بلوغ المرام
كتاب الزكاة
زکوٰۃ کے مسائل
1. (أحاديث في الزكاة)
(زکوٰۃ کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 488
وعن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده رضي الله عنهم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «في كل سائمة إبل في أربعين بنت لبون لا تفرق إبل عن حسابها من أعطاها مؤتجرا بها فله أجرها ومن منعها فإنا آخذوها وشطر ماله عزمة من عزمات ربنا لا يحل لآل محمد منها شيء» . رواه أحمد وأبو داود والنسائي وصححه الحاكم وعلق الشافعي القول به على ثبوته.
سیدنا بہز بن حکیم رحمہ اللہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” چرنے والے تمام اونٹوں میں چالیس پر ایک، دو سالہ اونٹنی ہے اور اونٹوں کو ان کے حساب سے جدا نہ کیا جائے گا اور جو شخص حصول ثواب کی نیت سے زکٰوۃ ادا کرے گا اس کو اس کا ثواب بھی ملے گا اور جس نے زکٰوۃ روک لی تو ہم زکٰوۃ زبردستی وصول کریں گے اور اس کا کچھ مال بھی، ہمارے پروردگار کے فرائض میں سے ایک لازمی حصہ ہے، ان میں سے کوئی چیز بھی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے حلال نہیں ہے۔ “
اسے احمد، ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور شافعی نے اس کے ثابت ہونے پر اپنے قول کو معلق رکھا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الزكاة، باب في زكاة السائمة، حديث:1575، والنسائي، الزكاة، حديث:2451، وأحمد: 5 /2، 4، والحاكم:1 /398.»
حكم دارالسلام: حسن
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 488 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 488
لغوی تشریح:
«سَائِمَةِ اِبِلٍ» «سائمة»، «ابل» کی طرف مضاف ہے۔
«فِي اَرْبَعْينَ بِنْتُ لَبُونٍ» یعنی فی الجملہ چالیس میں بنت لبون دو سالہ اونٹنی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں جو پہلے گزر چکی ہے 36 سے 45 تک میں ایک بنت لبون کا ذکر ہے اور اس حدیث میں چالیس کی تعداد، اس وقت مراد ہے جب ایک سو بیس سے اونٹ زیادہ ہوں تو پھر چالیس پر بنت لبون ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں تفصیل موجود ہے، یا یہ کہ 40 کی تعداد بھی 36 سے 45 کے مابین ہے۔ ان دونوں کے مابین جتنے اونٹ ہوں 40 ہوں یا اس سے کم و بیش ان پر زکاۃ۔ یہ مفہوم ہے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں منطوق مروی ہے، اس لیے اعتبار منطوق روایت کا ہے۔ اور محض 40 کے عدد کا مفہوم مراد نہیں ہے
«لَايُفَرَّقُ» «تفريق» سے ماخوذ صیغہ مجہول ہے، یعنی الگ الگ اور جدا جدا نہیں کیا جائے گا۔
«اِبِلٌ عَنْ حِسَابِهَا» اس کے معنی ہیں کہ مالک اپنی ملکیت کی چیزوں کو دوسرے کی ملکیت سے الگ نہ کرے جبکہ دونوں کے مویشی اکٹھے ہوں جیسا کہ اس سے پہلے اس کا ذکر ہو چکا ہے، یا یہ معنی ہوں گے کہ تمام اونٹوں کو چالیس کے حساب سے شمار کیا جائے، اس صورت میں نہ مریل اور کمزور کو چھوڑا جائے گا نہ کسی فربہ کو، نہ چھوٹے کو اور نہ بڑے کو۔
«مُوْتَجِراً بِهَا» حصول اجر و ثواب کے ارادے سے انہیں زکاۃ میں دینے والا۔
«وَمَنْ مَّنَعَهَا» اور جس نے نہ دیا۔
«فَاِنَّا اَخِذُوهَ» ا تو ہم اسے بزور اور زبردستی وصول کریں گے۔
«وَشَطُرَ مَالِهِ» یعنی کچھ مال یا آدھا مال، زکاۃ نہ دینے کی سزا کے طور پر۔ اس کا عطف «اَخِذُوهَا» کی ضمیر مجرور پر ہے۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ تشطیر سے ماضی مجہول کا صیغہ یعنی «شُطّرَ» ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اس کے مال کو عامل دو نصف حصوں میں تقسیم کر دے اور بہترین حصہ خود وصول کر لے۔
«عَزْمَةً» رفعی حالت میں یہ مبتدا محذوف کی خبر ہو گی اور نصب کی صورت میں فعل محذوف کا مفعول مطلق ہو گا۔ مطلب یہ ہو گا کہ یہ فریضہ ہے اور واجب حق ہے۔
«مِنْ عَزَمَاتِ رَبُّنَا» اللہ تعالیٰ کے حقوق و واجبات میں سے ہے۔
«لَايَحِلُّ لِاَلِ مُحَمَّدٍ . . . الخ» آل محمد کے لیے یہ حلال نہیں۔ آل محمد سے کیا مراد ہے؟ ایک قول یہ ہے کہ اس سے بنوہاشم، اور آل حارث بن عبدالمناف مراد ہیں۔
«وَعَلَّقَ الشَّافِعِيُ» تعلیق سے ماخوذ ہے۔
«اَلَقُوْلَ بَهِ»، یعنی اس حدیث کے ساتھ۔ مطلب یہ ہے کہ زکاۃ نہ دینے والے سے اس کا نصف مال بطور سزا لے لیا جائے گا۔
«عَلٰي تُبُوتِهِ» امام شافعی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے ثبوت پر اپنا قول معلق رکھا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو اہل علم نے ثابت نہیں مانا، اگر یہ صحیح ثابت ہو جائے تو میرا قول اس کے مطابق ہے کیونکہ اس کا دارومدار بہز بن حکیم پر ہے اور اس پر کلام ہے۔ اور کسی دوسری صحیح میں زکاۃ نہ دینے والے سے مقدار زکاۃ سے زائد مال بطور جرمانہ وصول کرنے کا ذکر نہیں۔
راوی حدیث:
بہز بن حکیم رحمہ اللہ، ابوعبدالملک ان کی کنیت ہے۔ بہز کی ”با“ پر فتحہ اور ”با“ ساکن ہے۔ سلسلہ نسب یوں ہے: بھز بن حکیم بن معاویۃ بن حیدہ۔ حیدہ کی ”حا“ پر فتحہ، ”یا“ ساکن اور ”دال“ پر فتحہ ہے قشیری (تصغیر کے ساتھ) اور بصری ہیں۔ طبقہ سادسہ کے تابعی ہیں۔ ان کی حدیث سے استدلال کرنے میں اختلاف ہے۔ امام ابوداود رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ ان کی احادیث صحیح ہیں۔ امام ابن معین، امام ابن مدینی اور امام نسائی رحمہ اللہ نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے لیکن امام ابوحاتم رحمہ اللہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ان سے حجت نہیں پکڑی جا سکتی۔ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ بہت غلطیاں کرتے تھے۔ 140 ہجری کے بعد وفات پائی اور ایک روایت کے مطابق 160 ہجری سے پہلے۔
«عَنْ اَبِيهِ» یعنی حکیم بن معاویہ، یہ بھی تابعی ہیں۔ ابن حبان نے انہیں ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے۔
«عَنْ جَدَّهِ» معاویہ بن حیدہ بن معاویہ بن قشیر بن کعب قشیری رضی اللہ عنہ۔ صحابیت کے شرف سے مشرف ہوئے۔ بصرہ میں سکونت اختیار کی۔ ان سے کئی احادیث منقول ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 488
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1575
´چرنے والے جانوروں کی زکاۃ کا بیان۔`
معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چرنے والے اونٹوں میں چالیس (۴۰) میں ایک (۱) بنت لبون ہے، (زکاۃ بچانے کے خیال سے) اونٹ اپنی جگہ سے اِدھر اُدھر نہ کئے جائیں، جو شخص ثواب کی نیت سے زکاۃ دے گا اسے اس کا اجر ملے گا، اور جو اسے روکے گا ہم اس سے اسے وصول کر لیں گے، اور (زکاۃ روکنے کی سزا میں) اس کا آدھا مال لے لیں گے، یہ ہمارے رب عزوجل کے تاکیدی حکموں میں سے ایک تاکیدی حکم ہے، آل محمد کا اس میں کوئی حصہ نہیں“ ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1575]
1575. اردو حاشیہ:
➊ یہ حدیث حسن درجے کی ہے اور اس میں یہ ارشاد ہے کہ مانع زکوۃ سے پوری زکوۃ اور اس کا نصف مال بطور جرمانہ لیا جائے گا۔
➋ صدقہ وزکوۃ نبی ﷺ اور آپ کی آل کے لیے حلال نہ تھا۔ اسے لوگوں کی میل قرار دیا گیا۔ ایک حدیث میں ہے کہ «ان هذهِ الصدقةَ إنما هِىَ أوساخُ الناسِ‘ و إنها لاتحلُّ لمحمدٍ ولا لآلِ محمدٍ» [سنن أبي داود‘ الخراج‘ حدیث:2985) ”یہ صدقہ تو لوگوں کی میل ہوتا ہے اور یہ محمد (ﷺ) اور آل محمد کےلیےحلال نہیں ہے۔“ اور آپ ﷺ کی آل میں آپ کی جمیع ازواج اور جمیع اولاد کے علاوہ آل علی، آل عقیل، آل جعفر اور آل عیاس ؓ شامل ہیں۔ اور حرمت صدقہ میں آپ کے موالی کا بھی یہی حکم ہے۔ اسی مفہوم کی حدیث صحیح مسلم میں بھی موجود ہے۔ دیکھیے: [صحیح مسلم‘ الزکوة‘ حدیث:(1072]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1575
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2446
´زکاۃ روک لینے والے کی سزا کا بیان۔`
بہز بن حکیم کے دادا معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”چرائے جانے والے ہر چالیس اونٹ میں ایک بنت لبون ۱؎ ہے، اونٹوں کو (زکاۃ سے بچنے کے لیے) ان کے حساب (ریوڑ) سے جدا نہ کیا جائے۔ جو شخص ثواب کی نیت سے زکاۃ دے گا تو اسے اس کا ثواب ملے گا، اور جو شخص زکاۃ دینے سے انکار کرے گا تو ہم زکاۃ بھی لیں گے اور بطور سزا اس کے آدھے اونٹ بھی لے لیں گے، یہ ہمارے رب کی سزاؤں میں سے ایک سزا ہے۔ اس میں سے مح [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2446]
اردو حاشہ:
(1) ”چرنے والے۔“ ان جانوروں میں زکاۃ فرض ہے جو سارا سال یا سال کا اکثر حصہ جنگل وغیرہ میں چر کر گزارتے ہوں، ان کو خود چارا نہ ڈالنا پڑے الا شاذ ونادر۔
(2) ”ہر چالیس اونٹوں میں۔“ یعنی 120 اونٹوں کے بعد کیونکہ 120 تک تو اونٹوں کی مخصوص زکاۃ ہے جس کا بیان آگے آرہا ہے۔
(3) ”بنت لبون“ اس سے مراد وہ اونٹنی ہے جس کی عمر دو سال ہو چکی ہو اور وہ تیسرے میں شروع ہو۔
(4) ”انھیں الگ نہ کیا جائے گا۔“ یعنی دو شریک زکاۃ کے ڈر سے اپنے اپنے اونٹ الگ نہیں کریں گے، مثلاً: ایک کے تین اور دوسرے کے دو اونٹ ہوں تو اس طرح ایک بکری زکاۃ واجب ہوتی ہے۔ جدا جدا کر لیے جائیں تو کچھ بھی واجب نہیں ہوتا۔ یا کچھ اونٹ کمزور یا عمر کے لحاظ سے چھوٹے ہوں تو وہ گنتی میں پورے ہی شمار ہوں گے، البتہ زکاۃ میں معین عمر والا اور درمیانہ (موٹاپے کے لحاظ سے) جانور لیا جائے گا۔
(5) ”نصف اونٹ بھی لیں گے۔“ یہ اقدام بطور سزا ہے۔ اسلامی حکومت کا اہل کار زبردستی کارندوں کے ذریعے سے زکاۃ کے ساتھ ساتھ جبراً، جس مال میں زکاۃ واجب ہوئی ہو، وہ آدھا مال بھی لے سکتا ہے اور وہ بیت المال میں جمع ہوگا۔ حدیث کی روشنی میں یہی موقف راجح ہے۔ لیکن جمہور علمائے کرام مالی سزا کو غیر مشروع قرار دیتے ہیں، ان کے بقول صرف زکاۃ ہی وصول کی جائے گی، مذکورہ حدیث کو انھوں نے وقتی سزا قرار دیا ہے یا وہ اس حکم کے نسخ کے قائل ہیں لیکن یہ دونوں باتیں ہی محل نظر ہیں جبکہ مذکورہ حدیث مذکورہ سزا کی بین دلیل ہے۔
(6) ”جائز نہیں۔“ تاکہ کسی کے ذہن میں یہ خیال تک نہ آئے کہ نبوت کا دعویٰ مال اکٹھا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2446
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2451
´اونٹ جب اپنے مالکوں کے دودھ اور ان کی بار برداری کے لیے ہوں تو ان میں زکاۃ نہیں۔`
بہز بن حکیم کے دادا معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ہر چرنے والے چالیس اونٹوں میں دو برس کی اونٹنی ہے۔ اونٹ اپنے حساب (ریوڑ) سے جدا نہ کئے جائیں، جو ثواب کی امید رکھ کر انہیں دے گا تو اسے اس کا اجر ملے گا، اور جو دینے سے انکار کرے گا تو ہم اس سے اسے لے کر رہیں گے، مزید اس کے آدھے اونٹ اور لے لیں گے، یہ ہمارے رب کے تاکیدی حکموں میں سے ایک حکم [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2451]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے باب والا مسئلہ ”چرنے والے اونٹوں۔“ سے استنباط کیا ہے کیونکہ جو اونٹ گھریلو ضروریات کے لیے ہوتے ہیں، انھیں گھر میں رکھا جاتا ہے اور انھیں چارہ ڈالا جاتا ہے۔ اور ان میں واقعتاً زکاۃ نہیں۔ اونٹوں کے علاوہ بھی جو چیز انسان کی ذاتی ضروریات کے لیے ہو، اس میں زکاۃ نہیں، خواہ وہ کتنی ہی قیمتی کیوں نہ ہو؟
(2) ”ادھر ادھر نہ کیا جائے۔“ اس کا دوسرا مفہوم بھی ہو سکتا ہے جو حدیث: 2449 کے فائدہ: 10 میں بیان ہوا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (حدیث: 2446)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2451