صاع کے وزن میں اختلاف ہے۔
علامہ یوسف قرضاوی نے تحقیقات کی روشنی میں اس کا وزن 2176 گرام نکالا ہے۔
جبکہ عام طور پر اہل حدیث اس کا وزن 2 سیر 10 چھٹانک تین تولہ اور چار ماشہ بناتے آئے ہیں۔
کیونکہ ایک رطل کا وزن تقریباً آٹھ چھٹانک بنتا ہے۔
لیکن آج کل بعض اہلحدیث علماء نے وزن سوا دو سیر بنایا ہے۔
اس اعتبار سے پانچ وسق کا وزن 16 من 35 کلو ہو گا۔
کیونکہ ایک وسق کا وزن 135 سیر ہو گا۔
جبکہ اکثر علماء کے نزدیک پانچ وسق کا وزن بیس من غلہ بنتا ہے۔
اور علامہ قرضاوی کی تحقیق کے مطابق653 کلوگرام یعنی سولہ من تیرہ کلو گرام ہوگا۔
اور یہ وزن گندم کے اعتبار سے ہے۔
اور احناف کے نزدیک تیس یا بتیس من ہو گا۔

پانچ اوقیہ چاندی پر بالاتفاق زکاۃ فرض ہے۔
اور ایک اوقیہ میں چالیس درہم ہوتے ہیں اس طرح پانچ اوقیہ میں دو سو درہم ہوں گے۔
ان پر بالاتفاق زکاۃ فرض ہے۔
اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ دس درہم کا وزن سات مثقال کے برابر ہے۔
اور ایک مثقال 4/1/2 ماشہ کے برابر ہوتا ہے۔
اس طرح چاندی کا وزن بالاتفاق ساڑھے 52/2/1 تولہ ہے۔
علامہ قرضاوی نے جدید تحقیق کی روشنی میں مثقال کا وزن 4/1/4 گرام بنایا ہے۔
اس طرح دو سو درہم میں ایک سو چالیس مثقال ہوں گے اور ان کا وزن پانچ سو پچانویں گرام بنے گا۔
(خیال رہے پینتیس گرام وزن تین تولہ کے برابر ہے)
سونے کا وزن اب تک ساڑھے سات تولہ بناتے رہے ہیں جو ساڑھے ستاسی گرام بنتا ہے۔
کیونکہ سونے کا وزن بیس مثقال ہے اورعلامہ یوسف قرضاوی کی تحقیق کے مطابق اس کا وزن پچاسی گرام ہو گا کیونکہ ان کے نزدیک مثقال کا وزن 4/1/4 گرام ہے۔
جبکہ پہلے اس کا وزن 4/1/2 ماشہ بتایا جاتا تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2271