بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
12. باب صلاة الجمعة
نماز جمعہ کا بیان
حدیث نمبر: 377
وعن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا استوى على المنبر استقبلناه بوجوهنا. رواه الترمذي بإسناد ضعيف. وله شاهد من حديث البراء عند ابن خزيمة.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب منبر پر کھڑے ہو جاتے تو ہم اپنے رخ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف موڑ لیتے۔
اسے ترمذی نے ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اس کا شاہد ابن خزیمہ میں موجود ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، أبواب الصلاة، باب ما جاء في استقبال الإمام إذا خطب، حديث:509 وسنده ضعيف، وللحديث شواهد ضعيفة، وحديث البراء رواه ابن خزيمة:لم أجده.»
حكم دارالسلام: ضعيف
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 377 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 377
تخریج: «أخرجه الترمذي، أبواب الصلاة، باب ما جاء في استقبال الإمام إذا خطب، حديث:509 وسنده ضعيف، وللحديث شواهد ضعيفة، وحديث البراء رواه ابن خزيمة:لم أجده.»
تشریح:
1. اس حدیث کی رو سے سامعین کو اپنا رخ خطیب کی طرف کرنا چاہیے۔
قبلے کی طرف منہ کرنا ضروری نہیں۔
اس مسئلے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔
بلکہ اس پر اجماع ہے۔
(سبل السلام) 2.اس حدیث کے ضعف کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سند میں محمد بن فضل بن عطیہ ایسا راوی ہے جسے متروک الحدیث قرار دیا گیا ہے مگر خود مصنف نے ذکر کیا ہے کہ اس کا شاہد موجود ہے اور اس پر اجماع بھی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 377
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 509
´خطبہ کے وقت امام کی طرف منہ کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب منبر پر بیٹھتے تو ہم اپنا منہ آپ کی طرف کر لیتے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجمعة/حدیث: 509]
اردو حاشہ:
1؎:
سند کے لحاظ سے اس باب میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے لیکن متعدد احادیث و آثار سے اس مضمون کو تقویت مل جاتی ہے (دیکھئے الصحیحۃ رقم2080) عام مساجد میں یہ چیز تو بہت آسان ہے لیکن خانہ کعبہ میں مشکل ہے،
تو وہاں یہ بات معاف ہو گی۔
نوٹ:
(یہ سند سخت ضعیف ہے،
اس لیے کہ اس میں راوی محمد بن فضل بن عطیہ کی لوگوں نے تکذیب تک کی ہے،
لیکن براء بن عازب اور ابن عمر،
انس اور ابو سعید خدری وغیرہ سے مروی شواہد کی بنا پر صحابہ کا یہ تعامل صحیح اور ثابت ہے تفصیل کے لیے دیکھئے:
الصحیحۃ 2080)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 509