Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
14. باب صلاة العيدين
نماز عیدین کا بیان
حدیث نمبر: 389
وعن أم عطية رضي الله عنها قالت: أمرنا أن نخرج العواتق والحيض في العيدين يشهدن الخير ودعوة المسلمين ويعتزل الحيض المصلى. متفق عليه.
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم جوان لڑکیوں اور حائضہ عورتوں کو بھی عیدین میں ساتھ لے کر نکلیں تاکہ وہ بھی مسلمانوں کے امور خیر اور دعاؤں میں شریک ہوں۔ البتہ حائضہ عورتیں عید گاہ کے کنارے پر رہیں۔ (نماز میں شامل نہ ہوں صرف دعا میں شرکت کریں) (بخاری و مسلم)

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، العيدين، باب خروج النساء والحيض إلي المصلي، حديث:974، ومسلم، صلاة العيدين، باب ذكر إباحة خروج النساء في العيدين إلي المصلي، حديث:890.»

حكم دارالسلام: صحيح

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 389 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 389  
تخریج:
«أخرجه البخاري، العيدين، باب خروج النساء والحيض إلي المصلي، حديث:974، ومسلم، صلاة العيدين، باب ذكر إباحة خروج النساء في العيدين إلي المصلي، حديث:890.»
تشریح:
1. خواتین کا نماز عید کے لیے جانا اس حدیث کی رو سے ثابت ہے۔
2.ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی ازواج مطہرات اور اپنی بیٹیوں کو عید گاہ میں لے جاتے تھے۔
(مسند أحمد: ۱ / ۲۳۱‘ و سنن ابن ماجہ‘ إقامۃ الصلوات والسنۃ فیھا‘ حدیث:۱۳۰۹) حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم خواتین کا نماز عید میں حاضر ہونا واجب سمجھتے تھے۔
3.احناف نے اس حدیث کی تاویل کی ہے اور اسے ابتدائے اسلام کا واقعہ بتایا ہے تاکہ اہل اسلام کی تعداد زیادہ معلوم ہو اور کثرت تعداد اہل کفر و شرک کے لیے باعث اذیت ہو اور مسلمانوں کی دھاک بیٹھے‘ مگر یہ تاویل جس پر علامہ طحاوی نے بڑا زور قلم صرف کیا ہے‘ قابل لحاظ معلوم نہیں ہوتی کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما گواہی دیتے ہیں کہ ازواج مطہرات وغیرہ عید پڑھنے جاتی تھیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کم عمر تھے‘ ظاہر ہے کہ ان کی یہ گواہی فتح مکہ کے بعد کی ہے جس وقت اظہار قوت کی ضرورت ہی نہیں تھی‘ اس لیے عورتوں کو عید گاہ میں بہر نوع حاضر ہونا چاہیے۔
اور جو لوگ باطل تاویلات کرتے ہیں انھیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 389   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 324  
´عیدین میں اور مسلمانوں کے ساتھ دعا میں حائضہ عورتیں بھی شریک ہوں`
«. . . حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ سَلَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حَفْصَةَ، قَالَتْ: كُنَّا نَمْنَعُ عَوَاتِقَنَا أَنْ يَخْرُجْنَ فِي الْعِيدَيْنِ، فَقَدِمَتِ امْرَأَةٌ فَنَزَلَتْ قَصْرَ بَنِي خَلَفٍ، فَحَدَّثَتْ عَنْ أُخْتِهَا، وَكَانَ زَوْجُ أُخْتِهَا غَزَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثِنْتَيْ عَشَرَةَ غَزْوَةً، وَكَانَتْ أُخْتِي مَعَهُ فِي سِتٍّ، قَالَتْ: كُنَّا نُدَاوِي الْكَلْمَى، وَنَقُومُ عَلَى الْمَرْضَى، فَسَأَلَتْ أُخْتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَعَلَى إِحْدَانَا بَأْسٌ إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهَا جِلْبَابٌ أَنْ لَا تَخْرُجَ؟ قَالَ: لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا، وَلْتَشْهَد الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ، فَلَمَّا قَدِمَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ سَأَلْتُهَا، أَسَمِعْتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: بِأَبِي نَعَمْ، وَكَانَتْ لَا تَذْكُرُهُ إِلَّا قَالَتْ: بِأَبِي سَمِعْتُهُ يَقُولُ: " يَخْرُجُ الْعَوَاتِقُ وَذَوَاتُ الْخُدُورِ أَوِ الْعَوَاتِقُ ذَوَاتُ الْخُدُورِ، وَالْحُيَّضُ وَلْيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُؤْمِنِينَ، وَيَعْتَزِلُ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى "، قَالَتْ حَفْصَةُ: فَقُلْتُ: الْحُيَّضُ، فَقَالَتْ: أَلَيْسَ تَشْهَدُ عَرَفَةَ وَكَذَا وَكَذَا . . . .»
. . . ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے ایوب سختیانی سے، وہ حفصہ بنت سیرین سے، انہوں نے فرمایا کہ ہم اپنی کنواری جوان بچیوں کو عیدگاہ جانے سے روکتی تھیں، پھر ایک عورت آئی اور بنی خلف کے محل میں اتریں اور انہوں نے اپنی بہن (ام عطیہ) کے حوالہ سے بیان کیا، جن کے شوہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ لڑائیوں میں شریک ہوئے تھے اور خود ان کی اپنی بہن اپنے شوہر کے ساتھ چھ جنگوں میں گئی تھیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ ہم زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں اور مریضوں کی خبرگیری بھی کرتی تھیں۔ میری بہن نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو تو کیا اس کے لیے اس میں کوئی حرج ہے کہ وہ (نماز عید کے لیے) باہر نہ نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی ساتھی عورت کو چاہیے کہ اپنی چادر کا کچھ حصہ اسے بھی اڑھا دے، پھر وہ خیر کے مواقع پر اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں، (یعنی عیدگاہ جائیں) پھر جب ام عطیہ رضی اللہ عنہا آئیں تو میں نے ان سے بھی یہی سوال کیا۔ انہوں نے فرمایا، میرا باپ آپ پر فدا ہو، ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ اور ام عطیہ رضی اللہ عنہا جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو یہ ضرور فرماتیں کہ میرا باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہو۔ (انہوں نے کہا) میں نے آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ جوان لڑکیاں، پردہ والیاں اور حائضہ عورتیں بھی باہر نکلیں اور مواقع خیر میں اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں اور حائضہ عورت جائے نماز سے دور رہے۔ حفصہ کہتی ہیں، میں نے پوچھا کیا حائضہ بھی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ وہ عرفات میں اور فلاں فلاں جگہ نہیں جاتی۔ یعنی جب وہ ان جملہ مقدس مقامات میں جاتی ہیں تو پھر عیدگاہ کیوں نہ جائیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ شُهُودِ الْحَائِضِ الْعِيدَيْنِ، وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ، وَيَعْتَزِلْنَ الْمُصَلَّى:: 324]
تشریح:
اجتماع عیدین میں عورتیں ضرور شریک ہوں: اجتماع عیدین میں عورتوں کے شریک ہونے کی اس قدر تاکید ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورتوں تک کے لیے تاکید فرمائی کہ وہ بھی اس ملی اجتماع میں شریک ہو کر دعاؤں میں حصہ لیں اور حالت حیض کی وجہ سے جائے نماز سے دور رہیں، ان مستورات کے لیے جن کے پاس اوڑھنے کے لیے چادر بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اجتماع سے پیچھے رہ جانے کی اجازت نہیں دی، بلکہ فرمایا کہ اس کی ساتھ والی دوسری عورتوں کو چاہئیے کہ اس کے لیے اوڑھنی کا انتظام کر دیں۔ روایت مذکورہ میں یہاں تک تفصیل موجود ہے کہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے تعجب کے ساتھ ام عطیہ سے کہا کہ حیض والی عورتیں کس طرح نکلیں گی جب کہ وہ نجاست حیض میں ہیں۔ اس پر ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حیض والی عورتیں حج کے دنوں میں آخر عرفات میں ٹھہرتی ہیں، مزدلفہ میں رہتی ہیں، منیٰ میں کنکریاں مارتی ہیں، یہ سب مقدس مقامات ہیں، جس طرح وہ وہاں جاتی ہیں اسی طرح عیدگاہ بھی جائیں۔ بخاری شریف کی اس حدیث کے علاوہ اور بھی بہت سی واضح احادیث اس سلسلہ میں موجود ہیں۔ جن سب کا ذکر موجب تطویل ہو گا۔ مگر تعجب ہے فقہائے احناف پر جنہوں نے اپنے فرضی شکوک و اوہام کی بنا پر صراحتاً اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان عالی شان کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔
مناسب ہو گا کہ فقہائے احناف کا فتویٰ صاحب ایضاح البخاری کے لفظوں میں پیش کر دیا جائے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
اب عیدگاہ کا حکم بدل گیا ہے پہلے عیدگاہ مسجدکی شکل میں نہ ہوتی تھی، اس لیے حائضہ اور جنبی کو بھی اندر جانے کی اجازت تھی، اب عیدگاہیں مکمل مسجد کی صورت میں ہوتی ہیں، اس لیے ان کا حکم بعینہ مسجد کا حکم ہے۔ اسی طرح دور حاضر میں عورتوں کو عیدگاہ کی نماز میں شرکت سے بھی روکا گیا ہے۔ صدر اول میں اول تو اتنا اندیشہ فتنہ و فساد کا نہیں تھا، دوسرے یہ کہ اسلام کی شان و شوکت ظاہر کرنے کے لیے ضروری تھا، مرد و عورت سب مل کر عیدکی نماز میں شرکت کریں۔ اب فتنہ کا بھی زیادہ اندیشہ ہے اور اظہا رشان و شوکت کی بھی ضرورت نہیں، اس لیے روکا جائے گا۔ متاخرین کا یہی فیصلہ ہے۔ الی آخرہ [ايضاح البخاري، جز11، ص: 129]
منصف مزاج ناظرین اندازہ فرما سکیں گے کہ کس جرات کے ساتھ احادیث صحیحہ کے خلاف فتویٰ دیا جا رہا ہے، جس کا اگر گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کہ اگر عیدگاہ کھلے میدان میں ہو اور اس کی تعمیر مسجد جیسی نہ ہو اور پر دے کا انتظام اتنا بہتر کر دیا جائے کہ فتنہ و فساد کا مطلق کوئی خوف نہ ہو اور اس اجتماع مرد وزن سے اسلام کی شان و شوکت بھی مقصود ہو تو پھر عورتوں کا عید کے اجتماع میں شرکت کرنا جائز ہو گا۔ الحمد للہ کہ جماعت اہل حدیث کے ہاں اکثر یہ تمام چیزیں پائی جاتی ہیں۔ وہ بیشتر کھلے میدانوں میں عمدہ انتظامات کے ساتھ مع اپنے اہل و عیال عیدین کی نمازیں ادا کرتے ہیں اور اسلامی شان و شوکت کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان کی عیدگاہوں میں کبھی فتنہ و فساد کا نام تک بھی نہیں آیا۔ برخلاف اس کے ہمارے بہت سے بھائیوں کی عورتیں میلوں عرسوں میں بلاحجاب شریک ہوتی ہیں اور وہاں نت نئے فسادات ہوتے رہتے ہیں۔ مگر ہمارے محترم فقہائے عظام وہاں عورتوں کی شرکت پر اس قدر غیظ و غضب کا اظہار کبھی نہیں فرماتے جس قدر اجتماع عیدین میں مستورات کی شرکت پر ان کی فقاہت کی باریکیاں مخالفانہ منظرعام پر آ جاتی ہیں۔

پھر یہ بھی تو غور طلب چیز ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جملہ مستورات، اصحاب کرام، انصار و مہاجرین کی مستورات درجہ شرافت میں جملہ مستورات امت سے افضل ہیں، پھر بھی وہ شریک عیدین ہوا کرتی تھیں جیسا کہ خود فقہائے احناف کو تسلیم ہے۔ ہماری مستورات تو بہرحال ان سے کمتر ہیں وہ اگر باپردہ شریک ہوں گی تو کیوں کر فتنہ و فساد کی آگ بھڑکنے لگے گی یا ان کی عزت و آبرو پر کون سا حرف آ جائے گا۔ کیا وہ قرن اوّل کی صحابیات سے بھی زیادہ عزت رکھتی ہیں؟ باقی رہا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد: «لوراي رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم مااحدث النساءالخ» کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج عورتوں کے نوپیدا حالات کو دیکھتے تو ان کو عیدگاہ سے منع کر دیتے۔ یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی ذاتی رائے ہے جو اس وقت کے حالات کے پیش نظر تھی، اور ظاہر ہے کہ ان کی اس رائے سے حدیث نبوی کو ٹھکرایا نہیں جاسکتا۔ پھر یہ بیان لفظ «لو» (اگر) کے ساتھ ہے جس کا مطلب یہ کہ ارشاد نبوی آج بھی اپنی حالت پر واجب العمل ہے۔ خلاصہ یہ کہ عیدگاہ میں پردہ کے ساتھ عورتوں کا شریک ہونا سنت ہے۔ «وبالله التوفيق»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 324   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 974  
974. حضرت ام عطیہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمیں ہمارے نبی ﷺ نے حکم دیا کہ ہم (نمازِ عید کے لیے) ان جوان عورتوں کو بھی نکالیں جو پردہ نشین ہیں۔ حضرت حفصہ بنت سیرین سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ نوجوان اور پردہ نشین عورتوں کو عید کے لیے نکالیں، البتہ حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:974]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ نے عورتوں کے عیدین میں شرکت کرنے کے متعلق تفصیل سے صحیح احادیث کو نقل فرمایا ہے جن میں کچھ قیل وقال کی گنجائش ہی نہیں۔
متعدد روایات میں موجود ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی جملہ بیویوں اور صاحبزادیوں کو عیدین کے لیے نکالتے تھے۔
یہاں تک فرمادیا کہ حیض والی بھی نکلیں اور وہ نماز سے دور رہ کر مسلمانوں کی دعاؤں میں شرکت کریں اور وہ بھی نکلیں جن کے پاس چادر نہ ہو، چاہئے کہ ان کی ہم جولیاں ان کو چادر یا دوپٹہ دے دیں۔
بہر حال عورتوں کا عیدگاہ میں شرکت کرنا ایک اہم ترین سنت اور اسلامی شعار ہے۔
جس سے شوکت اسلام کا مظاہرہ ہوتا ہے اور مرد عورت اور بچے میدان عید گاہ میں اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو کر دعائیں کرتے ہیں۔
جن میں سے کسی ایک کی بھی دعا اگر قبولیت کا درجہ حاصل کر لے تو تمام حاضرین کے لیے باعث صد برکت ہو سکتی ہے۔
اس بارے میں کچھ لوگوں نے فرضی شکوک وشبہات اور مفروضہ خطرات کی بنا پر عورتوں کا عیدگاہ میں جانا مکروہ قرار دیا ہے۔
مگر یہ جملہ مفروضہ باتیں ہیں جن کی شرعا کوئی اصل نہیں ہے۔
عیدگاہ کے منتظمین کا فرض ہے کہ وہ پردے کا انتظام کریں اور ہر فساد و خطرہ کے انسداد کے لیے پہلے ہی سے بندوبست کر رکھیں۔
حضرت علامہ شوکانی ؒ نے اس بارے میں مفصل مدلل بحث کے بعد فرمایا ہے:
وَمَا فِي مَعْنَاهُ مِنْ الْأَحَادِيثِ قَاضِيَةٌ بِمَشْرُوعِيَّةِ خُرُوجِ النِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ إلَى الْمُصَلَّى مِنْ غَيْرِ فَرْقٍ بَيْنَ الْبِكْرِ وَالثَّيِّبِ وَالشَّابَّةِ وَالْعَجُوزِ وَالْحَائِضِ وَغَيْرِهَا مَا لَمْ تَكُنْ مُعْتَدَّةً أَوْ كَانَ خُرُوجُهَا فِتْنَةً أَوْ كَانَ لَهَا عُذْرٌ. یعنی احادیث اس میں فیصلہ دے رہی ہیں کہ عورتوں کو عیدین میں مردوں کے ساتھ عیدگاہ میں شرکت کرنا مشروع ہے اور اس بارے میں شادی شدہ اور کنواری اور بوڑھی اور جوان اور حائضہ وغیرہ کا کوئی امتیاز نہیں ہے جب تک ان میں سے کوئی عدت میں نہ ہو یا ان کے نکلنے میں کوئی فتنہ کاڈر نہ ہو یا کوئی اور عذر نہ ہو تو بلا شک جملہ عورتوں کو عیدگاہ میں جانا مشروع ہے۔
پھر فرماتے ہیں:
والقول بکراھیة الخروج علی الإطلاق رد للأحادیث الصحیحة بالآراء الفاسدۃ۔
یعنی مطلقا عورتوں کے لیے عید گاہ میں جانے کو مکروہ قرار دینا یہ اپنی فاسد رایوں کی بنا پر احادیث صحیحہ کو رد کرنا ہے۔
آج کل جو علماءعیدین میں عورتوں کی شرکت ناجائز قرار دیتے ہیں، ان کو اتنا غور کرنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ یہی مسلمان عورتیں بے تحاشا بازاروں میں آتی جاتی، میلوں عرسوں میں شریک ہوتیں اور بہت سی غریب عورتیں جو محنت مزدوری کرتی ہیں۔
جب ان سارے حالات میں یہ مفاسد مفروضہ سے بالاتر ہیں تو عید گاہ کی شرکت میں جبکہ وہاں جانے کے لیے باپردہ و باادب ہونا ضروری ہے کون سے فرضی خطرات کا تصور کر کے ان کے لیے عدم جواز کا فتوی لگایا جا سکتا ہے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں، عورتوں کا عید گاہ میں عید کی نماز کے لیے جاناسنت ہے، شادی شدہ ہوں، یا غیر شادی شدہ جوان ہوں یاادھیڑیا بوڑھی، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ:
أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى، الْعَوَاتِقَ، وَالْحُيَّضَ، وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلَاةَ، وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ، وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ، قُلْتُ:
يَا رَسُولَ اللهِ إِحْدَانَا لَا يَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ، قَالَ:
«لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا» (صحیحین وغیرہ)
آنحضرت ﷺ عیدین میں دوشیزہ جوان کنواری حیض والی عورتوں کو عید گاہ جانے کا حکم دیتے تھے حیض والی عورتیں نماز سے الگ رہتیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہتیں۔
ایک عورت نے عرض کیا اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو آپ نے فرمایا کہ اس کی مسلمان بہن اپنی چادر میں لے جائے۔
جو لوگ کراہت کے قائل ہیں یا جوان یا بوڑھی کے درمیان فرق کر تے ہیں درحقیقت وہ صحیح حدیث کو اپنی فاسد اور باطل رایوں سے رد کر تے ہیں۔
حافظ نے فتح الباری میں اور ابن حزم نے اپنی محلیّ میں بالتفصیل مخالفین کے جوابات ذکر کئے ہیں عورتوں کو عید گاہ میں سخت پردہ کے ساتھ بغیر کسی قسم کی خوشبو لگائے اور بغیر بجنے والے زیوروں اور زینت کے لباس کے جانا چاہیے تاکہ فتنہ کا باعث نہ بنیں۔
قال شیخنا في شرح الترمذي لا دلیل علی منع الخروج إلی العید للشواب مع الأمن من المفاسد مما حدثن في ھذا الزمان بل ھو مشروع لھن وھو القول الراجح انتھی۔
یعنی امن کی حالت میں جوان عورتوں کو شرکت عیدین سے روکنا اس کے متعلق مانعین کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ وہ مشروع ہے اور قول راجح یہی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 974   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 980  
980. حضرت حفصہ بنت سیرین سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم اپنی جوان لڑکیوں کو عید کے دن باہر نکلنے سے منع کرتی تھیں، چنانچہ ایک عورت قصر بنی خلف میں آ کر مقیم ہوئی تو میں اس کے پاس پہنچی۔ اس نے بیان کیا کہ اس کا بہنوئی نبی ﷺ کے ہمراہ بارہ غزوات میں شریک ہوا تھا۔ اس کی بہن بھی چھ غزوات میں اس کے ہمراہ تھی۔ ہمشیرہ نے بیان کیا کہ ہمارا کام مریضوں کی خبر گیری اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا تھا۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر کسی عورت کے پاس بڑی چادر نہ ہو، ایسے حالات میں اگر وہ عید کے لیے باہر نہ جائے تو کوئی حرج ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: اس کی سہیلی اپنی چادر میں سے کچھ حصہ اسے پہنا دے، تاہم انہیں چاہئے کہ وہ امور خیر اور اہل ایمان کی دعاؤں میں ضرور شمولیت کریں۔ حضرت حفصہ بنت سیرین نے کہا: جب حضرت ام عطیہ‬ ؓ ت‬شریف لائیں تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان سے عرض۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:980]
حدیث حاشیہ:
حفصہ کے سوال کی وجہ یہ تھی کہ حائضہ پر نماز ہی فرض نہیں اور نہ وہ نماز پڑھ سکتی ہے تو عید گاہ میں اس کی شرکت سے کیا فائدہ ہوگا۔
اس پر حضرت ام عطیہ ؓ نے فرمایا کہ جب حیض والی عرفات اور دیگر مقامات مقدسہ میں جاسکتی ہیں اور جاتی ہیں تو عید گاہ میں کیوں نہ جائیں، اس جواب پر آج کل کے ان حضرات کو غور کرنا چاہیے جو عورتوں کو عید گاہ میں جانا ناجائز قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے سو حیلے بہانے تراشتے ہیں حالانکہ مسلمانوں کی عورتیں میلوں میں اور فسق وفجور میں دھڑلے سے شریک ہوتی ہیں۔
خلاصہ یہ کہ حیض والی عورتوں کوبھی عید گاہ جانا چاہیے۔
وہ نماز سے الگ رہیں مگر دعاؤں میں شریک ہوں۔
اس سے مسلمانوں کی اجتماعی دعاؤں کی اہمیت بھی ثابت ہوتی ہے۔
بلا شک دعا مومن کا ہتھیار ہے اور جب مسلمان مرد وعورت مل کر دعا کریں تو نہ معلوم کس کی دعا قبول ہو کر جملہ اہل اسلام کے لیے باعث برکت ہو سکتی ہے۔
بحالات موجودہ جبکہ مسلمان ہر طرف سے مصائب کا شکار ہیں بالضرور دعاؤں کا سہارا ضروری ہے۔
امام عید کا فرض ہے کہ خشوع وخضوع کے ساتھ اسلام کی سر بلندی کے لیے دعا کرے، خاص طور پر قرآنی دعائیں زیادہ مؤثر ہیں پھر احادیث میں بھی بڑی پاکیزہ دعائیں وارد ہوئی ہیں۔
ان کے بعد سامعین کی مادری زبانوں میں بھی دعا کی جا سکتی ہے۔
(وباللہ التوفیق)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 980   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1652  
1652. حضرت حفصہ بنت سیرین سے روایت ہے کہ ہم اپنی نوجوان کنواری لڑکیوں کو باہر(عید گاہ میں) جانے سے منع کر تی تھیں، چنانچہ ایک عورت آئی اور بنو خلف کے محل میں ٹھہری۔ اس نے بیان کیاکہ ان کى ہمشیرہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی ایک صحابی کی بیوی تھی۔ اس کے شوہر نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بارہ غزوات میں شرکت کی تھی۔ میری ہمشیرہ بھی چھ غزوات میں اس کے ہمراہ تھیں۔ اس نے بیان کیا کہ ہم میدان جہاد میں زخمیوں کی مرہم پٹی اور مریضوں کی عیادت کرتی تھیں۔ میری بہن نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اگر ہم چادر نہ ہونے کی وجہ سے باہر(عید گاہ) نہ جائیں تو اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس کی سہیلی اپنی چادر اسے دے دے اور وہ عورت خیر اور مسلمانوں کی دعاؤں میں ضرور شریک ہو۔ پھر جب ام عطیہ ؓ بصرہ آئیں تو ہم نے ان سے یہی مسئلہ دریافت کیا۔ حضرت ام عطیہ ؓ کی عادت تھی کہ وہ جب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1652]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ حیض والی طواف نہ کرے جو ترجمہ باب کا ایک مطلب تھا کیونکہ حیض والی عورت کو جب نماز کے مقام سے الگ رہنے کا حکم ہوا تو کعبہ کے پاس جانا بھی اس کو جائز نہ ہوگا۔
بعضوں نے کہا باب کا دوسرا مطلب بھی اس سے نکلتا ہے۔
یعنی صفا مروہ کی سعی حائضہ کرسکتی ہے کیونکہ حائضہ عرفات کا وقوف کرسکتی ہے اور صفا مروہ عرفات کی طرح ہے (وحیدی)
ترجمہ میں کھلی ہوئی تحریف:
کسی بھی مسلمان کا کسی بھی مسئلہ کے متعلق مسلک کچھ بھی ہو مگر جہاں قرآن مجید و احادیث نبوی کا کھلا ہوا متن آجائے، دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا ترجمہ بلا کم وکیف بالکل صحیح کیا جائے۔
خواہ اس سے ہمارے مزعومہ مسلک پر کیسی ہی چوٹ کیوں نہ لگتی ہو۔
اس لئے کہ اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کا کلام بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اس میں ایک ذرہ برابر بھی ترجمہ وتشریح کے نام پر کمی بیشی کرنا وہ بد ترین جرم ہے جس کی وجہ سے یہودی تباہ وبرباد ہوگئے۔
اللہ پاک نے صاف لفظوں میں اس کی اس حرکت کا نوٹس لیاہے۔
جیسا کہ ارشادِہے ﴿يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ﴾ (المائدة: 13)
یعنی اپنے مقام سے آیات الٰہی کی تحریف کرنا علماء یہود کا بدن ترین شیوہ تھا۔
مگر صد افسوس کہ یہی شیوہ کچھ علماء اسلام کی تحریرات میں نظر آتا ہے۔
جس سے اس کلام نبوی کی تصدیق ہوتی ہے جو آپ نے فرمایا کہ تم پہلے یہود ونصاریٰ کے قدم برقدم چلنے کی راہ اختیار کر کے گمراہ ہوجاؤ گے۔
اصل مسئلہ! عورتوں کا عیدگاہ میں جانا حتی کہ کنواری لڑکیوں اور حیض والی عورتوں کا نکلنا اور عید کی دعاؤں میں شریک ہونا ایسا مسئلہ ہے جو متعدد احادیث نبوی سے ثابت ہے اور یہ مسلمہ امر ہے کہ عہدرسالت میں سختی کے ساتھ اس پر عمل درآمد تھا اور جملہ خواتین اسلام عید گاہ جایا کرتی تھیں۔
بعد میں مختلف فقہی خیالات وجود پذیر ہوئے اور محترم علماء احناف نے عورتوں کا میدان عید گاہ جانا مطلقاً نا جائز قرار دیا۔
بہرحال اپنے خیالات کے وہ خود ذمہ دار ہیں مگر جن احادیث میں عہد نبوی میں عورتوں کا عید گاہ جانا مذکور ہے ان کے ترجمہ میں رد و بدل کرنا انتہائی غیر ذمہ داری ہے۔
اور صد افسوس کہ ہم موجودہ تراجم بخاری شریف میں جو علماء دیوبند کے قلم سے نکل رہے ہیں ایسی غیر ذمہ داریوں کی بکثرت مثالیں دیکھتے ہیں۔
تفہیم البخاری ہمارے سامنے ہے۔
جس کا ترجمہ وتشریحات بہت محتاط اندازے پر لکھا گیا ہے۔
مگر مسلکی تعصب نے بعض جگہ ہمارے محترم فاضل مترجم تفہیم البخاری کو بھی جادہ اعتدال سے دورکردیا ہے۔
یہاں حدیث حفصہ کے سیاق وسباق سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایسی عورت کے عیدگاہ جانے نہ جانے کے بارے میں پوچھا جارہا ہے کہ جس کے پاس اوڑھنے کے لئے چادرنہیں ہے۔
آپ ﷺ نے جواب دیا کہ اس کی سہیلی کو چاہئے کہ اپنی چادر اس کو عاریتاً اوڑھا دے تاکہ وہ اس خیر اور دعائے مسلمین کے موقع پر (عیدگاہ میں)
مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوسکے۔
اس کا ترجمہ مترجم موصوف نے یوں کیا ہے اگر ہمارے پاس چادر (برقعہ)
نہ ہو تو کیا کوئی حرج ہے اگر ہم مسلمانوں کے دینی اجتماعات میں شریک ہونے کے لئے باہر نہ نکلیں؟ ایک بادی النظر سے بخاری شریف کا مطالعہ کرنے والا اس ترجمہ کو پڑھ کر یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہاں عیدگاہ جانے نہ جانے کے متعلق پوچھا جارہا ہے۔
دینی اجتماعات سے وعظ ونصیحت کی مجالس مراد ہوسکتی ہیں۔
اور ان سب میں عورتوں کا شریک ہونا بلا اختلاف جائز ہے اور عہد نبوی میں بھی عورتیں ایسے اجتماعات میں برابر شرکت کرتی تھیں۔
پھر بھلا اس سوال کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟ بہرحال یہ ترجمہ بالکل غلط ہے۔
اللہ توفیق دے کہ علماء کرام اپنے مزعومہ مسالک سے بلند ہو کر احتیاط سے قرآن وحدیث کا ترجمہ کیا کریں۔
وباللہ التوفیق۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1652   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 351  
351. حضرت ام عطیہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم عیدین کے موقع پر حائضہ اور پردہ نشین عورتوں کو باہر لائیں تاکہ وہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کی دعاؤں میں شریک ہوں، البتہ جو عورتیں ایام والی ہوں وہ نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔ ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کسی کو چادر میسر نہیں ہوتی؟ آپ نے فرمایا؛ اس کے ساتھ جانے والی اس کو اپنی چادر میں لے لے۔ عبداللہ بن رجاء نے کہا: ہمیں عمران نے یہ حدیث سنائی، انھوں نے کہا: ہم سے محمد بن سیرین نے یہ حدیث بیان کی اور محمد بن سیرین نے کہا: ہم سے ام عطیہ‬ ؓ ن‬ے یہ حدیث ذکر کی، انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ سے یہ حدیث سنی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:351]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب حدیث کے الفاظ:
لتلبسها صاحبتها من جلبابها (جس عورت کے پاس کپڑا نہ ہو اس کی ساتھ والی عورت کو چاہیے کہ اپنی چادر ہی کا کوئی حصہ اسے بھی اڈھا دے)
سے نکلتا ہے۔
مقصد یہ کہ مساجد میں جاتے وقت، عیدگاہ میں حاضری کے وقت، نماز پڑھتے وقت اتنا کپڑا ضرور ہونا چاہیے جس سے مرد وعورت اپنی اپنی حیثیت میں ستر پوشی کرسکیں۔
اس حدیث سے بھی عورتوں کا عیدگاہ جانا ثابت ہوا۔
امام بخاری ؓ نے سند میں عبداللہ بن رجاء کو لاکر اس شخص کا رد کیا جس نے کہا کہ محمد بن سیرین ؒ نے یہ حدیث ام عطیہ ؓ سے نہیں سنی، بلکہ اپنی بہن حفصہ سے، انھوں نے ام عطیہ سے۔
اسے طبرانی نے معجم کبیر میں وصل کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 351   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 971  
971. حضرت ام عطیہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہمیں حکم دیا جاتا تھا کہ عید کے دن گھر سے نکلیں، حتی کہ کنواری لڑکیوں کو ان کے پردوں کے ساتھ نکالیں اور حائضہ عورتوں کو بھی گھروں سے برآمد کریں، چنانچہ وہ مردوں کے پیچھے رہتیں، ان کی تکبیر کے ساتھ تکبیر کہتیں، نیز مردوں کی دعا کے ساتھ دعائیں مانگتیں اور اس دن کی برکت اور طہارت کی امید رکھتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:971]
حدیث حاشیہ:
باب کی مطابقت اس سے ہوئی کہ عید کے دن عورتیں بھی تکبیریں کہتی تھیں اور مسلمانوں کے ساتھ دعاؤں میں بھی شریک ہوتی تھیں۔
درحقیقت عیدین کی روح ہی بلند آواز سے تکبیر کہنے میں مضمر ہے تاکہ دنیا والوں کو اللہ پاک کی بڑائی اور بزرگی سنائی جائے اور اس کی عظمت کا سکہ دل میں بٹھایا جائے۔
آج بھی ہر مسلمان کے لیے نعرہ تکبیر کی روح کو حاصل کرنا ضروری ہے۔
مردہ قلوب میں زندگی پیدا ہوگی۔
تکبیر کے لفظ یہ ہیں:
اللہ أکبر کبیرا والحمدللہ کثیرا و سبحان اللہ بکرة وأصیلا یا یوں کہیے اللہ أکبر اللہ أکبر لا إله إلا اللہ واللہ أکبر اللہ أکبر وللہ الحمد۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 971   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 390  
´عیدین اور مسلمانوں کی دعا میں حائضہ عورتوں کی حاضری کا بیان۔`
حفصہ (حفصہ بنت سیرین) کہتی ہیں کہ ام عطیہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو کہتیں: میرے والد آپ پر قربان ہوں، تو میں نے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ایسا فرماتے سنا ہے، انہوں نے کہا: ہاں، میرے والد آپ پر قربان ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: بالغ لڑکیاں، پردے والیاں، اور حائضہ عورتیں نکلیں، اور خطبہ اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں، البتہ حائضہ عورتیں نماز پڑھنے کی جگہ سے الگ رہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 390]
390۔ اردو حاشیہ:
«بیبا» یا «بأبا» دراصل «بأبي» ہے جس کا ترجمہ متن میں لکھ دیا گیا ہے۔ یہ ان محترمہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار عقیدت و محبت ہے۔ عقیدے کے لحاظ سے بھی یہ بات ہمارے ایمان کا جزو ہے کہ ہماری ہر چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہو جائے، چاہے جان ہو یا مال، والدین ہوں یا اولاد۔
ایسے ایسے فرماتے سنا ہے؟ یعنی عورتوں کے عید میں حاضرہونے کے بارے میں۔
➌ عید اہل اسلام کی خوشی، شان و شوکت، شکرانے اور عبادت کا عظیم دن ہے، اس لیے ہر مرد اور عورت کا جانا ضروری ہے۔ عورتیں پردے کے ساتھ جائیں تاکہ شان و شوکت کے ساتھ نیکی کے جذبات کا اظہار بھی ہو۔ حیض والی عورتوں کے لیے عبادت (نمازکی ادائیگی)تو منع ہے مگر ان کے جانے سے باقی مقاصد پورے ہوں گے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 390   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1559  
´عیدین میں جوان لڑکیوں اور پردہ والی عورتوں کے عیدگاہ جانے کا بیان۔`
حفصہ بنت سرین کہتی ہیں کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو کہتی تھیں: میرے باپ آپ پر فدا ہوں تو میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ایسا ذکر کرتے سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، میرے باپ آپ پر فدا ہوں، آپ نے فرمایا: چاہیئے کہ دوشیزائیں، پردہ والیاں، اور جو حیض سے ہوں (عید گاہ کو) نکلیں اور سب عید میں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہیں، البتہ جو حائضہ ہوں وہ صلاۃ گاہ سے الگ رہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1559]
1559۔ اردو حاشیہ:
➊ تمام صحابہ و صحابیات رضی اللہ عنھن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت رکھتے تھے اور اپنی ہر چیز آپ پر فدا کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ مگر مذکورہ صحابیہ کا یہ خصوصی اظہارِ عقیدت تھا کہ آپ کے غائبانہ ذکر پر بھی «بابا» جیسا پیار لفظ بولتی تھیں۔ ویسے صحابہ عموماً نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کے وقت «بابی انت ومی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم» اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فد اہو جائیں کے الفاظ سے اظہار محبت فرمایا کرتے تھے۔ رضی اللہ عنھم وارضاھم۔
➋ عید خوشی اور شان و شوکت، نیز تشکرودعا کا خاص موقع ہے، اس لیے اس میں مردوں اور عورتوں سب کو حاضری کا حکم دیا حتیٰ کہ نماز نہ پڑھنے والی عورتوں کو بھی حاضری کی تاکید کی گئی تاکہ عید کے دیگر مقاصد پورے ہوسکیں۔ معلوم ہوا عید مسلمانوں کا شعار (خصوصی نشان) ہے۔ عوام الناس کے نزدیک بھی عید میں بلاوجہ شریک نہ ہونے والا اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔
الگ بیٹھی رہیں اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ یہاں نماز والی جگہ کو مسجد کا حکم دیا گیا، لہٰذا حیض سے تکلیف نہ ہو، البتہ اس قسم کی عورتیں وعظ اور دعا میں شریک ہوں گی۔
➍ عید کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد دعا بھی ہے، لہٰذا عید کے خطبے میں دعا کا خصوصی اہتمام کیا جائے جس میں نہ صرف اپنے لیے بلکہ جمیع مسلمانوں کے لیے دعائیں کی جائیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1559   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1560  
´حائضہ عورتیں مصلیٰ (عیدگاہ) سے الگ رہیں۔`
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات کی اور میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (ایسا ایسا کہتے ہوئے) سنا ہے؟ اور وہ جب بھی آپ کا ذکر کرتیں تو کہتیں: میرے باپ آپ پر فدا ہوں، (انہوں نے کہا: ہاں) آپ نے فرمایا: بالغ لڑکیوں کو اور پردہ والیوں کو بھی (عید کی نماز کے لیے) نکالو تاکہ وہ عید میں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہیں، اور حائضہ عورتیں مصلیٰ (عید گاہ) سے الگ تھلگ رہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1560]
1560۔ اردو حاشیہ: نوجوان عورتوں کو عید کے لیے جانے کے حکم سے صاف سمجھ آتا ہے کہ دوسری عورتوں تو بدرجۂ اولیٰ جائیں گی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1560   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1136  
´عید میں عورتوں کے جانے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم پردہ نشین عورتوں کو عید کے دن (عید گاہ) لے جائیں، آپ سے پوچھا گیا: حائضہ عورتوں کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر میں اور مسلمانوں کی دعا میں چاہیئے کہ وہ بھی حاضر رہیں، ایک خاتون نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر ان میں سے کسی کے پاس کپڑا نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: اس کی سہیلی اپنے کپڑے کا کچھ حصہ اسے اڑھا لے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1136]
1136۔ اردو حاشیہ:
➊ عید کے دنوں میں عورتوں کا عیدگاہ میں جانا مستحب ہے، مگر پردے میں خوشبو اور آواز دار زیور کے بغیر۔
➋ دعوۃ المسلمین میں اجتماعی دعا کا ثبوت ہے، مگر مروجہ طریقے سے نہیں۔
➌ دعا کے لئے طہارت ضروری نہیں اس کے بغیر بھی دعا کرنا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1136   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1307  
´عیدین میں عورتوں کے عیدگاہ جانے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عورتوں کو عیدین میں لے جائیں، ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ بتائیے اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو (کیا کرے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی ساتھ والی اسے اپنی چادر اڑھا دے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1307]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
  جس طرح فرض نمازوں میں اور جمعے میں عورتوں کا مسجد میں آنا جائز ہے۔
اسی طرح عیدین میں بھی ان کی حاضری ضروری ہے۔

(2)
اس میں ایک حکمت تو یہ ہے کہ خطبے میں دین کے مسائل بیان کیے جاتے ہیں۔
اوردین سیکھنا عورتوں پر بھی فرض ہے۔
دوسرے عید مسلمانوں کی اجتماعی شان وشوکت کے اظہا کا دن ہے۔
عورتوں اور بچوں کی شرکت سے یہ مقصد زیادہ بہتر طریقے پر پورا ہوتا ہے۔
تیسرے یہ کہ عید اجتماعی خوشی کا موقع ہے۔
جس میں مرد اورعورتیں سبھی اہل ایمان شامل ہیں۔
لہٰذا عورتوں کو اس خوشی میں شرکت سے محروم رکھنے کا کوئی جواز نہیں
(2)
اگر کسی خاتون کو کوئی ایسا عذر لاحق ہو۔
جس کی وجہ سے وہ عید کے اجتماع میں شریک نہ ہوسکتی ہوتو اس کا یہ عذر اگردور ہوسکتا ہوتو ضرور کیا جائے۔
اسے نماز عید پڑھنے اور خطبہ سننے سے محروم نہ رکھا جائے۔

(4)
اگر کسی کے پاس چادر نہ ہوتو دوسری خاتون اسے اپنی چادر میں شریک کرے۔
دو عورتوں کا ایک چادر اوڑھ کرچلنا ایک مشکل کام ہے۔
لیکن اس کا حکم دیا گیا ہے اس سے عورتوں کے عید میں شریک ہونے کی انتہائی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔

(5)
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوسری خاتون کے پاس دو چادریں ہوں۔
تو وہ ایک چادر اس عورت کودے دے۔
جس کے پاس چادر نہیں صحیح ابن خزیمہ کی روایت کے الفاظ سے یہ مفہوم ظاہر ہوتا ہے۔ (صحیح ابن خزیمة: 362/2، حدیث: 1467)

(6)
پردہ اس قدر اہم ہے کہ چادر نہ ہونے کو بے پردہ باہر جانے کےلئے عذر تسلیم نہیں کیا گیا۔
حتیٰ کہ اگر دوسری عورتو ں سے عاریتاً بھی چادر نہ ملے تو وہ عورتیں ایک چادر اوڑھ کر چلیں بغیر چادر کے نہ جایئں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1307   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1308  
´عیدین میں عورتوں کے عیدگاہ جانے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری اور پردہ نشیں عورتوں کو عید گاہ لے جاؤ تاکہ وہ عید میں اور مسلمانوں کی دعا میں حاضر ہوں، البتہ حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے الگ بیٹھیں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1308]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جب بچیاں جوان ہوجایئں تو انہیں گھروں میں رہنا چاہیے۔

(2)
عید کی نماز میں ان پردہ نشین بچیوں کو بھی شامل ہونا چاہیے۔
تاہم پردے کا اہتما م کرکے باہر نکلیں۔

(3)
حیض والی عورتیں بھی عید گاہ میں جایئں-
(4)
اس میں یہ اشارہ ہے کہ مسجد عید پڑھنے کی جگہ نہیں کیونکہ حیض والی عورتیں وہاں نہیں جا سکتیں۔
جب کہ ان کا عید کے اجتماع میں حاضر ہونا ضروری ہے۔

(5) (دعوت المسلمین)
کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ جب مسلمان دعا کریں تو جن عورتوں نے ماہانہ عذر کی وجہ سے نماز نہیں پڑھی۔
وہ دعا میں شریک ہوجائیں۔
اسی طرح انھیں بھی خیر وبرکت میں حصہ مل جائے گا۔
دوسرا مفہوم وعظ وتبلیغ ہے۔
یعنی نماز نہ پڑھنے کے باوجود وہ خطبہ تو سن سکتی ہیں۔
اور جو مسائل بیان کیے جایئں۔
ان سے مستفید ہوسکتیں ہیں۔

(6)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عید کی نماز پڑھتے ہی خطبہ سنے بغیر نہیں چلے جانا چاہیے۔
اگرچہ حدیث: 1290 کی روشنی میں چلے جانے کا جواز ہے۔
تاہم عید کی پوری برکات اورفوائد حاصل کرنے کے لئے خطبہ سننا ضروی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1308   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 539  
´عیدین میں عورتوں کے عیدگاہ جانے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں کنواری لڑکیوں، دوشیزاؤں، پردہ نشیں اور حائضہ عورتوں کو بھی لے جاتے تھے۔ البتہ حائضہ عورتیں عید گاہ سے دور رہتیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہتیں۔ ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: اس کی بہن کو چاہیئے کہ اسے اپنی چادروں میں سے کوئی چادر عاریۃً دیدے ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب العيدين/حدیث: 539]
اردو حاشہ:
1؎:
اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کو نماز عید کے لیے عید گاہ لے جانا مسنون ہے،
جو لوگ اس کی کراہت کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں:
یہ ابتدائے اسلام کا واقعہ ہے تاکہ اہل اسلام کی تعداد زیادہ معلوم ہو اور لوگوں پر ان کی دھاک بیٹھ جائے،
لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اس طرح کی روایت آتی ہے اور وہ کمسن صحابہ میں سے ہیں،
ظاہر ہے ان کی یہ گواہی فتح مکہ کے بعد کی ہو گی جس وقت اظہار قوت کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 539   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:366  
366- حفصہ بنت سیرین بیان کرتی ہیں: ہم نے سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا: کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ بات سنی ہے، انہوں نے جواب دیا: جی ہاں۔ میرے والد کی قسم۔ راوی خاتون کہتی ہیں: سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا یہ معمول تھا کہ جب بھی وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی بات بیان کرتی تھیں، تو ساتھ یہ کہتی تھیں، میرے والد کی قسم۔ انہوں نے بتایا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: عید کے دن جوان پردہ دار خواتین کو بھی (گھروں سے) لے آؤ وہ عید اور مسلمانوں کی دعا میں شامل ہوں البتہ حیض والی خواتین مسلمانوں کی نماز کی جگہ سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:366]
فائدہ:
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ بعض شروط کے ساتھ عورت غیر محرم مرد کا علاج کر سکتی ہے، وہ شروط درج ذیل ہیں:
①۔۔۔ باپردہ حالت میں رہ کر ہو۔ ②۔۔۔۔۔ اپنے محرم کی موجودگی میں ہو۔ ③۔۔۔ تنہائی اختیار ند کرے ④۔۔۔ مرد ڈاکٹروں کی عدم موجودگی ہو۔
نیز یاد رہے کہ غزوات میں بھی خواتین اپنے شوہروں کے ساتھ جا سکتی ہیں، تاکہ وہ بطور ضرورت کام کر سکیں، مثلاً کھانا پکانا وغیرہ اور حسب ضرورت مریضوں کی مرہم پٹی کرنا وغیرہ۔ موجودہ دور میں ہسپتالوں میں ہر طرف خواتین کو ہی رکھا گیا ہے، اور وہ بھی بے پردہ حالت میں، حالانکہ کثیر تعداد میں لڑ کے بھی موجود ہیں، ان کی موجودگی میں خواتین کو ہسپتالوں وغیرہ میں کثرت سے رکھنا گناہ ہے، اور حسب ضرورت چند ایک خواتین کو صرف خواتین کی خاطر رکھنا درست ہے، اور وہ بھی مذکورہ شرائط کے مطابق۔
نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خواتین کا نماز عید کے لیے عید گاہ میں جانا فرض ہے، ہاں، حیض یا نفاس والی عورتوں کا جانا بھی ضروری ہے لیکن وہ عید گاہ سے الگ بیٹھی رہیں۔
دعوۃ المسلمین کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ جب مسلمان دعا کر میں تو جن عورتوں نے ماہانہ عذر کی وجہ سے نماز نہیں پڑھی، وہ دعا میں شریک ہوجائیں۔ اس طرح انھیں بھی خیر و برکت میں حصہ مل جائے گا۔ دوسرا مفہوم وعظ و تبلیغ ہے، یعنی نماز نہ پڑھنے کے باوجود وہ خطبہ تو سن سکتی ہیں اور مسائل بیان کیے جائیں ان سے مستفید ہوسکتی ہیں۔ بلکہ دوران خطبہ دعائیں مراد ہیں، اور ہر کوئی دعا کرتا ہے، اپنے دل میں، اپنی زبان کے ساتھ علیحدہ علیحدہ مراد ہے، اجتماعی دعا کا ثبوت نہیں ہے تفصیل کے لیے دیکھیں (احناف کی چند کتب پر ایک نظر کا پہلا مقالہ از محدث العصر شیخ عبدالروف بن عبدالمنان الاشر فی رحمہ اللہ)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 366   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2054  
حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عیدین میں بالغہ، پردہ نشین عورتوں کو لے جایا کریں اور آپﷺ نے حیض والی عورتوں کو حکم دیا کہ وہ مسلمانوں کی نمازگاہ سے الگ رہیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2054]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
عواتق:
عاتق کی جمع ہے اور ان عورتوں کو کہتے ہیں جو بالغہ ہیں یا قریب البلوغت ہیں یا شادی کے قابل ہیں،
یا گھر والوں کے نزدیک معزز ہیں،
یا انہیں کام کاج کے لیے گھر سے نکلنے کی مشقت سے آواز مل چکی ہے۔
(2)
ذوات الخدور،
خدور،
خدر کی جمع ہے۔
گھر میں پردہ نشین۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام عورتوں کو عیدین کے لیے نکلنا چاہیے حتیٰ کہ حائضہ عورتیں جو نماز نہیں پڑھ سکتیں وہ بھی حاضر ہوں گی اور لوگوں کے ساتھ عیدین میں شرکت کے باوجود نمازگاہ سے الگ رہیں گی۔
تاکہ نماز میں صفیں نہ ٹوٹیں یا دوسری عورتوں کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنیں۔
لیکن انہیں بناؤ سنگھار اور میک اپ کر کے نہیں جانا چاہیے۔
لیکن عجیب بات احناف حضرات کہتے ہیں کہ آج کل حالات کے تغیر اور عورتوں کے بن ٹھن کر نکلنے کی بنا پر ان کا جمعہ نماز اور عیدین میں جانا جائز نہیں ہے جبکہ ان مواقع میں خطرات کم ہیں اور عام حالات میں پبلک کے مقامات میں جانا زیادہ خطرناک ہے اس سے نہیں روکتے۔
وہ ہر جگہ بلاروک ٹوک بن ٹھن کر دعوت نظارہ دیتی ہوئی آتی جاتی ہیں۔
لیکن ان نیکی اور خیرات کے کاموں سے محروم رہتی ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2054   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2055  
حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ہمیں عیدین کے لیے نکلنے کا حکم دیا جاتا تھا۔ پردہ نشین اور دوشیزہ کو بھی، وہ بتاتی ہیں کہ حیض والی عورتیں بھی نکلیں گی اور لوگوں کے پیچھے رہیں گی اور لوگوں کے ساتھ تکبیر کہیں گی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2055]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
عید گاہ کی طرف جاتےآتے وقت تکبیریں کہی جائیں گی اور یہ تکبیریں عورتیں بھی کہیں گی لیکن ان کی آوازبلند نہیں ہو گی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2055   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2056  
حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عید الفطر اورعید الاضحیٰ میں جوان، حائضہ اور پردہ نشین عورتوں کو لے کر جائیں لیکن حائضہ جائے نماز سےدور رہیں گی۔ نیک کاموںراور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں۔ میں نے عرض کی:ا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم میں سے بعض کے پاس چادر نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی بہن اس کو اپنی چادر کا پہنا دے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2056]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
جلباب:
کھلی چادر،
یعنی وہ دوسری عورت سے عاریتاً چادر لے لے،
یا یہ ممکن نہ ہو تو دونوں ایک چادر اوڑھ لیں۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کو وعظ ونصیحت اور علمی مجالس میں شرکت کرنی چاہیے اور ذکروفکر اور دعاؤں میں شریک ہونا چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2056   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:324  
324. حضرت حفصہ بنت سیرین سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم جوان لڑکیوں کو عیدین کے لیے باہر نکلنے سے منع کیا کرتی تھیں۔ ایک عورت آئی اور بنی خلف کے محل میں اتری۔ اس نے اپنی بہن کے واسطے سے یہ حدیث سنائی اور اس کے بہنوئی نے نبی ﷺ کے ہمراہ بارہ غزوات میں شرکت کی تھی اور خود ان کی بہن بھی اپنے شوہر کے ہمراہ چھ غزوات میں شرکت کر چکی تھی۔ اس (بہن) نے بتایا کہ ہم زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں اور مریضوں کی تیمارداری بھی کرتی تھیں۔ میری بہن نے ایک مرتبہ نبی ﷺ سے دریافت کیا: اگر ہم میں سے کسی کے پاس بڑی چادر نہ ہو تو اس کے (نماز عید کے لیے) باہر نہ جانے میں کوئی حرج ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس کی ساتھی کو چاہئے کہ وہ اسے اپنی چادر کا کچھ حصہ پہنا دے تاکہ وہ مجالس خیر اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہو۔ پھر جب ام عطیہ ؓ آئیں تو میں نے ان سے دریافت کیا: کیا آپ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:324]
حدیث حاشیہ:

مقصد یہ ہے کہ حائضہ عورتیں عیدین میں شرکت کرسکتی ہیں، نیز ان کا مجالس خیروبرکت اور اجتماعات دعوت وارشاد میں جانا بھی درست ہے، لیکن ایک بات کا خیال رکھیں کہ حیض والی عورتیں عیدگاہ سے الگ رہیں۔
اس کی دووجہیں ہیں:
۔
ہنگامی طور پر عید گاہ کومسجد کا حکم دیا ہے، اس لیے حائضہ عورت کو عید گاہ میں جانے کی ممانعت ہے۔
۔
جب اس نے نماز نہیں پڑھنی تو نمازی عورتوں کے ساتھ گھلنے ملنے اور ان کے پاس بیٹھنے کی چنداں ضرورت نہیں۔
شارح بخاری ابن بطال ؒ لکھتے ہیں:
اس حدیث سے حیض والی اور پاک عورتوں کے لیے عیدین اور دینی اجتماعات میں شرکت کا جواز معلوم ہوا، البتہ حیض والی عورتیں عید گاہ سے الگ رہیں۔
دعا میں شریک ہوں گی، خود دعاکریں یاآمین کہیں، بہرحال انھیں اس مقدس اجتماع کی خیروبرکات ضرورحاصل ہوں گی۔
(شرح ابن بطال: 450/1)
عیدین میں عورتوں کے شریک ہونے کے متعلق تفصیلی بحث کتاب العیدین میں آئے گی۔

یہ روایت بظاہر ایک مجہول عورت کے واسطے سے منقول ہے، اس اعتبار سے صحیح بخاری میں اس روایت کا آنا صحیح نہیں، لیکن جب حضرت حفصہ بنت سیرین ؒ نے حضرت ام عطیہ ؓ کی آمد پرتمام باتیں براہ راست معلوم کرلیں تو درمیان سے گمنام عورت کا واسطہ ختم ہوگیا، اب اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
بیان کیا جاتا ہے کہ مجہولہ عورت حضرت ام عطیہ ؓ کی ہمشیرہ تھی۔
واللہ أعلم۔
اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل کا استنباط ہوتا ہے:
۔
حائضہ بحالت حیض اللہ کا ذکر کرسکتی ہے اور مجالس خیر میں بھی شرکت کرسکتی ہے۔
۔
کسی کارخیر کے لیے باہر جانے کی ضرورت ہوتو دوسروں سے حسب ضرورت کپڑے لینے میں کوئی حرج نہیں۔
۔
مسلمان عورتوں کو بڑی چادر کے بغیر گھر سے باہرنکلنا جنائز نہیں، موجودہ دور میں بڑی چادر کا قائم مقام برقع ہے بشرطیکہ اس سے ستر کا فائدہ ہو اور اظہار زینت کے لیے نہ ہو۔
دوعورتیں ایک چادر میں بھی نکل سکتی ہیں۔
۔
عورتیں بوقت ضرورت زخمیوں کی مرہم پٹی کرسکتی ہیں، اگرچہ وہ غیرمحرم ہوں، نیز عورتیں بیمار پرسی بھی کرسکتی ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 324   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:351  
351. حضرت ام عطیہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم عیدین کے موقع پر حائضہ اور پردہ نشین عورتوں کو باہر لائیں تاکہ وہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کی دعاؤں میں شریک ہوں، البتہ جو عورتیں ایام والی ہوں وہ نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔ ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کسی کو چادر میسر نہیں ہوتی؟ آپ نے فرمایا؛ اس کے ساتھ جانے والی اس کو اپنی چادر میں لے لے۔ عبداللہ بن رجاء نے کہا: ہمیں عمران نے یہ حدیث سنائی، انھوں نے کہا: ہم سے محمد بن سیرین نے یہ حدیث بیان کی اور محمد بن سیرین نے کہا: ہم سے ام عطیہ‬ ؓ ن‬ے یہ حدیث ذکر کی، انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ سے یہ حدیث سنی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:351]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کو عید گاہ میں جانے کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے تاکید فرمائی ہے حتی کہ جو عورتیں اپنی طبعی مجبوری کی وجہ سے نماز پڑھنے سے معذور ہیں وہ بھی عید گاہ میں حاضر ہوں، لیکن پردے کااہتمام ضروری ہے۔
اگرکسی کے پاس چادر نہیں تو وہ اپنی کسی بہن سے مستعار لے لے یابڑی چادر میں کسی دوسری عورت کے ساتھ چلی جائے۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ عید گاہ میں جاناضروری بھی ہے لیکن بے پردہ جانے کی بھی اجازت نہیں۔
جب راستے میں جاتے ہوئے اس قدر اہتمام ہے تو نماز کپڑے کے بغیر کس طرح درست ہوگی، یعنی جب نماز میں حاضری کے لیے کپڑا ضروری ہے تونماز میں بدرجہ اولیٰ اس کی ضرورت ہوگی۔
وھوالمقصود۔
امام بخاری ؒ کااستدلال اس طور پر ہوسکتاہے کہ جب حائضہ کے لیے کپڑے اور چادر کا اس قدر التزام ہے، حالانکہ اس نے نماز نہیں پڑھنی ہے توطاہرہ جس نے نماز پڑھنی ہے اس کے لیے کپڑے کا اہتمام بدرجہ اولیٰ ضروری ہوگا۔
استدلال اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ شریعت کی نظر میں سوال کرنا اچھی عادت نہیں، لیکن نماز پڑھنے کے لیے کپڑوں کے سوال کو جائز قراردیا ہے۔
اس سے بھی معلوم ہوا کہ نماز کے لیے کپڑے کا ہونا ضروری ہے۔
واللہ أعلم۔

امام بخاری ؒ نے روایت کے آخرمیں ایک تعلیق بیان کی ہے۔
اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں محدث ابن سیرین ؒ نے صراحت کی ہے کہ انھوں نے حضرت ام عطیہ ؓ سے اس حدیث کو سناہے۔
امام بخای ؓ نے اس تعلیق سے ان حضرات کی تردید کی ہے جن کے خیال کے مطابق محدث ابن سیرین ؒ نے حضرت ام عطیہ سے سماع نہیں کیا، بلکہ اس کی بہن حضرت حفصہ ؓ سے حدیث سنی ہے۔
امام بخاری کی پیش کردہ پہلی سند میں محمد بن سیرین ؒ نے اس روایت کو"عن" کے صیغے سے بیان کیاتھا۔
شبہ تھا کہ شاید براہ راست انھوں نے حضرت ام عطیہ ؓ سے اس حدیث کو نہیں سنا۔
اس تعلیق سے اس شبے کو دورفرمادیا۔
(فتح الباري: 605/1)

حفصہ بنت سیرین ؒ کہتی ہیں کہ ہم اپنی کنواری جوان بچیوں کو عید گاہ جانے سے منع کرتی تھیں۔
مجھے کسی نے حضرت ام عطیہ ؓ کے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ عورتوں کو عیدین کے موقع پر عید گاہ جانے کی تاکید کرتے تھے۔
جب ہماری ملاقات ام عطیہؓ سے ہوئی تو میں نے براہ راست ان سے سوال کیا تو انھوں نے یہ حدیث بیان کی۔
میں نے سوال کیا:
آیا حائضہ عورت بھی عید گاہ جائے؟ انھوں نے فرمایا:
وہ حج کے موقع پر عرفات اوردیگر مقامات مقدسہ میں جاتی ہیں تو عید گاہ جانے میں کیوں ممانعت ہو؟ (صحیح البخاری، الحیض، حدیث: 324)

امام بخاریؒ آئندہ 15 ابواب میں سترعورۃ کا مسئلہ بیان فرمائیں گے جن میں مختلف احوال وظروف کے اعتبار سے نماز میں کپڑوں کے استعمال کے متعلق وضاحت کی جائے گی۔
کپڑے کم ہوں یا تنگ ہوں تو کیا کیاجائے؟ مرد اورعورت کے لیے الگ الگ احکام کیاہیں؟ اس باب میں جن احادیث کی طرف امام بخاری ؒ نے اشارہ کیا ہے، وہ ان کی شرائط صحت کے مطابق نہ تھیں، اس لیے انھیں موصولاً نہیں لائے، صرف حدیث ام عطیہ ؓ کو بطور استیناس اس مقام پر بیان فرمایا ہے۔
اس حدیث میں ایام والی عورتوں کو کہا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کی جماعت میں شریک ہوں۔
اس سے مراد جماعت نماز میں شرکت کرنا نہیں، بلکہ صرف عید گاہ میں حاضر ہوناہے۔
اگرچہ شہود کا استعمال شرکت جماعت اور اقتدار کے لیے بھی حدیث میں استعمال ہواہے، تاہم اس مقام پر یہ معنی نہیں ہیں، کیونکہ ایام والی عورتیں نماز پڑھنے سے معذور ہیں۔

ایک عورت کا دوسری سے چادرمستعار لینا یا ایک بڑی چادر میں دوعورتوں کا اکٹھے جانابعض حضرات کے نزدیک یہ اہتمام صرف راستے میں جاتے وقت راہ گیروں سے پردے کی وجہ سے ہے، اس کاسترعورۃ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
لیکن تعجب کی بات ہے کہ انسان سے شرم اس درجہ ضروری کہ عید گاہ میں بے پردہ سے جانا ممنوع ٹھہرا، لیکن دوران نماز میں اللہ کے حضور کھڑے ہوکر سترعورۃ کا اہتمام نہ کرنا، یہ کوئی عقل مندی نہیں ہے، بلکہ لوگوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سے حیا زیادہ کرنی چاہیے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 351   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:971  
971. حضرت ام عطیہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہمیں حکم دیا جاتا تھا کہ عید کے دن گھر سے نکلیں، حتی کہ کنواری لڑکیوں کو ان کے پردوں کے ساتھ نکالیں اور حائضہ عورتوں کو بھی گھروں سے برآمد کریں، چنانچہ وہ مردوں کے پیچھے رہتیں، ان کی تکبیر کے ساتھ تکبیر کہتیں، نیز مردوں کی دعا کے ساتھ دعائیں مانگتیں اور اس دن کی برکت اور طہارت کی امید رکھتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:971]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کا استدلال عورتوں کا مردوں کے ہمراہ تکبیرات کہنا سے ہے کیونکہ عورتوں کا عید کے دن یہ عمل کرنا اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔
باقی ایام منیٰ بھی اس میں شامل ہیں کیونکہ یہ ايام معدودات سے ہیں اور ان ایام میں ذکر کرنا قرآن مجید کی نص صریح سے ثابت ہے۔
واضح رہے کہ دیگر روایات میں مستورات کا دعا کرنا، کارخیر میں حصہ لینا تو ثابت ہے لیکن ان کا مردوں کے ہمراہ تکبیرات کہنا صرف امام بخاری ؒ کی پیش کردہ روایت میں ہے، لیکن دیگر دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ تکبیرات کو آہستہ آواز میں کہیں کیونکہ مردوں کے متعلق احادیث میں ہے کہ وہ اتنی اونچی آواز سے تکبیرات کہتے کہ ان کے گلے خشک ہو جاتے اور ان کی آواز پست ہو جاتی۔
یہ کیفیت عورتوں سے متعلق نہیں ہونی چاہیے۔
وہ تکبیرات میں حصہ ضرور لیں لیکن مردوں کے مقابلے میں اپنی آواز پست رکھیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 971   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:974  
974. حضرت ام عطیہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمیں ہمارے نبی ﷺ نے حکم دیا کہ ہم (نمازِ عید کے لیے) ان جوان عورتوں کو بھی نکالیں جو پردہ نشین ہیں۔ حضرت حفصہ بنت سیرین سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ نوجوان اور پردہ نشین عورتوں کو عید کے لیے نکالیں، البتہ حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:974]
حدیث حاشیہ:
(1)
حائضہ عورت کو نماز کی ممانعت ہے۔
اس اعتبار سے اس کے لیے مسجد میں جانا بھی ناجائز ہے، تو اعتراض ہو سکتا ہے کہ ایسی عورت کے لیے عیدگاہ میں جانا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور پیش کردہ احادیث میں اسی اعتراض کا جواب دیا ہے کہ اس میں متعدد فوائد ہیں۔
سب سے بڑا فائدہ شوکت اسلام کا اظہار ہے، اس لیے ایسی عورتوں کو بھی عیدگاہ جانا چاہیے۔
اس پر بھی اعتراض ہو سکتا ہے کہ ایسے حالات میں عیدگاہ کا تقدس تو مجروح ہو گا۔
اس کا جواب ایک دوسری روایت میں ہے کہ راوی نے جب یہ اعتراض کیا تو اسے جواب دیا گیا کہ حائضہ عورت منیٰ، عرفہ اور مزدلفہ وغیرہ مقدس مقامات میں دوران حج جا سکتی ہے تو عیدگاہ جانے کے لیے اسے کیا ممانعت ہے۔
(صحیح البخاري، الحیض، حدیث: 324) (2)
عیدگاہ میں اس قسم کی عورتوں کو الگ بیٹھنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ نماز پڑھنے والی عورتوں کے درمیان بے ضابطگی نہ ہو۔
کچھ پڑھیں اور کچھ ویسے ہی بیٹھی رہیں اس سے نماز کا ظاہری حسن مجروح ہوتا ہے، اس لیے انہیں علیحدہ بیٹھنے کا حکم دیا گیا ہے، نیز اس میں دوسری عورتوں اور مقدس جگہ کا بھی خیال رکھا گیا ہے تاکہ وہ مقام نجاست سے آلودہ نہ ہو جائے جہاں نماز پڑھنی ہے یا ساتھ والی عورت کو کراہت نہ ہو۔
(عمدةالقاري: 193/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 974   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:980  
980. حضرت حفصہ بنت سیرین سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم اپنی جوان لڑکیوں کو عید کے دن باہر نکلنے سے منع کرتی تھیں، چنانچہ ایک عورت قصر بنی خلف میں آ کر مقیم ہوئی تو میں اس کے پاس پہنچی۔ اس نے بیان کیا کہ اس کا بہنوئی نبی ﷺ کے ہمراہ بارہ غزوات میں شریک ہوا تھا۔ اس کی بہن بھی چھ غزوات میں اس کے ہمراہ تھی۔ ہمشیرہ نے بیان کیا کہ ہمارا کام مریضوں کی خبر گیری اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا تھا۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر کسی عورت کے پاس بڑی چادر نہ ہو، ایسے حالات میں اگر وہ عید کے لیے باہر نہ جائے تو کوئی حرج ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: اس کی سہیلی اپنی چادر میں سے کچھ حصہ اسے پہنا دے، تاہم انہیں چاہئے کہ وہ امور خیر اور اہل ایمان کی دعاؤں میں ضرور شمولیت کریں۔ حضرت حفصہ بنت سیرین نے کہا: جب حضرت ام عطیہ‬ ؓ ت‬شریف لائیں تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان سے عرض۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:980]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں سوالیہ انداز اختیار کیا ہے، جزم اور وثوق کے ساتھ اس کا جواب ذکر نہیں کیا۔
زین بن منیر کہتے ہیں کہ حدیث میں اس کی وضاحت تھی، اس لیے امام بخاری ؒ نے صراحت کے ساتھ جواب ذکر نہیں فرمایا۔
لیکن ہمارے نزدیک چونکہ جواب میں متعدد احتمالات تھے، اس لیے امام بخاری ؒ نے حسب عادت جواب کو حذف کر دیا ہے۔
یہ بھی احتمال تھا کہ وہ اپنی سہیلی کی چادروں میں سے کوئی چادر بطور ادھار لے لے جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ کی روایت میں ہے۔
اور امام ترمذی ؒ نے بیان کیا ہے کہ وہ اپنی سہیلی سے عاریتاً کوئی چادر لے۔
یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی سہیلی اپنی چادر میں چھپا کر لے جائے جیسا کہ ابوداود کی روایت میں ہے:
اس کی سہیلی کو چاہیے کہ وہ اپنی چادر کے ایک کنارے میں اسے چھپا کر لے جائے۔
ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ ارشاد بطور مبالغہ فرمایا ہو کہ انہیں بہر صورت عیدگاہ جانا چاہیے۔
اگرچہ ایک چادر، دو عورتیں لپیٹ کر ہی کیوں نہ جائیں۔
(فتح الباري: 605/2) (2)
عیدگاہ میں حائضہ عورتوں کی حاضری کو عجیب سمجھا جا رہا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے۔
حضرت ام عطیہ ؓ نے وضاحت فرمائی کہ کیا عورتیں حج کے موقع پر میدان عرفات، مزدلفہ اور رمی جمرات کے لیے منیٰ میں حاضر نہیں ہوتیں؟ مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو ذکر کرنے سے نہ روکا جائے اور نہ انہیں مسجد کے علاوہ دیگر مقدس مقامات ہی میں داخل ہونے سے روکا جائے۔
اگر وہ عیدگاہ میں جمع ہو کر اللہ کا ذکر کریں، وعظ و نصیحت سنیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
انہیں صرف دخول مسجد اور نماز پڑھنے کی ممانعت ہے۔
اور عیدگاہ مسجد نہیں ہے، نیز وہاں جانے پر ان پر نماز پڑھنا ضروری نہیں، لہذا شوکتِ اسلام کے اظہار کے لیے ان کی عید میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 980   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:981  
981. حضرت ام عطیہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ عید کے لیے خود بھی نکلیں اور حائضہ، نوجوان اور پردہ نشین عورتوں کو بھی نکالیں۔۔ راوی حدیث ابن عون نے کہا کہ پردہ نشین نوجوان عورتیں۔۔ چنانچہ حائضہ عورتیں مسلمانوں کی جماعت اور ان کی دعاؤں میں شریک ہوتی تھیں، البتہ نماز پڑھنے کی جگہ سے علیحدہ رہتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:981]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات نے مذکورہ حدیث سے عورتوں کے لیے نماز عید باہر جا کر پڑھنے کا وجوب اخذ کیا ہے لیکن یہ وجوب محل نظر ہے کیونکہ اس میں تو وہ عورتیں بھی شامل ہیں جنہیں نماز پڑھنے کا مکلف قرار نہیں دیا گیا، البتہ عورتوں کے لیے عیدگاہ جانے کا استحباب ضرور ثابت ہوتا ہے، خواہ وہ عورتیں جوان ہوں یا بوڑھی، خوبصورت ہوں یا اس کے برعکس، بہرحال انہیں عیدگاہ جانے کی تاکید ہے۔
(2)
امام طحاوی ؒ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آغاز اسلام میں جوان پردہ نشین عورتوں کو نکلنے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ مسلمانوں کی تعداد زیادہ معلوم ہو اور دشمنوں پر رعب قائم ہو کیونکہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔
اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔
اسی موقف پر یہ اعتراض ہوا کہ نسخ ایسے احتمالات سے ثابت نہیں ہوتا، نیز حضرت ام عطیہ ؓ کا فتویٰ بھی اس موقف کے خلاف ہے جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد دیا ہے۔
دشمنوں پر رعب کی بات بھی عجیب ہے، اس لیے کہ عورتوں سے مدد لینا اور بوقت جنگ ان کی وجہ سے اپنی کثرت کا اظہار کرنا بجائے خود اپنی کمزوری بتانا ہے، لہذا بہتر ہے کہ جوان عورتوں کا عیدگاہ جانا اس وقت پر محمول ہو جب حالات پرامن ہوں، یعنی ان کے وہاں جانے سے نہ وہ خود کسی فتنے میں مبتلا ہوں اور نہ کوئی مرد ان کی وجہ سے فتنے میں پڑے، نیز راستے میں اور جمع ہونے کے مقامات میں مردوں کے ساتھ ان کا اختلاط نہ ہو، ایسے حالات میں ان کا عیدگاہ جانا پسندیدہ عمل ہے۔
(فتح الباري: 207-
206/2)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 981   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1652  
1652. حضرت حفصہ بنت سیرین سے روایت ہے کہ ہم اپنی نوجوان کنواری لڑکیوں کو باہر(عید گاہ میں) جانے سے منع کر تی تھیں، چنانچہ ایک عورت آئی اور بنو خلف کے محل میں ٹھہری۔ اس نے بیان کیاکہ ان کى ہمشیرہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی ایک صحابی کی بیوی تھی۔ اس کے شوہر نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بارہ غزوات میں شرکت کی تھی۔ میری ہمشیرہ بھی چھ غزوات میں اس کے ہمراہ تھیں۔ اس نے بیان کیا کہ ہم میدان جہاد میں زخمیوں کی مرہم پٹی اور مریضوں کی عیادت کرتی تھیں۔ میری بہن نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اگر ہم چادر نہ ہونے کی وجہ سے باہر(عید گاہ) نہ جائیں تو اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس کی سہیلی اپنی چادر اسے دے دے اور وہ عورت خیر اور مسلمانوں کی دعاؤں میں ضرور شریک ہو۔ پھر جب ام عطیہ ؓ بصرہ آئیں تو ہم نے ان سے یہی مسئلہ دریافت کیا۔ حضرت ام عطیہ ؓ کی عادت تھی کہ وہ جب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1652]
حدیث حاشیہ:
(1)
جب حائضہ عورت کو مقام نماز سے الگ رہنے کا حکم ہے تو کعبہ کے پاس جانا بھی اس کے لیے جائز نہ ہو گا اور نہ وہ بیت اللہ کا طواف ہی کر سکتی ہے جیسا کہ عنوان کا موضوع ہے۔
(2)
بعض حضرات نے کہا ہے کہ جب حائضہ عورت عرفات میں حاضر ہو سکتی ہے، مزدلفہ جا سکتی ہے اور منیٰ میں رہتے ہوئے کنکریاں مار سکتی ہے، یعنی بیت اللہ کے طواف کے علاوہ تمام ارکان حج ادا کر سکتی ہے تو وہ صفا و مروہ کی سعی بھی کر سکتی ہے کیونکہ صفا و مروہ عرفات کی طرح ہے، لیکن یہ استدلال اس بنا پر محل نظر ہے کہ محض صفا و مروہ کی سعی سے کیا حاصل ہو گا جبکہ اس سے پہلے طواف نہ کیا ہو؟ جب حائضہ عورت طواف نہیں کر سکتی تو صفا و مروہ کی سعی کرنے کی اسے کیونکر اجازت دی جا سکتی ہے؟ پھر آج جبکہ صفا و مروہ کو مسجد حرام کا حصہ بنا دیا گیا ہے، ایسے حالات میں حائضہ عورت صفا و مروہ کی سعی نہیں کر سکتی۔
واللہ اعلم۔
(3)
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ ام عطیہ ؓ نے فرمایا:
حائضہ عورت میدان عرفات اور فلاں فلاں جگہ پر حاضری نہیں دیتی، اسی طرح حضرت جابر ؓ کی روایت میں ہے کہ حائضہ عورت بیت اللہ کے طواف کے علاوہ تمام مناسک حج ادا کر سکتی ہے، ان دونوں کا مصداق ایک ہے اور اسی سے امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کا پہلا جز ثابت ہوتا ہے کیونکہ جب اسے جائے نماز سے الگ رہنے کا حکم ہے تو مسجد بلکہ مسجد حرام بلکہ کعبہ سے ایک طرف رہنا بالاولیٰ ثابت ہوا۔
(فتح الباري: 638/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1652