تخریج: «أخرجه البخاري، المغازي، باب (54)، حديث:4302، وأخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:585-587، والنسائي، الأذان، حديث:637.»
تشریح:
1. اس حدیث نے امام کے لیے ایک اصول مقرر کیا ہے کہ جو قرآن مجید کا زیادہ قاری ہو امامت کے منصب کے لیے اسی کا انتخاب کیا جائے جیسا کہ عمرو رضی اللہ عنہ کو اس کی قوم کے لوگوں نے منتخب کیا۔
2.اس حدیث سے ایک بات یہ بھی واضح ہوتی ہے کہ امامت کا منصب اذان کے منصب سے افضل ہے‘ اس لیے کہ مؤذن کے لیے کسی قسم کی شرط نہیں لگائی گئی‘ وہ صرف حسن صوت اور بلند آواز والا ہونا چاہیے۔
چھ سات سالہ بچے کو امام مقرر کرنا صرف اسی وجہ سے تھا کہ اسے دوسروں کے مقابلے میں قرآن زیادہ یاد تھا۔
حسن بصری‘ امام شافعی ‘ ابن راہویہ اور اہلحدیث اسی کے قائل ہیں کہ نابالغ لڑکے کی امامت میں بڑے‘ بوڑھے لوگوں کی نماز درست ہے‘ مگر امام مالک اور امام ثوری; وغیرہ اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔
امام احمد اور امام ابوحنیفہ; سے دو قول منقول ہیں۔
دونوں میں سے مشہور قول یہ ہے کہ بچے
(نابالغ) کی امامت میں نفل نماز درست ہے اور فرض نماز جائز نہیں۔
یہ حضرات کہتے ہیں کہ عمرو بن سلمہ کو امام نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے تحت مقرر کیا گیا اور نہ آپ سے پوچھ کر اس کا انتخاب کیا گیا۔
یہ دلیل اتنی وزنی نہیں کہ اسے درخور اعتنا سمجھا جائے۔
اس کا تقرر و انتخاب اگر درست نہ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بذریعۂوحی لازماً اسے آئندہ کے لیے روک دیتے مگر ایسا نہیں ہوا۔
چونکہ اس کا تعلق اسلام کے بڑے اہم رکن نماز سے تھا‘ اس لیے اگر یہ درست نہ ہوتا تو اسے ضرور ممنوع قرار دے دیا جاتا‘ یا پھر نفلی اور فرضی امامت کی وضاحت کر دی جاتی کہ نفل میں اس کی گنجائش ہے‘ فرض میں نہیں۔
ایسا بھی کہیں نہیں‘ لہٰذا قرین صواب یہی ہے کہ ضرورت کے وقت ایسا کرنا بلا کراہت درست ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
راویٔ حدیث: «عمر و بن سَلِمَہ رضی اللہ عنہما» سلمہ کے
”لام
“ کے نیچے کسرہ ہے۔
جرم قبیلہ سے ہونے کی وجہ سے جرمی کہلائے۔
ابویزید یا ابوبرید
(تصغیر کے ساتھ) کنیت ہے۔
اپنے والد کی معیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے‘بصرہ میں سکونت پذیر ہوئے۔
اس وقت ان کی عمر چھ‘ سات برس تھی۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہیں ہوئے۔
عمرو بن سلمہ اور قبیلہ ٔبنو سلمہ کے علاوہ باقی تمام جگہ سلمہ کے
”لام
“ پر فتحہ ہے اور ان دونوں میں لام کے نیچے کسرہ ہے۔