بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
14. باب صلاة العيدين
نماز عیدین کا بیان
حدیث نمبر: 393
وعن أبي سعيد رضي الله عنه قال: كان النبي صلى الله عليه وآله وسلم لا يصلي قبل العيد شيئا فإذا رجع إلى منزله صلى ركعتين. رواه ابن ماجه بإسناد حسن
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید سے پہلے کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ البتہ جب واپس گھر تشریف لے آتے تو دو رکعت نماز نفل ادا فرماتے۔
اسے ابن ماجہ نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن ماجه، إقامة الصلوات، باب ما جاء في الصلاة قبل صلاة العيد وبعدها، حديث:1293.* ابن عقيل ضعيف ضعفه الجمهور علي الراجح.»
حكم دارالسلام: ضعيف
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 393 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 393
تخریج: «أخرجه ابن ماجه، إقامة الصلوات، باب ما جاء في الصلاة قبل صلاة العيد وبعدها، حديث:1293.* ابن عقيل ضعيف ضعفه الجمهور علي الراجح.»
تشریح:
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔
علاوہ ازیں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس مسئلے کی بابت فتح الباری میں سیر حاصل بحث کی ہے اور سنن ابن ماجہ کی مذکورہ روایت کو حسن قرار دے کر دونوں قسم کی روایات میں تطبیق دی ہے کہ جن احادیث میں نفل وغیرہ نہ پڑھنے کا ذکر ہے‘ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ عیدگاہ میں کوئی نوافل ادا نہیں کرتے تھے۔
گھر آکر ادا کیے جانے والے نفلوں کا تعلق نماز عید سے نہیں بلکہ یہ مطلق نفل ہیں‘ لہٰذا معلوم ہوا کہ عید کے دن نماز عید کے علاوہ عید گاہ میں کوئی نماز نہیں‘ البتہ گھر میں نماز عید کے بعد دو رکعت نماز ادا کی جا سکتی ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
(فتح الباري:۲ / ۶۱۳‘ ۶۱۴‘ والموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۱۷ / ۳۲۴. ۳۲۶‘ وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتور بشار عواد‘ حدیث:۱۲۹۳) بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 393
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1293
´عید سے پہلے اور اس کے بعد نماز پڑھنا کیسا ہے؟`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید سے پہلے کچھ بھی نہیں پڑھتے تھے، جب اپنے گھر واپس لوٹتے تو دو رکعت پڑھتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1293]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین مثلاً امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اورحافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ، امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ، شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ، شيخ حسین اسد اور الموسوعۃ الحدیثیہ کے محققین نے اسے حسن قراردیا ہے۔
علاوہ ازیں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ پر فتح الباری میں سیر حاصل بحث کی ہے اورسنن ابن ماجہ کی مذکورہ روایت کوحسن قرار دے کر دونوں قسم کی روایات میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ جن احادیث میں نفل وغیرہ نہ پڑھنے کا ذکر ہے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کی عید گاہ میں کوئی نوافل ادا نہیں کرتے تھے۔
گھر آ کر ادا کیے جانے والے نفلوں کا تعلق نماز عید سے نہیں بلکہ یہ مطلق نفل ہیں۔
واللہ أعلم۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (فتح الباري: 614، 613/2 والموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد بن حنبل: 326، 325، 324/17، وسنن ابن ماجة للدکتور بشار عواد، حدیث: 1293)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1293