تخریج: «أخرجه الترمذي، أبواب الصلاة، باب ما جاء في المشي يوم العيد، حديث: 530، وقال: "هذا حديث حسن"، الحارث الأعور ضعيف جدًا متهم، وأبواسحاق عنعن.»
تشریح:
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً سخت ضعیف قرار دیا ہے‘ نیز دیگر محققین نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے‘ تاہم امام ترمذی رحمہ اللہ نے مذکورہ روایت کو حسن قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اکثر اہل علم حضرات کا اس حدیث پر عمل ہے۔
ان کے نزدیک عید کی نماز کے لیے عیدگاہ کی طرف پیدل جانا مستحب ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ شاید امام ترمذی رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت کو دیگر شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے جو سنن ابن ماجہ‘ باب ماجاء في الخروج إلی العید ماشیًا کے تحت آئی ہیں۔
مزید لکھتے ہیں کہ مذکورہ باب کی تمام روایات انفرادی طور پر ضعیف ہیں لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسئلے کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔
اور پھر اس مسئلے کی تائید و توثیق میں ایک مرسل روایت پیش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازے میں شرکت اور عیدالاضحی اور عیدالفطر کی نماز کی ادائیگی کے لیے پیدل تشریف لے جاتے تھے‘ نیز سعید بن مسیب کا قول ہے کہ عیدالفطر کی تین سنتیں ہیں:
”عیدگاہ کی طرف پیدل جانا‘ نماز عید کی ادائیگی کے لیے جانے سے پہلے کوئی چیز کھانا اور عید کی نماز کے لیے غسل کرنا۔
“ مذکورہ بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ عیدگاہ کی طرف پیدل جانا کم از کم مستحب ضرور ہے‘ تاہم ضرورت کے پیش نظر سواری پر سوار ہو کر بھی جایا جا سکتا ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
(إرواء الغلیل: ۳ / ۱۰۳‘ ۱۰۴)