Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الجنائز
جنازے کے مسائل
1. (أحاديث في الجنائز)
(جنازے کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 473
وعن أبي هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم لعن زائرات القبور. أخرجه الترمذي وصححه ابن حبان.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی جانے والی خواتین پر لعنت فرمائی ہے۔
اسے ترمذی نے نکالا ہے اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، الصلاة، باب ما جاء في كراهية أن يتخذ علي القبر مسجدًا، حديث:320 بطوله.* أبو صالح باذام مولي أم هاني ء ضعيف مدلس حدث به بعد اختلاطه، والحديث حسن، بلفظ: أن رسول الله صلي الله عليه وسلم لعن زوارات القبور، أخرجه الترمذي، الجنائز، حديث:1056 وغيره.»

حكم دارالسلام: ضعيف

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 473 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 473  
فوائد و مسائل:
یہ حدیث خواتین کے زیارت قبور کے لیے جانے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ لعنت کسی حرام کام پر کی جاتی ہے، اس کی برعکس بہت سی احادیث سے خواتین کا قبروں کی زیارت کے لیے جانا بھی ثابت ہے۔ ان میں تطبیق کی ایک صورت یہ ہے کہ یہ ممانعت زیارت قبور کی اجازت و رخصت سے پہلے کی ہے مگر جب اجازت و رخصت دی گئی تو اس میں مرد و عورت سب شامل ہیں۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ تاحال زیارت قبور کی حرمت خواتین کے لیے برقرار ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتوں میں صبر کی کمی ہوتی ہے اور جزع فزع، آہ بکا کثرت سے کرتی ہیں۔ اور بعض علماء کا قول ہے کہ خواتین کو زیارت قبور سے اس صورت میں منع کیا گیا ہے جب کہ وہ حرام کام کا ارتکاب کریں جس طرح کہ وہ جاہلیت کے طور طریقے اختیار کرتی ہیں، روتی پیٹتی اور بین کرتی ہیں، جزع فزع کرتی ہیں اور چیختی چلاتی ہیں۔ یہ امور اسلام کی تعلیم کے منافی ہیں، اس لیے ان سے منع کیا گیا ہے۔
➋ اگر زیارت قبور عبرت حاصل کرنے، اخروی یاد دہانی اور تذکیر کے لیے ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تطبیق کی یہ صورت نہایت شاندار ہے۔
➌ مذکورہ روایت کی بابت ہمارے فاضل محقق لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت تو سنداً ضعیف ہے، البتہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی حدیث جس میں «زَائِراتِ الْقُبُورِ» کی بجائے «زَوَّارَات القُبُورِ» کے الفاظ ہیں، حسن درجے کی ہے۔ دیکھیے: [سنن ابي داود، الجنائز، باب فى زيارة النساء القبور، حديث: 3236 وجامع الترمذي، الصلاة، حديث: 320]
امام شوکانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ صحیح حدیث میں «زَوَّارات» کا لفظ ہے جو مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی عورتوں کے بکثرت قبرستان جانے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی۔ علاوہ ازیں کبھی کبھار زیارت قبور کے لیے جانے کا جواز اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ قبرستان میں جا کر مدفونین کے لیے کس طرح دعا کروں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ نہیں فرمایا کہ تم جایا ہی نہ کرو بلکہ فرمایا: یوں کہہ: «اَلسَّلَامُ عَلٰي اَهْلِ الدِّيَارِ مِنَ الْمُوٌمِنِيِنَ وَالْمُسْلِمِينَ» ۔۔ [صحيح مسلم، الجنائز، باب مايقال عند دخول القبور والدعاء لاهلها، حديث: 794]
شیخ البانی رحمہ اللہ اس مسئلے کی بابت لکھتے ہیں کہ عورتوں کے لیے بھی زیارت قبور ویسے ہی مستحب ہے، جیسے مردوں کے لیے، پھر مذکورہ روایت کی بابت لکھتے ہیں: زائرات القبور کے الفاظ ضعیف ہیں اور زوارات القبور کے الفاظ صحیح ہیں جن سے عورتوں کے لیے بکثرت قبرستان جانے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [احكام الجنائز وبدعها، ص: 235، 329۔ طبع: مكتبة المعارف الرياض]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 473   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  ابوعبدالله صارم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 3236  
´عوتوں کے لیے قبروں کی زیارت`
«. . . لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ، وَالْمُتَّخِذِينَ عَلَيْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور قبروں پر مسجدیں بنانے والوں اور اس پر چراغاں کرنے والوں پر لعنت بھیجی ہے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الْجَنَائِزِ: 3236]
فوائد و مسائل:
اسی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہی مروی ہے۔ [مسند الامام احمد: 229/1، سنن ابي داود 3236، سنن الترمذي 320، سنن النسائي 2045]
↰ اس کی سند بھی ضعیف ہے، کیونکہ ابوصالح باذام کے بارے میں:
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قال الاكثرون: لا يحتج به»
اکثر اہل علم کہتے ہیں کہ اس کی بیان کردہ حدیث کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ [خلاصة الاحكام: 1044/2]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والجمهور على ان ابا صالح، هو مولي ام هاني، وهو ضعيف»
جمہور محدثین کے نزدیک ابوصالح، ام ہانی کا غلام ہے اور یہ ضعیف راوی ہے۔ [التلخيص الحبير: 137/2، ح: 798]
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 69، حدیث/صفحہ نمبر: 21   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2045  
´قبروں پر چراغاں کرنے پر وارد وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والیوں پر، اور انہیں سجدہ گاہ بنانے اور ان پر چراغاں کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2045]
اردو حاشہ:
(1) محقق کتاب نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے آخری لفظ [وَالسُّرُجَ]  چراغ کے علاوہ باقی روایت کو شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے۔ اور دلائل کی رو سے انھی کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ نیز زائرات القبور کی بجائے زوارات القبور کے الفاظ صحیح ثابت ہیں، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو کثرت سے قبرستان جاتی ہیں۔ بنا بریں عورتوں کے لیے بھی زیارت قبور ویسے ہی مستحب ہے جیسے مردوں  کے لیے۔ عورتوں کا خصوصی ذکر اس لیے کہ ان میں صبر اور حوصلے کی کمی ہوتی ہے۔ جزع فزع زیادہ ہوتی ہے، لہٰذا کبھی کبھار ہی جائیں مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 365-363/4، و سلسلة الأحادیث الضعیفة: 396-393/1، رقم: 225، و أحکام الجنائز للألباني، ص:237-236)
(2) قبروں پر عبادت گاہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ وہاں نماز وغیرہ پڑھے جس میں قبر کی طرف نماز پڑھے جانے کا بھی امکان ہو۔ قبر پر مکان بنا ہو تو اس کا حکم بھی قبر جیسا ہے، یعنی اس کی طرف بھی نماز پڑھنا منع ہے۔ قبر کے قریب مسجد بنانا بھی کراہت سے خالی نہیں۔ یہ ایسے ہے جیسے نجاست کے قریب نماز پڑھی جائے کہ نماز تو ہو جائے گی مگر قبیح چیز ہے۔ قبر، مساجد بلکہ آبادی سے الگ اور دور بنانی چاہیے۔ قبر کے اوپر عمارت، خواہ وہ قبر کی حفاظت کے لیے ہو یا زائر کی سہولت کے لیے، منع ہے۔ اگر قبر پہلے سے ہو تو عمارت ڈھا دینی چاہیے اور اگر عمارت پہلے تھی تو قبر کو اکھاڑ دینا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر جو عمارت بنی ہوئی ہے، وہ صدیوں بعد سلاطین کی تعمیر کردہ ہے، ورنہ صحابہ و تابعین کے دور میں ایسا نہیں تھا، اس لیے اس سے قبروں پر عمارتیں بنانے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
(3) حدیث کے آخری جملے [وَالسُّراجَ] یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چراغ جلانے والوں پر لعنت کی ہے۔ کی تصعیف سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کی ممانعت ثابت نہیں بلکہ عمومی دلائل سے اس کی ممانعت ثابت ہوتی ہے، مثلاً: كلُّ بدعةٍ ضلالةٌ وَكلُّ ضلالةٍ في النّارِ کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے، نیز قبر پر چراغ جلانا یا تو قبر کی تعظیم کے لیے ہوگا تو ایسی تعظیم منع ہے بلکہ یہ تو قبر پر چڑھاوے کی طرح ہے، یا بے فائدہ ہوگا۔ قبروں پر روشنی کی ضرورت نہیں، ان کے اندر روشنی کی ضرورت ہے اور وہ اعمال صالحہ کے ساتھ ہے۔ اگر آنے جانے والوں کے لیے روشنی کرنا مقصود ہو تو قبر کے بجائے کسی اور چیز پر روشنی کا انتظام کیا جائے تاکہ تعظیم کا وہم نہ ہو۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2045   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3236  
´عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور قبروں پر مسجدیں بنانے والوں اور اس پر چراغاں کرنے والوں پر لعنت بھیجی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3236]
فوائد ومسائل:
مشروع ومسنون آداب کے ساتھ عورتیں بھی قبروں کی زیارت کے لئے جایئں تو جائز ہے۔
جیسے کہ مذکورہ بالا احادیث میں عمومی رخصت دی گئی ہے۔
لیکن جو عورتیں شرعی آداب کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہاں نوحے پڑھیں۔
یا سجدے کریں یا چراغ جلایئں تو یہ لعنت کے کام ہیں۔
جن سے بچنا اور بچانا واجب ہے۔
اور جو عورتیں یہ کام کریں۔
ان کا قبرستان میں جانا جائز نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3236   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 320  
´قبروں پر مسجد بنانے کی حرمت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں اور قبروں پر مساجد بنانے والے اور چراغ جلانے والے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 320]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں ابو صالح باذام مولیٰ ام ہانی ضعیف ہیں،
مسجد میں صرف چراغ جلانے والی بات ضعیف ہے،
بقیہ دو باتوں کے صحیح شواہد موجود ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 320