Note: Copy Text and to word file

بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
9. باب صلاة التطوع
نفل نماز کا بیان
حدیث نمبر: 303
وعن ابن عمر رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «اجعلوا آخر صلاتكم بالليل وترا» .‏‏‏‏متفق عليه.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی رات کی آخری نماز کو وتر بناؤ۔ (بخاری و مسلم)

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الوتر، باب ليجعل آخر صلاته وترًا، حديث:998، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الليل مثني مثني، حديث:751.»

حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 303 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 303  
تخریج:
«أخرجه البخاري، الوتر، باب ليجعل آخر صلاته وترًا، حديث:998، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الليل مثني مثني، حديث:751.»
تشریح:
1. اس حدیث میں رات کی آخری نماز کو وتر بنانے کا امر وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے‘ یعنی اگر کسی نے رات کے اول حصے میں وتر پڑھ لیا ہے‘ پھر رات کے درمیان یا آخری حصے میں جاگ اٹھا تو دو دو رکعت کر کے جتنے چاہے نوافل پڑھ لے‘ وتر کو جوڑا بنا کر وتر کو ختم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
2. کوئی شخص وتر ادا کرنے کے بعد دو رکعت پڑھ لے تو کوئی مضائقہ نہیں‘ اس لیے کہ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم‘ صلاۃ المسافرین‘ حدیث:۷۳۸ (ب)۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 303   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1683  
´وتر کے وقت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جو رات کو نماز پڑھے تو وہ اپنی آخری نماز وتر کو بنائے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کا حکم دیتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1683]
1683۔ اردو حاشیہ: ان روایات سے معلوم ہوا کہ وتر عشاء کی نماز کے بعد طلوع فجر تک پڑھے جاسکتے ہیں، البتہ جسے تراویح وتہجد پڑھنی ہو تو وہ وتر کو اپنی نفل نماز کے آخر میں پڑھے، ابتدا یا درمیان میں نہ پڑھے۔ واللہ اعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1683   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1438  
´وتر کے وقت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی رات کی آخری نماز وتر کو بنایا کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1438]
1438. اردو حاشیہ:
➊ جسے یقین ہو کہ وہ صبح سے پہلے اُٹھ سکتا ہے۔ تو وہ اس ارشاد پر عمل کرکے فضیلت کا ثواب حاصل کرے۔ ورنہ سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی رخصت معلوم ہے۔ جیسے کے پیچھے گزرا۔
➋ اس حدیث سے استدلال کرکے کہا گیا ہے کہ وتر پڑھنے کے بعد کوئی نفلی نماز پڑھنی جائز نہیں۔ لیکن دوسرے علماء نے اس کو استحباب پر محمول کیا ہے۔ کیونکہ خود نبی کریم ﷺ سے بھی وتر کے بعد دو رکعت نفل پڑھنا ثابت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1438   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:998  
998. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: لوگو! رات کی آخری نماز، وتر کو بناؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:998]
حدیث حاشیہ:
(1)
رات کی آخری نماز، وتر کو بنانے کے متعلق مذکورہ امر نبوی استحباب کے لیے ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے نماز وتر کے بعد دو رکعت پڑھنا بھی ثابت ہے، چنانچہ حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر کے بعد دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔
(جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 471)
اور رسول اللہ ﷺ نے امت کو وتر کے بعد دو رکعت پڑھنے کی ترغیب بھی دی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
صبح کے وقت نماز شب کے لیے بیدار ہونا بہت گراں اور مشقت کا باعث ہے، اس لیے وتر کے بعد دو رکعت پڑھ لی جائیں، اگر بیدار ہو جائے تو بہتر بصورت دیگر یہی اس کے لیے کافی ہے۔
(صحیح ابن خزیمة: 159/2)
اس حدیث پر محدث ابن خزیمہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
وتر کے بعد جو نفل نماز پڑھنا چاہے اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد جو دو نفل پڑھتے تھے وہ آپ کا خاصا نہیں بلکہ یہ عمل تمام امت کے لیے مشروع ہے۔
(صحیح ابن خزیمة: 159/2) (2)
اس حدیث سے بعض حضرات نے وتروں کے واجب ہونے کو ثابت کیا ہے لیکن یہ صحیح نہیں، کیونکہ جب صلاۃ اللیل واجب نہیں تو اس کے آخر میں پڑھی جانے والی نماز کیونکر واجب ہو گی، نیز اصل تو کسی چیز کا غیر واجب ہونا ہے تا آنکہ اس کا واجب ہونا دلیل سے ثابت ہو جائے۔
(فتح الباري: 628/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 998