بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
12. باب صلاة الجمعة
نماز جمعہ کا بیان
حدیث نمبر: 360
وعن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا خطب احمرت عيناه وعلا صوته واشتد غضبه حتى كأنه منذر جيش يقول: «صبحكم ومساكم» ويقول: «أما بعد فإن خير الحديث كتاب الله وخير الهدي هدى محمد وشر الأمور محدثاتها وكل بدعة ضلالة» . رواه مسلم. وفي رواية له: كانت خطبة النبي صلى الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة يحمد الله ويثني عليه ثم يقول على أثر ذلك وقد علا صوته. وفي رواية له: «من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له» . وللنسائي: «وكل ضلالة في النار» .
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ ارشاد فرماتے تو رخ انور سرخ ہو جاتا۔ آواز بلند ہو جاتی اور جوش بڑھ جاتا (جس سے غصہ کے آثار نمایاں ہوتے۔ بس اسی طرح کی کیفیت ہو جاتی) جیسے کسی لشکر کو ڈرا رہے ہوں ”دشمن کا لشکر تمہارے پاس صبح کو پہنچایا شام کو؟“ اور فرماتے «أما بعد فإن خير الحديث كتاب الله وخير الهدي هدى محمد وشر الأمور محدثاتها وكل بدعة ضلالة» ”حمد و صلوۃ کے بعد۔ بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ کاموں میں بدترین کام نئے (بدعت کے) کام ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“ (مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے ”جمعہ کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ یوں ہوتا تھا کہ اللہ کی حمد و ثنا بیان فرماتے۔ اس کے بعد خطبہ دیتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز بلند ہو جاتی۔ اور مسلم کی ایک روایت میں ہے «من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له» ”جسے اللہ ہدایت دیدے اسے گمراہ کرنے والا کوئی نہیں، اور جسے وہ گمراہ کر دے، اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔ اور نسائی میں ہے «وكل ضلالة في النار» ”اور ہر گمراہی دوزخ میں (لے) جانے والی ہے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الجمعة، باب تخفيف الصلاة والخطبة، حديث:867، والنسائي، صلاة العيدين، حديث:1579.»
حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 360 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 360
تخریج: «أخرجه مسلم، الجمعة، باب تخفيف الصلاة والخطبة، حديث:867، والنسائي، صلاة العيدين، حديث:1579.»
تشریح:
یہ وہ خطبہ ٔمسنونہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ثابت ہے۔
خطبے کے دوران میں خطیب پر مختلف حالتیں وارد ہوتی ہیں جس کی وجہ سے کسی وقت چہرے پر ایسے آثار نمایاں ہوتے ہیں جس سے سامعین کو متأثر کرنا مقصود ہوتا ہے۔
خطبے میں اللہ تعالیٰ ہی کی حمد و ثنا ہونی چاہیے۔
خطبہ مختصر مگر جامع ہو۔
خطبے میں ایسا انداز اختیار کیا جائے کہ سامعین اس سے متأثر بھی ہوں اور محظوظ بھی‘ لیکن تکلف سے اجتناب کرنا چاہیے۔
خطبے کو طول دینے سے بھی احتراز کرنا چاہیے‘ اس لیے کہ مختصر مگر جامع خطبہ سامعین کی سمع خراشی کا موجب نہیں بنتا بلکہ اسے یاد رکھنا سہل اور آسان ہوتا ہے اور اپنا بہترین اثر چھوڑتا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 360