بلوغ المرام
كتاب الجنائز
جنازے کے مسائل
1. (أحاديث في الجنائز)
(جنازے کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 464
وعن أبي سعيد رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «إذا رأيتم الجنازة فقوموا فمن تبعها فلا يجلس حتى توضع» . متفق عليه.
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تم کسی جنازے کو آتے دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ۔ نیز جو شخص جنازے کے ساتھ ہو وہ جنازے کے زمین پر رکھے جانے سے پہلے نہ بیٹھے۔“ (بخاری و مسلم)
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجنائز، باب من تبع جنازة فلا يقعد حتي توضع...، حديث:1310، ومسلم، الجنائز، باب القيام للجنازة، حديث:959.»
حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 464 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 464
لغوی تشریح:
«فَقُومُوا» امر کا صیغہ ہے مگر امر استحباب کے معنی میں ہے، یا یہ حکم اب منسوخ ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں قسم کے فرامین میں سے جو آخری ارشادات ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام چھوڑ دیا تھا۔
«حَتّٰي تُوضَعَ» آدمیوں کے کندھوں سے اتار کر زمین پر رکھنے تک اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ قبر میں اتارنے تک۔ دونوں کا احتمال ہے مگر پہلا قول راجح ہے۔ جنازہ زمین پر رکھنے سے پہلے بیٹھنے کی ممانعت بھی استحباب پر محمول ہے، وجوب پر نہیں۔
فائدہ:
موت کا عمل انسان کے لیے اضطراب اور بےچینی و بےقراری کا باعث ہوتا ہے، نیز میت کے ہمراہ فرشتے بھی ہوتے ہیں، اس لیے ان کے احترام میں کھڑے ہونا لائق اعتبار ہے۔ مگر بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آپ صلى الله عليه وسلم کو علم ہوا کہ جنازے کے لیے کھڑا ہونا یہودیوں کا طریقہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھنے اور یہودیوں کی مخالفت کا حکم فرمایا۔ اس بنا پر بعض نے کھڑے ہونے کے حکم کو منسوخ قرار دیا ہے۔ اور بعض نے اس حکم کو محض استحباب پر محمول کیا ہے اور صرف وجوب کو منسوخ قرار دیا ہے۔ شیخ البانی رحمہ الله وغیرہ نے کھڑے ہونے کے حکم کو منسوخ قرار دیا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 464
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1915
´جنازے کو جلد دفنانے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہارے (سامنے) سے جنازہ گزرے تو کھڑے ہو جاؤ، (اور) جو (جنازے) کے ساتھ جائے وہ نہ بیٹھے یہاں تک کہ اسے رکھ دیا جائے۔“ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1915]
1915۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ حدیث اگلے باب کے تحت ذکر ہونی چاہیے۔ پچھلے باب سے اس کا کوئی تعلق نہیں بنتا۔ واللہ أعلم۔
➋ ”کھڑے ہو جاؤ“ ایک اور حدیث میں اس کی وجہ بھی بیان کی گئی ہے: «إن للموت فزعا» (مسند أحمد: 354/3) ”موت گھبراہٹ کا باعث ہے۔“ یعنی موت کو دیکھ کر یا سن کر انسان کو گھبرا جانا چاہیے۔ حوادث سے متاثر ہونا فطری چیز ہے۔ اور موت تو سب سے بڑا حادثہ ہے۔ ایک کی موت دوسروں کو بھی ان کی موت یاد دلاتی ہے، لہٰذا جنازہ دیکھیں تو اپنا کام چھوڑ کر کھڑے ہونا چاہیے۔ بعض روایات میں یہ وجہ بھی ذکر ہے کہ یہ قیام فرشتوں کے احترام کے طور پر ہے جو جنازے کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں جنازہ عام ہو گا، مسلم کا ہو یا کافر کا۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ کھڑے ہونا تعاون کے امکان کے لیے ہے۔ اس صورت میں یہ حکم صرف مسلم کے جنازے کے لیے ہو گا، یعنی جب تک جنازہ کندھوں پر ہے، ساتھیوں کے تعاون کی ضرورت پڑ سکتی ہے، لہٰذا جنازہ زمین پر رکھنے تک شرکاء مت بیٹھیں لیکن یہ توجیہ کمزور ہے۔ (قیام کی باقی بحث آئندہ باب میں ہے۔)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1915
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 2000
´جنازہ رکھنے سے پہلے بیٹھنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ، اور جو اس کے ساتھ جائے وہ بھی کھڑا رہے یہاں تک کہ اسے رکھ دیا جائے۔“ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2000]
2000۔ اردو حاشیہ: تفصیل کے لیے دیکھیے، فوائد حدیث سنن نسائي: 1915 تا 1931۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2000
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3173
´میت کے لیے کھڑے ہونے کا مسئلہ۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم جنازے کے پیچھے چلو تو جب تک جنازہ رکھ نہ دیا جائے نہ بیٹھو“ ابوداؤد کہتے ہیں: ثوری نے اس حدیث کو سہیل سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اس میں ہے: ”یہاں تک کہ جنازہ زمین پر رکھ دیا جائے“ اور اسے ابومعاویہ نے سہیل سے روایت کیا ہے اس میں ہے کہ جب تک جنازہ قبر میں نہ رکھ دیا جائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: سفیان ثوری ابومعاویہ سے زیادہ حافظہ والے ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3173]
فوائد ومسائل:
اس سے میت کے ساتھ جانے والوں کےلئے اس بات کا استحباب معلوم ہوتا ہے۔
کہ جب تک میت کو رکھ نہ دیا جائے۔
بیٹھنے سے گریز کیا جائے۔
لیکن بعد میں بیٹھنے کے حکم والی روایات سے بعض علماء کے نزدیک اس کا نسخ اور بعض کے نزدیک ددنوں ہاتھوں کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3173
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1310
1310. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جاؤاور جو شخص اس کے ہمراہ جا رہا ہو وہ نہ بیٹھے تاآنکہ اسے زمین پر رکھ دیا جائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1310]
حدیث حاشیہ:
اس بارے میں بہت کچھ بحث وتمحیص کے بعد شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب ؒ فرماتے ہیں:
والقول الراجح عندي هو ما ذهب إليه الجمهور من أنه يستحب أن لا يجلس التابع والمشيع للجنازة حتى توضع بالأرض. وأن النهي في قوله:
فلا يقعد، محمول على التنزيه. والله تعالى أعلم. ويدل على استحباب القيام إلى أن توضع ما رواه البيهقي۔
(ص: 27ج: 4)
من طريق أبي حازم قال:
مشيت مع أبي هريرة وابن عمر وابن الزبير والحسن بن علي أمام الجنازة حتى انتهينا إلى المقبرة، فقاموا حتى وضعت ثم جلسوا، فقلت لبعضهم، فقال:
إن القائم مثل الحامل يعني في الأجر. (مرعاة‘ جلد: 2 ص: 471)
یعنی میرے نزدیک قول راجح وہی ہے جدھر جمہور گئے ہیں اور وہ یہ کہ جنازہ کے ساتھ چلنے والوں اور اس کے رخصت کرنے والوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ جب تک جنازہ زمین پر نہ رکھ دیا جائے نہ بیٹھیں اور حدیث میں نہ بیٹھنے کی نہی تنزیہی ہے اور اس قیام کے استحباب پر بیہقی کی وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جسے انہوں نے ابوحازم کی سند سے روایت کیا ہے کہ ہم حضرت ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر اور حسن بن علی ؓ کے ساتھ ایک جنازہ کے ہمراہ گئے۔
پس یہ جملہ حضرات کھڑے ہی رہے جب تک وہ جنازہ زمین پر نہ رکھ دیا گیا۔
اس کے بعد وہ سب بھی بیٹھ گئے۔
میں نے ان میں سے بعض سے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ کھڑا رہنے والا بھی اسی کے مثل ہے جو خود جنازہ کو اٹھا رہا ہے یعنی ثواب میں یہ دونوں برابر ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1310
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1310
1310. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جاؤاور جو شخص اس کے ہمراہ جا رہا ہو وہ نہ بیٹھے تاآنکہ اسے زمین پر رکھ دیا جائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1310]
حدیث حاشیہ:
(1)
جنازے کے لیے قیام کی یہ دوسری قسم ہے جسے امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں بیان کیا ہے کہ جنازے کے ہمراہ جانے والوں کے لیے کیا حکم ہے؟ امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں حدیث پیش کی ہے کہ جو جنازے میں شرکت کرے وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک کہ جنازہ رکھ نہ دیا جائے۔
عنوان میں جنازہ رکھنے کو مقید کیا ہے کہ اسے لوگوں کے کندھوں سے اتار کر رکھ دیا جائے۔
گویا امام ؒ نے سنن ابی داود کی روایت کو ترجیح دی ہے جس کے الفاظ ہیں کہ جب تم جنازے کے پیچھے چلو تو اس وقت تک نہ بیٹھو تاآنکہ اسے زمین پر رکھ دیا جائے۔
(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3173)
اگرچہ بعض روایات میں قبر میں رکھنے کا بھی ذکر ہے، لیکن امام ابو داود ؒ نے اس روایت کو مرجوح قرار دیا ہے، نیز راوی حدیث سہیل بن ابی صالح کا عمل بایں الفاظ بیان ہوا ہے کہ وہ اس وقت تک نہ بیٹھتے تھے جب تک جنازہ کندھوں سے اتار نہ دیا جاتا، یعنی اسے زمین پر رکھ دیا جاتا۔
دیگر روایات سے بھی اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔
حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو نہیں دیکھا کہ آپ کسی جنازے میں شریک ہوں اور جنازہ رکھے جانے سے قبل بیٹھ گئے ہوں۔
(سنن النسائي، الجنائز، ص: 1919) (2)
ہمارے نزدیک جنازے کے لیے قیام کی یہ دوسری قسم بھی منسوخ ہے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جنازوں کے ساتھ کھڑے رہتے جب تک انہیں رکھ نہ دیا جاتا اور آپ کے ساتھ لوگ بھی کھڑے رہتے، پھر اس کے بعد آپ نے بیٹھنا شروع کر دیا اور لوگوں کو بھی بیٹھنے کا حکم دیا۔
(السنن الکبریٰ للبیيقي: 27/4)
اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک جنازے کو لحد میں نہ رکھ دیا جاتا، پھر ایک یہودی عالم کا گزر ہوا تو اس نے کہا کہ اس طرح تو ہم کرتے ہیں، تب نبی ﷺ نے بیٹھنا شروع کر دیا اور فرمایا کہ تم بھی بیٹھا کرو اور ان کی مخالفت کرو۔
(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3167)
علامہ البانی ؒ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔
(أحکام الجنائز، حدیث: 77، 78)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1310