بلوغ المرام
كتاب الجنائز
جنازے کے مسائل
1. (أحاديث في الجنائز)
(جنازے کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 466
وعن ابن عمر رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «إذا وضعتم موتاكم في القبور فقولوا: بسم الله وعلى مله رسول الله» . أخرجه أحمد وأبو داود والنسائي وصححه ابن حبان وأعله الدارقطني بالوقف.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”جب اپنے مرنے والوں کو قبروں میں اتارو تو «بسم الله وعلى مله رسول الله» کہو۔“
اسے احمد، ابوداؤد اور نسائی نے نکالا ہے۔ ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور دارقطنی نے اسے معلول قرار دیتے ہوئے اسے موقوف کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الجنائز، باب في الدعاء للميت إذا وضع في قبره، حديث:3213، والترمذي، الجنائز، حديث:1046، وابن ماجه، الجنائز، حديث:1550، والنسائي في الكبرٰي، حديث:10927، وعمل اليوم والليلة، حديث:1088، وأحمد:2 /40، 128، وابن حبان (الموارد)، حديث:772.»
حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 466 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 466
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ میت کو قبر میں داخل کرتے ہوئے یہ دعا پڑھنا مسنون ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ کی طرح امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو گو موقوف ہی قرار دیا ہے مگر یہ صحیح نہیں۔ اس کی تائید مستدرک کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس کی سند حسن ہے۔ [المستدرك للحاكم: 3661]
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 466
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابن ماجه 1553
´میت کو قبر میں داخل کرنے کا بیان`
«. . . حَضَرْتُ ابْنَ عُمَرَ فِي جِنَازَةٍ، فَلَمَّا وَضَعَهَا فِي اللَّحْدِ، قَالَ:" بِسْمِ اللَّهِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ . . .»
”. . . میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک جنازے میں حاضر ہوا۔ جب انہوں نے میت کو لحد میں رکھا گیا تو فرمایا: اللہ کے نام سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر۔. . .“ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز: 1553]
تخریج الحدیث
[سنن ابن ماجه: 1553]، [المعجم الكبير للطبراني 4 1309]، [السنن الكبري للبيهقي: 55/4]
تبصرہ:
یہ سخت ترین ”ضعیف“ روایت ہے، کیونکہ:
① اس کا راوی حماد بن عبدالرحمن کلبی ”ضعیف“ ہے۔ [تقريب التهذيب: 1502]
◈ حافظ بوصیری (م: 840 ھ) کہتے ہیں:
«هذا إسناد فيه حماد بن عبد الرحمن، هو متفق على تضعيفه .»
”اس سند میں حماد بن عبدالرحمن راوی موجود ہے جس کو ضعیف قرار دینے پر تمام محدثین متفق ہیں۔“ [مصباح الزجاجة فى زوائد ابن ماجه: 505/1]
② ادریس بن صبیح اودی راوی ”مجہول“ ہے۔
◈ امام ابوحاتم الرازی نے اسے ”مجہول“ قرار دیا ہے۔ [الجرح و التعديل لابن أبى حاتم: 264/2]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:
«يغرب ويخطيء على قلته.»
”بہت کم روایات بیان کرنے کے باوجود اس کی روایات میں نکارت اور غلطیاں موجود ہیں۔“ [الثقات: 78/6]
◈ امام ابن عدی نے اسے ادریس بن یزید اودی قرار دیا ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وقول ابن عدي أصوب.» ”امام ابن عدی رحمہ اللہ کا قول ہی زیادہ صائب ہے۔“ [تهذيب التهذيب: 171/1، وفي نسخة: 195/1]
↰ یہ بات بے دلیل ہونے کی وجہ سے درست نہیں۔
اس ضعیف روایت کا مروجہ بدعتی تلقین سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ معلوم ہوا شواہد کی رٹ لگانے والوں کا دامن بالکل خالی ہے۔
فائدہ نمبر ① حلبی، علامہ سبکی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«حديث تلقين النبى صلى الله عليه وسلم لابنه، ليس له أصل، أى صحيح أو حسن.»
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے بیٹے کو تلقین کرنے والی روایت کی کوئی صحیح یا حسن سند موجود نہیں۔“ [السيرة الحلبية: 437/3]
فائده نمبر ② حافظ ابن القیم رحمہ اللہ (691-751 ھ) لکھتے ہیں:
«فهذا الحديث، وإن لم يثبت، فاتصال العمل به فى سائر الأمصار والأعصار من غير إنكاره كاف فى العمل به.»
”یہ حدیث اگرچہ صحیح ثابت نہیں، لیکن تمام علاقوں میں ہر زمانے میں اس پر بغیر انکار کے عمل ہوتا رہا ہے۔ یہی بات اس پر عمل کے جائز ہونے کے لئے کافی ہے۔“ [الروح، ص: 16]
◈ کتاب الروح کے متعلق محدث العصر، علامہ، ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فاني فى شك كبير من صحة نسبة (الروح) إليه، أو لعله ألفه فى أول طلبه للعلم، والله أعلم.»
”میں کتاب الروح کی علامہ ابن القیم کی طرف نسبت کے حوالے سے کافی شک و شبہ میں مبتلا ہوں۔ (یا تو یہ ان کی تصنیف ہی نہیں) یا پھر انہوں نے اپنے طلب علم کے اوائل میں اسے تالیف کیا تھا۔ «والله اعلم!» “ [تحقيق الأيات البينات فى عدم سماع الأموت: 39]
↰ ہو سکتا ہے کہ یہ عبارت الحاقی ہو، یعنی کسی ناسخ کی غلطی سے درج ہو گئی ہو، کیونکہ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ خود سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«ولم يكن يجلس يقرا عند القبر، ولا يلقن الميت، كما يفعله الناس اليوم.»
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے پاس قرأت کرنے نہیں بیٹھے تھے، نہ ہی (قبر پر) میت کو تلقین کرتے تھے، جیسا کہ موجودہ زمانے میں لوگ کرتے ہیں۔“ [زاد المعاد فى هدي خير العباد: 522/1]
↰ اگر کسی ضعیف روایت کے حکم پر بعض لوگ عمل کریں تو وہ صحیح نہیں ہو جاتی ہے۔ لوگوں کے عمل سے سند کا صحیح ہونا محدثین کرام کا مذہب نہیں۔ اگر کسی روایت کے حکم پر یعنی اس سے ماخوذ مسئلہ پر اجماع امت ثابت ہو جائے، تب بھی وہ سند ”ضعیف“ ہی رہے گی۔
ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 46-48، حدیث/صفحہ نمبر: 56
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1550
´میت کو قبر میں داخل کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب مردے کو قبر میں داخل کیا جاتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم «بسم الله وعلى ملة رسول الله» اور ابوخالد نے اپنی روایت میں ایک بار یوں کہا: جب میت کو اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا تو آپ «بسم الله وعلى سنة رسول الله» کہتے، اور ہشام نے اپنی روایت میں «بسم الله وفي سبيل الله وعلى ملة رسول الله» کہا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1550]
اردو حاشہ:
فائده:
جب میت کو قبر میں اُتارا جائے۔
تو اتارنے والوں کو چاہیے کہ مذکورہ بالا دعا پڑھیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1550