Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الزكاة
زکوٰۃ کے مسائل
1. (أحاديث في الزكاة)
(زکوٰۃ کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 489
وعن علي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏إذا كانت لك مائتا درهم وحال عليها الحول ففيها خمسة دراهم وليس عليك شيء حتى يكون لك عشرون دينارا وحال عليها الحول ففيها نصف دينار فما زاد فبحساب ذلك وليس في مال زكاة حتى يحول عليه الحول» .‏‏‏‏ رواه أبو داود،‏‏‏‏ وهو حسن،‏‏‏‏ وقد اختلف في رفعه.وللترمذي عن ابن عمر رضي الله عنهما: من استفاد مالا فلا زكاة عليه حتى يحول عليه الحول. والراجح وقفه.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تیرے پاس دو سو درہم ہوں اور ان پر پورا سال گذر جائے تو ان میں پانچ درہم زکوٰۃ ہے۔ جب تک تیرے پاس بیس دینار نہ ہوں اور ان پر پورا سال گزر نہ جائے، اس وقت تک تجھ پر کوئی چیز نہیں۔ جب بیس دینار ہوں تو ان میں نصف دینار زکوٰۃ ہے۔ جو اس سے زیادہ ہو گا تو اسی حساب سے زکوٰۃ ہو گی۔ کسی بھی مال پر اس وقت تک زکوٰۃ نہیں جب تک اس پر پورا سال نہ گزر جائے۔
ابوداؤد نے اسے روایت کیا ہے اور یہ حسن ہے۔ اس کے مرفوع ہونے میں اختلاف ہے۔ اور ترمذی میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ جو مالی سال کے دوران حاصل ہو اس پر بھی سال گزرنے سے پہلے کوئی زکوٰۃ نہیں اور راجح یہی ہے کہ یہ روایت موقوف ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الزكاة، باب في زكاة السائمة، حديث:1573، وحديث ابن عمر أخرجه الترمذي، الزكاة، حديث:631 وسنده ضعيف- في سند أبي داود أبو إسحاق وعنعن، وفي سند الترمذي عبدالرحمن بن زيد بن أسلم ضعيف.»

حكم دارالسلام: ضعيف

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 489 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 489  
لغوي تشريح:
«حَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ» یعنی اس مال پر پورا سال گزر جائے۔
«عِشْرُونَ دِينَارًا» بیس دینار کا موجود وزن ساڑھے سات تولے یعنی ۸۵ گرام بنتا ہے۔
«فَمَا زَادَ فَحِسَابِ ذٰلِكَ» اس سے زائد ہو تو اسی حساب سے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو کچھ نصاب سے زائد ہو گا، خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر، اس پر زکاۃ واجب ہے۔ اور اس میں وقص (دو مقداروں کے درمیان والی تعداد جس پر زکاۃ نہیں پڑتی) نہیں ہے۔
«مَنِ اسْتَفَادَ مَالًا» جو مال حاصل ہوا ہو۔
«وَالرْاجِحُ وَقْفُهُ» راجح بات کے مطابق یہ حدیث موقوف ہے مگر مرفوع کے حکم میں ہے کیونکہ اس میں اجتہاد کے لیے کوئی راستہ اور گنجائش نہیں ہے۔ [سبل السلام]

فائدہ:
اس حدیث میں سونے اور چاندی کے نصاب زکاۃ کا بیان ہے۔ چاندی اگر دو سو درہم سے کم ہو تو اس پر کوئی زکاۃ نہیں۔ یاد رہے کہ درہم کا وزن سوا تین ماشے ہوتا ہے۔ احتیاطاً ساڑھے باون تولے نصاب زکاۃ مقرر کیا گیا ہے۔ اور سونے کے بیس دینار پر زکاۃ ہے۔ ایک دینار برابر ہے: چار اشاریہ دو پانچ گرام کے جس کا کل وزن 85 گرام، یعنی ساڑھے سات تولے بنتا ہے۔ اور اس کی زکاۃ بھی چالیسواں حصہ ہے۔ باقی رہا مسئلہ کرنسی نوٹوں کا تو اس کی وضاحت یہ ہے کہ پہلے سونا اور چاندی نقدی کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ آج کل کرنسی نوٹ استعمال ہوتے ہیں۔ علمائے امت کا اجماع ہے کہ کرنسی کو انہی پر قیاس کیا جائے گا۔ سعودی علماء اور پاک و ہند کے علما نے کرنسی نوٹوں کے لیے چاندی کا نصاب بنایا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اس طرح زکاۃ دینے والوں کی تعداد زیادہ ہو گی جس میں غربا و مساکین کا فائدہ زیادہ ہے، اگر سونے کو نصاب بنایا جائے گا تو بہت سے اصحاب حیثیت بھی زکاۃ دینے والوں نے نکل جائیں گے، مثلاً جس کے پاس تقریباً دو لاکھ سے کم پیسے فاضل بچت کے طور پر ایک سال پڑے رہے ہوں گے، وہ بھی صاحب نصاب متصور نہیں ہو گا کیونکہ ساڑھے سات تولے سونے کی موجودہ قیمت (30 ہزار روپے فی تولہ کے حساب سے) دو لاکھ پچیس ہزار ہو گی۔ یوں لاکھوں افراد اصحاب حیثیت لوگوں کے دائرے سے نکل جائیں گے جس کا سارا نقصان غربا و مساکین اور مدارس دینیہ کو ہو گا۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو یہ موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال یہ اجتہادی مسئلہ ہے، اس لیے دونوں میں سے کسی کو بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ چاندی کا نصاب اصل ماننے کی صورت میں ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت جتنی فاضل رقم رکھنے والا صاحب نصاب ہو گا اور سونے کو کرنسی کی بنیاد ماننے کی صورت میں ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت جتنی فاضل رقم رکھنے والا صاحب نصاب متصور ہو گا، اور اس سے کم رکھنے والا شخص زکاۃ سے مستشنی ہو گا۔ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اسے متابعات اور شواہد کی بنیاد پر حسن قرار دیا ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سونے اور چاندی کے نصاب کے لیے مذکورہ حدیث صحیح بنیاد ہے۔ «والله اعلم»
تفصیل کے لیے دیکھیے: [ارواء الغليل: 289/3]
جامع ترمذی میں مروی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کو بھی ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ جبکہ دیگر محققین نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اس کے شواہد وغیرہ ذکر کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت، دیگر شواہد کی بنیاد پر صحیح ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ارواء الغليل: 258۔ 254/3]

مال مستفاد کی بابت حافظ صلاح الدین یوسف اپنی کتاب زکاۃ عشر اور صدقہ الفطر میں یوں رقمطراز ہیں۔ مال مستفاد کا مطلب، زکاۃ کی ادائیگی کے بعد، دوران سال میں حاصل ہونے والا مال ہے۔ اس کی مختلف صورتیں ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔
➊ مال مستفاد اس کے پاس موجود مال کا نفع اور اسی کا ثمرہ ہو، جیسے تجارت کے ذریعے سے حاصل ہونے والا نفع، یا جانوروں سے دوران سال حاصل ہونے والے بچے۔ سال پورا ہونے پر یہ نفع اور جانوروں کے بچے بھی شامل ہوں گے، ان کا الگ حساب نہیں ہو گا، مثلاً پہلے اس نے 10 ہزار روپے کی زکاۃ دی گھی، سال پورا ہونے تک اس کے پاس 10 کی بجائے 15 یا 20 ہزار روپے ہو گئے، اس اسے 15 یا 20 ہزار کی زکاۃ ادا کرنی ہو گی، اسی طرح مثلاً اس نے پہلے ایک بکری زکاۃ میں دی تھی کیونکہ اس کے پاس 120 یا اس سے کچھ کم تھیں، آئندہ سال پورا ہونے تک بچے ملاکر دو سو بکریاں ہو گئیں تو اب اسے دو بکریوں زکاۃ کے طور پر دینی پڑیں گی۔ یہ متفق علیہ مسئلہ ہے۔
➋ مال مستفاد اسی جنس سے ہو، جس جنس کی اس نے پہلے زکاۃ ادا کی لیکن دوران سال ملنے والا یہ مال اس مال کا نفع یا اس کے پاس موجود جانوروں سے تولد پذیر ہونے والا نہ ہو، بلکہ اس نے الگ سے یہ مال خریدا ہو، یا ورثے یا ہبے میں اسے ملا ہو، اس کی بابت بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اسے بھی پہلی صورت کی طرح پچھلے مال سے ملا دیں گے اور سال پورا ہونے پر سب کی زکاۃ نکالیں گے لیکن یہ رائے صحیح نہیں۔ دوسری صورت کا یہ مال چونکہ مال کا نفع یا نتیجہ نہیں بلکہ اس کی الگ مستقل حیثیت ہے، اس لیے اس پر زکاۃ اس وقت عائد ہو گی جب اس پر الگ سال گزرے گا۔ مذکورہ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
➌ مال مستفاد، اس کے پاس موجود مال کی جنس سے نہ ہو، مثلاً اس کے پاس بکریاں تھیں، جن کی اس نے زکاۃ ادا کر دی تھی، اب 7، 6 مہینے کے بعد اسے کچھ اونٹ یا گئیں مل گئی ہیں۔ اگر ملنے والا یہ مال اتنی تعداد میں ہے کہ وہ زکاۃ کے نصاب کو پہنچ جاتا ہے تو اس کی زکاۃ اس کا سال الگ پورا ہونے پر ادا کی جائے گی، پہلے مال کے ساتھ ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ان آخری دونوں صورتوں میں مذکورہ حدیث کا انطباق ہوتا ہے۔ یہاں دونوں صورتوں میں صاحب مال اپنی خوشی سے پہلے مال کے ساتھ ہی ان کی بھی زکاۃ ادا کر دیتا ہے تو بات اور ہے، خوشی سے بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا مرغوب اور پسندیدہ وہی ہے، تاہم شرعاً ایسا کرنے کا پاپند نہیں ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 489   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 631  
´حاصل شدہ مال میں زکاۃ نہیں جب تک کہ اس پر سال نہ گزر جائے۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے کوئی مال حاصل ہو تو اس پر کوئی زکاۃ نہیں جب تک کہ اس پر اس کے مالک کے یہاں ایک سال نہ گزر جائے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 631]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں عبد الرحمن بن زید بن اسلم ضعیف راوی ہے،
لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے،
دیکھئے اگلی حدیث اور مؤلف کا کلام،
نیز ملاحظہ ہو:
الإرواء: 787،
وتراجع الألبانی: 503)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 631