Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
12. باب صلاة الجمعة
نماز جمعہ کا بیان
حدیث نمبر: 378
وعن الحكم بن حزن رضي الله عنه قال: شهدنا الجمعة مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فقام متوكئا على عصا أو قوس. رواه أبو داود.
سیدنا حکم بن حزن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ میں حاضر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لاٹھی یا کمان کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے۔ (ابوداؤد)

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب الرجل يخطب علي قوس، حديث:1096.»

حكم دارالسلام: حسن

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 378 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 378  
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب الرجل يخطب علي قوس، حديث:1096.»
تشریح:
1. اس حدیث کی رو سے خطیب خطبۂجمعہ کے وقت کسی چیز کا سہارا لے سکتا ہے۔
2.یہ مستحب ہے۔
3. حکمت اس کی یہ ہے کہ یہ چیز خطیب کے لیے ڈھارس کا کام دیتی ہے‘ ہاتھ بے فائدہ حرکت کرنے سے بچے رہتے ہیں اور آدمی میں تھکاوٹ کا احساس بھی پیدا نہیں ہوتا۔
راویٔ حدیث:
«حضرت حکم بن حزن رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ حکم میں حا اور کاف دونوں پر فتحہ ہے۔
اور حزن کی حا پر فتحہ اور زا ساکن ہے۔
ان کا پورا نام حکم بن حزن بن ابی وہب مخزومی ہے۔
ان کے اسلام کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ جنگ یمامہ سے پہلے اسلام قبول کیا‘ حالانکہ صحیح یہ ہے کہ انھوں نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا۔
اس حدیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز جمعہ ادا کی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 378   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1096  
´کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ دینے کا بیان۔`
شہاب بن خراش کہتے ہیں کہ شعیب بن زریق طائفی نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ میں ایک شخص کے پاس (جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرف صحبت حاصل تھا، اور جسے حکم بن حزن کلفی کہا جاتا تھا) بیٹھا تو وہ ہم سے بیان کرنے لگا کہ میں ایک وفد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میں اس وفد کا ساتواں یا نواں آدمی تھا، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے آپ کی زیارت کی ہے تو آپ ہمارے لیے خیر و بہتری کی دعا فرما دیجئیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ کھجوریں ہم کو دینے کا حکم دیا اور حالت اس وقت ناگفتہ بہ تھی، پھر ہم وہاں کچھ روز ٹھہرے رہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ میں بھی حاضر رہے، آپ ایک عصا یا کمان پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے چند ہلکے، پاکیزہ اور مبارک کلمات کے ذریعہ اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: لوگو! تم سارے احکام کو جن کا تمہیں حکم دیا جائے بجا لانے کی ہرگز طاقت نہیں رکھتے یا تم نہیں بجا لا سکتے، لیکن درستی پر قائم رہو اور خوش ہو جاؤ۔‏‏‏‏ ابوعلی کہتے ہیں کہ میں نے ابوداؤد کو کہتے ہوئے سنا کہ ہمارے بعض ساتھیوں نے کچھ کلمات مجھے ایسے لکھوائے جو کاغذ سے کٹ گئے تھے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1096]
1096۔ اردو حاشیہ:
➊ متبع سنت علماء صلحاء اور باعمل لوگوں سے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے محبت کرنا نہایت قابل قدر او بلندی درجات کا حامل عمل ہے۔ ایسے لوگوں سے خود باری تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ اور روز قیامت ایسے لوگوں کو اللہ عزوجل کا خصوصی سایہ میسر ہو گا۔ «اللهم اجعلنا منهم» آمین۔ [صحيح مسلم، حديث: 256 ➏ 2527]
➋ اصحاب خیر کی زیارت میسر آئے تو ان سے دعائے خیر کرانی چاہیے یہ مستحب عمل ہے۔
➌ حسب حال مہمانوں کی عمدہ خدمت ان کا حق ہے۔
➍ خطبہ میں عصاء وغیرہ لے کر کھڑے ہونا مستحب ہے۔
➎ عام انسانوں کے لئے ناممکن ہے کہ شریعت کے تمام تر احکام پر عمل پیرا ہو سکیں لیکن حسب امکان غفلت و کسل مندی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اعمال صالحہ پر استقامت اور میانہ روی کو معمول بنانا ضرور ی ہے۔
➏ محدثین اپنی شخصی فروگزاشتیں بھی بیان کر دیا کرتے تھے تاکہ لوگ انہیں معصوم نہ سمجھنے لگیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1096