Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
12. باب صلاة الجمعة
نماز جمعہ کا بیان
حدیث نمبر: 355
وعن سلمة بن الأكوع رضي الله عنه قال: كنا نصلي مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم الجمعة ثم ننصرف وليس للحيطان ظل يستظل به. متفق عليه واللفظ للبخاري. وفي لفظ لمسلم: كنا نجمع مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا زالت الشمس ثم نرجع نتتبع الفيء.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ ادا کرتے تھے۔ جمعہ سے فارغ ہو کر جب ہم اپنے گھروں کو جاتے تو اس وقت دیواروں کا سایہ نہیں ہوتا تھا کہ جس سے سایہ لیا جا سکے۔ (یا سایہ میں چل کر پہنچ جاتے)۔ (بخاری و مسلم) متن حدیث کے الفاظ بخاری کے ہیں) اور مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرتے جب زوال ہو جاتا پھر واپس ہوتے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، المغازي، باب غزوة الحديبية، حديث:4168، ومسلم، الجمعة، باب صلاة الجمعة حين تزول الشمس، حديث:860.»

حكم دارالسلام: صحيح

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 355 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 355  
تخریج:
«أخرجه البخاري، المغازي، باب غزوة الحديبية، حديث:4168، ومسلم، الجمعة، باب صلاة الجمعة حين تزول الشمس، حديث:860.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نماز جمعہ بہت جلد ادا کی جاتی تھی۔
2.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز جمعہ زوال سے پہلے بہرحال نہیں ہوتی تھی۔
اس کا وقت بھی نماز ظہر کا وقت ہے۔
علمائے اسلام کی اکثریت اسی طرف گئی ہے‘ البتہ امام احمد اور اسحٰق بن راہویہ ; کی رائے یہ ہے کہ جمعہ زوال سے پہلے بھی ہو جاتا ہے‘ نیز امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک خطبۂجمعہ تو زوال سے پہلے جائز ہے مگر نماز درست نہیں‘ وہ زوال آفتاب کے بعد ہی ہے۔
آج کل جمعے کی نماز ظہر کی نماز سے بھی زیادہ دیر سے پڑھتے ہیں جو سراسر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مخالف ہے۔
خطباء و ائمۂ مساجد کو اس پر غور کرنا چاہیے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابو مسلم ان کی کنیت ہے۔
نام سلمہ بن عمرو بن اکوع ہے۔
اور اکوع کا نام سنان بن عبداللہ اسلمی مدنی ہے۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے نہایت بہادروں میں شمار ہوتے تھے۔
اتنے تیز رفتار تھے کہ دوڑنے میں گھوڑے سے بھی آگے نکل جاتے تھے۔
بہت سخی‘ فاضل اور بھلائی کا مجسمہ تھے۔
مدینہ منورہ میں ۷۴ ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 355   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1085  
´جمعہ کے وقت کا بیان۔`
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ پڑھتے تھے پھر نماز سے فارغ ہو کر واپس آتے تھے اور دیواروں کا سایہ نہ ہوتا تھا۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1085]
1085۔ اردو حاشیہ: ان احادیث کا مفہوم یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جمعہ زوال کے فوراً بعد ہوتا تھا چونکہ خطبہ مختصر اور نماز قدرے لمبی ہوتی تھی اس لئے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین واپسی پر دیواروں کا اتنا سایہ نہ پاتے تھے کہ اس سے سایہ حاصل کر سکتے جیسے کہ صحیح مسلم کی حدیث [860] کے الفاظ ہیں۔ «وما تجد فيئا فستظل به» یعنی سایہ تو ہوتا تھا مگر بہت کم، «غداء» دوپہر کے کھانے اور «قيلوله» نصف النہار میں استراحت کرنے کو کہتے ہیں، اس سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ جمعہ قبل الزوال ہوتا تھا۔ مگر یہ استدلال بےمحل ہے، دوپہر کا کھانا دیر کر کے کھایا جائے تو بھی اسے «غداء» ہی کہتے ہیں اور نصف النہار کی استراحت میں تاخیر کی جائے تو بھی اسے «قيلوله» ہی کہتے ہیں۔ لہٰذا جمعہ کے بعد کھانے اور قیلولہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ جمعہ قبل الزوال ہوتا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1085   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1100  
´جمعہ کے وقت کا بیان۔`
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتے تھے، پھر گھروں کو واپس ہوتے تو دیواروں کا سایہ اتنا بھی نہ ہوتا تھا کہ ہم اس سایہ میں چل سکیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1100]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جمعے کی نماز بھی ظہر کی طرح زوال کے فوراً بعد ادا کی جاتی ہے۔

(2)
جمعے کا خطبہ مختصر ہونے کی وجہ سے جلد فراغت ہوجاتی تھی۔
جس کی وجہ سے دیواروں کا سایہ کافی نہیں ہوتا تھا۔
بعض علماء نے اس سے یہ استنباط کیا ہے کہ جمعے کی نماز زوال سے پہلے ادا کی جا سکتی ہے لیکن یہ بات درست نہیں۔
کیونکہ حجاز میں گرمی کے موسم میں زوال کے وقت بالکل سایہ نہیں ہوتا۔
جبکہ سردی کے موسم میں زوال کے وقت شمال کیطرف کافی طویل سایہ ہوجاتا ہے۔
اس وجہ سے گرمی کے ایّام میں زول سے کافی عرصہ بعد بھی سایہ مختصر ہوتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1100   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1993  
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ پڑھتے اور واپس لوٹتے تو دیواروں کا سایہ اس قدر نہ ہوتا کہ ہم ان کے سایہ میں چل سکتے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1993]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
روایات مذکورہ بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز جلد پڑھتے تھے۔
اورخطبہ لمبا چوڑا نہیں دیتےتھے۔
کیونکہ نماز جمعہ کے بعد دیواروں کا سایہ بہت نہیں پھیلا ہوتا تھا کہ انسان اس کی آڑ میں آرام سے چل سکے۔
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ جمعہ زوالِ آفتاب سے پہلے شروع کرتے تھے۔
اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا مؤقف یہی ہے اور مختلف روایات کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نے بعض دفعہ جمعہ زوال سے پہلے شروع کیا ہے۔
لیکن آپﷺ کی عام عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپﷺ جمعہ زوال کے بعد شروع کرتے تھے لیکن وقت زیادہ نہیں لگاتے تھے۔
لیکن مولانا صفی الرحمان رحمۃ اللہ علیہ کے بقول مدینہ منورہ میں ہیں زوال کے وقت سایہ بہت کم ہوتا ہے۔
یعنی آدھی بالشت سے بھی کم ہوتا ہے۔
اس لیے اگر جمعہ زوال کے فوراً بعد شروع کر دیا جائے تو جمعہ کے بعد دیواروں کا سایہ اس قدر نہیں ہوتا کہ اس میں چلا جا سکے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1993