بلوغ المرام
كتاب الجنائز
جنازے کے مسائل
1. (أحاديث في الجنائز)
(جنازے کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 471
وعن ضمرة بن حبيب أحد التابعين قال: كانوا يستحبون إذا سوي على الميت قبره وانصرف الناس عنه أن يقال عند قبره: يا فلان قل: لا إله إلا الله ثلاث مرات يا فلان قل: ربي الله وديني الإسلام ونبيي محمد. رواه سعيد بن منصور موقوفا، وللطبراني نحوه من حديث أبي أمامة مرفوعا مطولا.
سیدنا ضمرہ بن حبیب رحمہ اللہ جو ایک تابعی ہیں، سے مروی ہے کہ لوگ مستحب سمجھتے تھے کہ جب میت کی قبر برابر و ہموار کر دی جاتی اور لوگ جب جانے لگتے تو قبر کے پاس کھڑے ہو کر میت کو مخاطب ہو کر یوں کہا جائے ”اے فلاں! «لا إله إلا الله» کہو اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں“ اس کو تین مرتبہ کہے ”اے فلاں! «ربي الله وديني الإسلام ونبيي محمد» کہو میرا رب اللہ ہے، میرا دین اسلام ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے نبی ہیں۔“
سعید بن منصور نے اسے موقوف بیان کیا ہے اور طبرانی نے اسی طرح کی ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی لمبی مرفوع حدیث بیان کی ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه سعيد بن منصور. *فيه أشياخ من أهل حمص، وهم مجهولون، وحديث أبي أمامة، أخرجه الطبراني في الكبير:8 /298، وحديث:7979 وسنده ضعيف، فيه جماعة لم يعرفهم الهيثمي كما في مجمع الزوائد:2 /324، وقال الحافظ في التلخيص الحبير:2 /135، 136، حديث:796، "وإسناده صالح، وقد قواه الضياء، في أحكامه. وفي السند: محمد بن إبراهيم بن العلاء الحمصي، قال الحافظ في تقريب التهذيب:((منكر الحديث)).»
حكم دارالسلام: ضعيف
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 471 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 471
لغوی تشریح:
«كَانُو يَسْتَحِبُّونَ» پسند کرنے والوں سے یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مراد ہیں۔
«سُوْيَ» «تسوية» سے ماخوذ ہے۔ ”المنار“ میں ہے۔ ”تلقین“ کی یہ مرفوع حدیث فن حدیث کی معرفت رکھنے والوں کے نزدیک بلاشبہ موضوع ہے۔ اور ابن قیم رحمہ الله نے زادالمعاد فی ھدی خیر العباد میں بھی پورے جزم اور اعتماد سے کہا ہے کہ یہ موضوع اور من گھڑت روایت ہے۔ اور کتاب الروح میں اسے ضعیف کہا ہے۔ علامہ یمانی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس پر عمل کرنا بدعت ہے اور اس پر اکثر لوگوں کے عمل سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ [سبل السلام]
فائدہ: میت کو دفن کرنے کے بعد میت کو مخاطب کر کے تلقین کرنا کسی بھی صحیح یا حسن درجے کی روایت سے ثابت نہیں۔
امام احمد رحمہ الله سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اہل شام کے علاوہ میں نے کسی اور کو یہ عمل کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
روای حدیث:
[ حضرت ضمر بن حبیب رحمہ الله ] ان کی کنیت ابوعتبہ ہے۔ ضمرہ میں ”ضاد“ پر فتحہ اور ”میم“ ساکن ہے۔ سلسلہ نسب یوں ہے: ضمرہ بن حبیب بن صہیب زبیدی۔ زبیدی کی ”زا“ پر ضمہ ہے۔ حمص کے رہنے والے تھے، اس لیے حمصی کہلائے۔ ثقہ تابعی ہیں اور چوتھے طبقے میں شمار ہوتے ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 471