Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
11. باب صلاة المسافر والمريض
مسافر اور مریض کی نماز کا بیان
حدیث نمبر: 344
وعن أنس رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا خرج مسيرة ثلاثة أميال أو فراسخ صلى ركعتين. رواه مسلم.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یا تین فرسخ کی مسافت پر، سفر کے لئے تشریف لے جاتے تو دو رکعتیں (نماز قصر) ادا فرماتے تھے۔ (مسلم)

تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة المسافرين، حديث:691.»

حكم دارالسلام: صحيح

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 344 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 344  
تخریج:
«أخرجه مسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة المسافرين، حديث:691.»
تشریح:
1. حدیث میں وارد الفاظ میل اور فرسخ کی وضاحت تو اوپر ہو چکی ہے کہ ان سے کیا مراد ہے اور نماز قصر کے لیے کتنی مسافت ہونی چاہیے‘ اس کا بھی مختصر ذکر ہوچکا ہے۔
اس کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے تلمیذ رشید حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ قصر نماز کے لیے کوئی مسافت محدود و متعین نہیں ہے۔
مطلق سفر سے اس کی اجازت دی گئی ہے۔
اور جب کوئی کسی مسافت کو سفر خیال کرے وہاں قصر نماز پڑھے۔
2.بلاشبہ قرآن مجید میں قصر کے لیے مطلقاً سفر کا ذکر ہے‘ جیسے سفر میں تیمم کے لیے سفر کی کوئی تعیین نہیں۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تین میل کا سفر بھی شرعی سفر شمار ہوتا ہے لیکن حدیث میں تین میل یا تین فرسخ کا ذکر ہے جس سے علماء نے احتیاط کا پہلو اختیار کیا ہے کہ یہاں تین فرسخ مراد لیے جائیں۔
اور تین فرسخ سے نو میل‘ جدید نظام کے مطابق ۲۳‘ ۲۴ کلو میٹر مسافت بنتی ہے‘ لہٰذا مذکورہ مسافت پر نماز قصر ادا کی جائے گی۔
3.ظاہریہ نے تو تین میل تک مسافت کو نماز قصر کے لیے جائز قرار دیا ہے بلکہ بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ایک میل پر بھی جائز ہے مگر ان کے پاس کوئی مضبوط عقلی و نقلی ثبوت نہیں ہے۔
اور بعض حضرات نے ۳۶ میل اور بعض نے ۴۸ میل اور بعض نے ۵۲ میل کی مسافت مقرر کی ہے۔
بہرحال یہ سب قیاسات پر مبنی ہیں‘ کسی کی تائید میں صحیح حدیث موجود نہیں۔
رہی چار برد والی روایت کہ چار برد (اڑتالیس میل) سے کم مسافت پر قصر جائز نہیں تو یہ حدیث مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہے‘ نیز اس کے ایک راوی عبدالوہاب بن مجاہد بن جبیر مکی کی روایت کو ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے بلکہ امام ثوری رحمہ اللہ نے تو اسے کذاب کہا ہے‘ اس لیے یہ استدلال کے لائق نہیں۔
علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے بھی اسے سخت ضعیف قرار دیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 344