بلوغ المرام
كتاب الجنائز
جنازے کے مسائل
1. (أحاديث في الجنائز)
(جنازے کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 468
وعن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه قال: الحدوا لي لحدا وانصبوا علي اللبن نصبا، كما صنع برسول الله صلى الله عليه وآله وسلم. رواه مسلم. وللبيهقي عن جابر رضي الله عنه نحوه وزاد: ورفع قبره عن الأرض قدر شبر. وصححه ابن حبان. ولمسلم عنه رضي الله عنه: نهى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أن يجصص القبر، وأن يقعد عليه، وأن يبنى عليه.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہا کہ میرے لیے بغلی لحد والی قبر بنانا اور مجھ پر کچی اینٹیں چننا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا گیا۔ (مسلم) اور بیہقی نے جابر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اسی طرح روایت کیا ہے اور اتنا اضافہ نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر زمین سے صرف ایک بالشت برابر اونچی بنائی گئی۔
ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اور مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ ”قبر کو پختہ کیا جائے اور اس پر بیٹھا جائے اور اس پر عمارت تعمیر کی جائے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الجنائز، باب في اللحد ونصب اللبن علي الميت، حديث:966، وحديث جابر أخرجه البيهقي:3 /410، وقال الحافظ: ((وصححه ابن حبان)): ولم أجده، وحديث ((نهي أن يجصص القبر)) أخرجه مسلم، الجنائز، حديث:970.»
حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 468 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 468
لغوی تشریح:
«الْحَدُوا» «فَتحَ يَفْتَحُ» سے امر کا صیغہ ہے۔ لحد قبر کے قبلہ رخ گڑھے کو کہتے ہیں۔
«وَانْصِبُوا» «ضَرَبَ يَضْرِب» سے صیغہ امر ہے۔
«اقِيمُوا» کے معنی میں ہے یعنی نصب کرو، قائم کرو۔
«اَللَّبِنَ» ”لام“ پر فتحہ اور ”با“ کے نیچے کسرہ ہے۔ وہ اینٹ جو گارے سے بنائی جاتی ہے۔ جب اسے آگ میں پکایا جائے تو «اَجُرَ» کہتے ہیں جی کی ”جیم“ پر ضمہ اور ”را“ پر تشدید ہے۔
«قَدْرَ شِبْرٟ» ”شین“ کے نیچے کسرہ اور ”با“ ساکن ہے۔ انگوٹھے کے سر سے لے کر چھنگلی کے سر تک کا فاصلہ، یعنی بالشت۔
«اَنْ يُّجَصَّصَ الْقَبْرُ» تحصیص سے ماخوذ ہے اور صیغہ مجہول ہے، یعنی چونے کے ساتھ تعمیر کرنا۔
«وَاَّنْ يُّبنٰي عَلَيْهِ» صیغہ مجہول ہے، یعنی قبر کو بلند اور نمایاں کرنے کی غرض سے اس پر عمارت تعمیر نہ کی جائے، یا قبر کے ارد گرد گنبد وغیرہ جیسی عمارت نہ بنائی جائے۔
فوائد و مسائل:
اس حدیث سے کئی مسائل پر روشنی پڑتی ہے:
➊ قبر ایک بالشت سے زیادہ اونچی نہیں ہونی چاہیے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں قبر تیار کرنے کے دو طریقے رائج تھے: ایک لحد اور دوسرا شق۔ لحد، یعنی بغلی قبر، اس کی صورت یہ ہے کہ پہلے گڑھا کھودا جائے، پھر اس میں قبیلے کی جانب میت کو رکھنے کے لیے جگہ بنائی جائے۔ اور شق کا مطلب یہ ہے کہ بڑا گڑھا کھود کر اس کے درمیان میں میت کے لیے نسبتاً چھوٹا گڑھا کھودا جائے۔ احادیث مذکورہ سے دونوں کا جواز ثابت ہوتا ہے جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی اکرم صلى الله عليه وسلم فوت ہوئے اس وقت مدینے میں ایک آدمی لحد قبر بنایا کرتا تھا اور ایک آدمی شق والی (سیدھی)۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم اپنے رب سے سے استخارہ کرتے ہیں (بہتر چیز کی دعا کرتے ہیں) اور دونوں کو بلا بھیجتے ہیں جو پیچھے رہ گیا، اسے چھوڑ دیں گے۔ (اور جو پہلے آ گیا، وہ اپنے طریقے پر قبر تیار کر دے گا) چنانچہ ان دونوں کو پیغام بھیجا گیا تو لحد بنانے والا پہلے آ گیا، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بغلی قبر تیار کروائی۔ [مسند احمد: 139/3 واسنن ابن ماجه، الجنائز باب ماجاء فى الشق، حديث: 1558، 1557]
نیز حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لحد ہمارے لیے ہے اور شق ہمارے سوا دوسروں کے لیے ہے۔“ [سنن ابي داود، الجنائز، باب فى اللحد، حديث: 3208]
علمائے کرام بیان کرتے ہیں کہ شق والی قبر دوسروں کے لیے ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمارے لیے جائز نہیں۔ غالباً اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر مسلموں اور زیادہ شق والی قبر کا رواج ہے اور مسلمان زیادہ تر لحد (بغلی قبر) بناتے ہیں۔
امام نووی رحمہ الله اس کی بابت لکھتے ہیں کہ لحد بنانا مستحب ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اتفاق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لحد کھودی گئی تھی۔ دیکھیے: [صحيح مسلم بشرح النووي، الجنائز: 49، 48/7۔ حديث: 966]
لہٰذا جہاں زمین سخت ہو اور لحد والی (بغلی) قبر بن سکتی ہو وہاں لحد مستحب اور افضل ہے، البتہ شق (صندوقی قبر) بنانا بھی جائز ہے جیسا کہ احادیث سے اس کا بھی ثبوت ملتا ہے، «والله اعلم»
➌ کچی اینٹیں اندر لگانی چاہیں۔
➍ قبر پر کسی قسم کی عمارت تعمیر کرنا اور قبر کو پختہ بنانا شرعاً منع ہے اور یہ ممانعت تحریمی ہے۔
➎ قبر کو کوئی مخصوص شکل دینا بھی درست نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ابدی آرام گاہ کوہان نما تھی اور ایک بالشت سے بلند نہیں ہے اور یہی کیفیت حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی قبروں کی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 468