Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
7. باب صفة الصلاة
نماز کی صفت کا بیان
حدیث نمبر: 250
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏إذا تشهد أحدكم فليستعذ بالله من أربع يقول: اللهم إني أعوذ بك من عذاب جهنم ومن عذاب القبر ومن فتنة المحيا والممات ومن فتنة المسيح الدجال» .‏‏‏‏ متفق عليه. وفي رواية لمسلم:«‏‏‏‏إذا فرغ أحدكم من التشهد الأخير» .
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی تشہد پڑھ چکے تو چار چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرے۔ «اللهم إني أعوذ بك من عذاب جهنم ومن عذاب القبر ومن فتنة المحيا والممات ومن فتنة المسيح الدجال» اے اللہ! میں تجھ سے عذاب جہنم سے پناہ مانگتا ہوں اور عذاب قبر سے پناہ طلب کرتا ہوں اور موت و حیات کے فتنہ سے تیری پناہ کا طلبگار ہوں اور مسیح دجال کے فتنہ کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم میں ایک روایت کے یہ الفاظ بھی ہیں۔ جب تم سے کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو۔ تو اس وقت ان چار چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجنائز، باب التعوذ من عذاب القبر، حديث:1377، ومسلم، المساجد، باب ما يستعاذ منه في الصلاة، حديث:588.»

حكم دارالسلام: صحيح

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 250 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 250  
تخریج:
«أخرجه البخاري، الجنائز، باب التعوذ من عذاب القبر، حديث:1377، ومسلم، المساجد، باب ما يستعاذ منه في الصلاة، حديث:588.»
تشریح:
1. تشہد میں درود و سلام کے بعد اس استعاذہ کو ابن حزم نے واجب قرار دیا ہے۔
تابعین میں امام طاؤس رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف تھا بلکہ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ تو دونوں تشہدوں میں استعاذہ واجب سمجھتے ہیں۔
ان کے علاوہ باقی علماء اسے آخری تشہد میں درود کے بعد پڑھنے کو مستحب ہی کہتے ہیں۔
2. اس حدیث سے عذاب قبر کا ثبوت بھی ملتا ہے۔
3. اہل سنت کے نزدیک عذاب قبر برحق ہے اور قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔
اس کا انکار نص قرآن اور حدیث صحیح کا انکار ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 250   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 983  
´تشہد کے بعد آدمی کیا پڑھے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو تو چار چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگے: جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح دجال کے شر سے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 983]
983۔ اردو حاشیہ:
الفاظ اس دعا کے یوں ہوں گے: «اللهم اني اعوذبك من عذاب جهنم ومن عذاب القبر ومن فتنة المحيا والممات ومن فتنة المسيح الدجال» ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 983   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1310  
´ایک اور طرح کے تعوذ کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دعا مانگتے: «اللہم إني أعوذ بك من عذاب القبر وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات اللہم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم‏» اے اللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے، اور پناہ مانگتا ہوں مسیح دجال کے فتنہ سے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں زندگی اور موت کے فتنہ سے، اے اللہ! میں تجھ سے گناہ اور قرض سے پناہ چاہتا ہوں تو کہنے والے نے آپ سے کہا: آپ قرض سے اتنا زیادہ کیوں پناہ مانگتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی جب مقروض ہوتا ہے تو بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، اور وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1310]
1310۔ اردو حاشیہ:
مسیح دجال احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت سے قبل ایک شخص دنیا پر غلبہ حال کر لے گا۔ وہ دنیوی طور پر ترقی یافتہ ہو گا اور لوگوں کو اپنے سائنسی و دیگر کمالات سے مرعوب کرے گا۔ دینی طور پر وہ رب ہونے کا دعویٰ کرے گا اور سب لوگوں کو اپنا کلمہ پڑھوانے کی کوشش کرے گا۔ سخت دغا باز اور دھوکے باز ہو گا۔ یہ دجال کے معنیٰ ہیں۔ مسیح اسے اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ ممسوح العین (کانا) ہو گا۔ یہودی اسے اپنا نجات دہندہ قرار دیں گے۔ وہ اسی کے انتظار میں ہیں، ورنہ حقیقی مسیح تو کب کا آچکا جسے انہوں نے نہ مانا۔ اس جعلی مسیح کو مانیں گے جو ان میں سے ہو گا۔ دونوں آنکھوں سے عیب ناک ہو گا۔ یہودیوں نے حقیقی مسیح عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دینے کی ناپاک جسارت کی تواللہ تعالیٰ نے انہیں یہودیوں کے شر سے بچانے کے لیے زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور قیامت کے نزدیک اللہ تعالیٰ انہیں پھر زمین پر اتارے گا، وہ اس جعلی دھوکے باز مسیح کو قتل کر کے اس کی مسیحیت کا بھانڈا پھوڑ دیں گے اور دنیا کو اس کے ظلم و ستم سے نجات دلائیں گے۔ اس کے قتل سے یہودیت کا خاتمہ ہو جائے گا اور عیسائیت کو عیسیٰ علیہ السلام اپنی زبانی اور اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیں گے۔ عیسائیت کے نشان صلیب اور خنزیر کا نام و نشان مٹائیں گے۔ خالص اسلام کا بول بالا ہو گا۔ ان شاء اللہ۔
زندگی کا فتنہ یہ ہے کہ انسان زندگی میں رب تعالیٰ کا نافرمان رہے۔ دین حق سے برگشتہ رہے۔ زندگی کی خوش نمائیوں میں کھو کر حق تعالیٰ سے غافل رہے۔ اور موت کا فتنہ یہ ہے کہ مرتے وقت شیطان گمراہ کر دے۔ کلمۂ توحید نصیب نہ ہو۔ بری حالت پر موت آئے۔ العیاذ باللہ۔ ممکن ہے اس عذاب قبر، یعنی سوال و جواب میں ناکامی مراد ہو۔ يا مُقَلِّبَ القلوبِ ثَبِّتْ قلوبَنا على دينِكَ۔
➌ اپنے وسائل سے بڑھ کر قرض اٹھانا کہ بعد میں اس ادا نہ کیا جا سکے، درست نہیں ہے۔
➍ وعدہ خلافی کرنا اور جھوٹ بولنا حرام ہے۔
➎ مذکورہ اشیاء سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1310   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1311  
´ایک اور طرح کے تعوذ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی تشہد پڑھے، تو وہ چار چیزوں سے اللہ کی پناہ چاہے: جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، زندگی اور موت کے فتنے سے، اور مسیح دجال کے شر سے، پھر وہ اپنے لیے جو جی چاہے دعا کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1311]
1311۔ اردو حاشیہ: بعض حضرات نے ظاہر الفاظ سے استدلال کرتے ہوئے اس تعوذ کو واجب قرار دیا ہے، ابن حزم اور امام طاوس رحمہما اللہ کا یہی موقف ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ بھی اس کے قائل ہیں۔ دیکھیے: [اصل صفة الصلاة: 998/3، 999] جبکہ جمہور اہل علم کی دلیل وہ احادیث ہیں جن میں ہے کہ آپ نے اس کے بغیر نماز پڑھی یا سکھلائی ہے یا اسے کامل قرار دیا ہے۔ اس ایک روایت کے ایسے معنیٰ مراد نہیں لیے جا سکتے جو باقی تمام احادیث کے خلاف ہوں، لہٰذا جمہور اہل علم کے نزدیک اس دعا کا پڑھنا مستحب ہے۔ اس قسم کے (امر و حکم کے) الفاظ استحباب و تاکید کے لیے بھی آجایا کرتے ہیں۔ باقی احادیث کے پیش نظر یہاں یہی معنیٰ مراد ہیں۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1311   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2062  
´عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے تھے: «اللہم إني أعوذ بك من عذاب القبر وأعوذ بك من عذاب النار وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال» اے اللہ! میں عذاب قبر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، جہنم کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں، زندگی اور موت کی آزمائش سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اور مسیح دجال کی آزمائش سے (بھی) تیری پناہ مانگتا ہوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2062]
اردو حاشہ:
(1) موت کے فتنے سے مراد ممکن ہے موت کے وقت شیطان کے بہکاوے میں آنا ہو یا قبر میں سوال و جواب کے وقت صحیح جواب نہ سوجھنا ہو۔
(2) اس روایت میں عذاب قبر سے مراد دوسرے معنیٰ ہیں۔ (دیکھیے، حدیث: 2058)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2062   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5513  
´زندگی کے فتنے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرو، جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، موت اور زندگی کے فتنے سے اور مسیح دجال (کانا دجال) کے فتنے سے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5513]
اردو حاشہ:
زندگی اورموت کافتنہ گنتی میں دوہیں۔ تبھی پانچ چیزیں بنیں گی یعنی زندگی کافتنہ اورموت کافتنہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5513   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5517  
´قبر کے فتنے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعا میں کہتے ہوئے سنا: «اللہم إني أعوذ بك من فتنة القبر وفتنة الدجال وفتنة المحيا والممات» اے اللہ! میں قبر کے فتنے سے، دجال کے فتنے سے اور موت اور زندگی کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‏‏‏‏ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: حدیث میں (سلیمان بن یسار کے نام میں) غلطی ہے، صحیح سلیمان بن سنان ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5517]
اردو حاشہ:
عذاب قبر اورقبر کی آزمائش الگ الگ ہوں توقبر کی آزمائش سے مراد فرشتوں کےسوالات ہوں گے اورعذاب قبرسے مراد وہ سزا ہے جوکافر منافق اورنافرمان کوسوالات کے بعد قبر میں دی جاتی ہے۔ أعاذنا اللہ منه۔ فرشتوں کے سوالات سے پںاہ کا مطلب ہے کہ میں ان کے صحیح جواب دے سکوں اوراس آزمائش میں کامیاب ہو جاؤں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5517   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5519  
´جہنم کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے اور مسیح دجال (کانا دجال) سے پناہ مانگتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5519]
اردو حاشہ:
مسیح دجال کے شر سے مراد اس کی پیروی سے انکار پرملنے والی سزا ہے یا اس کی پیروی کرنے پرملنے والی سزا۔ پہلی سزا دجال کی طرف سے ہوگی دوسری اللہ تعالی کی طرف سے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5519   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5520  
´(جہنم کی) آگ کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جہنم کی) آگ کے عذاب، قبر کے عذاب، موت اور زندگی کے فتنے اور مسیح دجال (کانا دجال) کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5520]
اردو حاشہ:
اصل تویہی ہے کہ آگ کےعذاب سے مراد جہنم کاعذاب ہے کیونکہ جہنم میں سب بڑا ذریعہ عذاب آگ ہے لیکن ظاہر الفاظ کے لحاظ سے دنیا میں آگ سے جل مرنے کوبھی آگ کا عذاب کہا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔ آئندہ باب اورحدیث میں بھی یہ احتمال ہوسکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5520   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5523  
´جہنم کی آگ کی گرمی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: جس نے تین بار اللہ تعالیٰ سے جنت مانگی تو جنت کہے گی: اے اللہ! اسے جنت میں داخل کر دے اور جس نے تین بار جہنم سے پناہ مانگی تو جہنم کہے گی: اے اللہ! اسے جہنم سے بچا لے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5523]
اردو حاشہ:
جنت جہنم اورآگ وغیرہ اللہ تعالی کی مخلوق ہیں۔ وہ اللہ تعالی سے باتیں کرتی ہیں۔ اللہ تعالی ان سے باتیں فرماتا ہے۔ اس پر کسی کوکوئی اعتراض نہیں ہونا چاہییے اورنہ کوئی تکلیف۔ ارشاد باری تعالی ہے:  ﴿وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ﴾ (بني إسرائیل: 44:17) یہاں حال و قال کی بحث کی ضرورت نہیں۔ یہ خالق ومخلوق کامعاملہ ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5523   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 254  
´نماز کی صفت کا بیان`
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے آخر میں یہ تعوذ پڑھا کرتے تھے «اللهم إني أعوذ بك من البخل وأعوذ بك من الجبن وأعوذ بك من أن أرد إلى أرذل العمر وأعوذ بك من فتنة الدنيا وأعوذ بك من عذاب القبر» اے اللہ! میں تیری پناہ لیتا ہوں بخل سے اور بزدلی سے اور تیری پناہ لیتا ہوں اس سے کہ میں رذیل ترین عمر کی طرف لوٹایا جاؤں اور میں دنیا کے فتنہ اور عذاب قبر سے تیری پناہ لیتا ہوں۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 254»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الجنائز، باب التعوذ من عذاب القبر، حديث:1377.»
تشریح:
1. حدیث کے الفاظ سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ تعوذ اختتام نماز‘ یعنی سلام پھیرنے سے پہلے بھی پڑھا جاسکتا ہے اور سلام پھیرنے کے بعد بھی۔
2. نہایت پر مغز دعا ہے۔
اس کا التزام کرنا چاہیے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابواسحٰق ان کی کنیت ہے۔
باپ کا نام مالک ہے۔
قبیلہ ٔ قریش سے تعلق رکھنے کی بنا پر قرشی کہلائے۔
اور ان کی نسبت زہری بھی ہے۔
اسلام قبول کرنے والوں میں پانچواں نمبر ہے یا ساتواں۔
عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں۔
(جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی ہی میں جنت کی خوشخبری و بشارت دے دی تھی۔
)
اللہ کی راہ میں تیر اندازی کرنے والے یہ پہلے شخص ہیں‘ یعنی سب سے پہلے اللہ کی راہ میں انھوں نے تیر چلایا۔
تمام غزوات میں شریک رہے۔
فاتح عراق ہیں۔
مستجاب الدعوات تھے۔
پست قد مگر گٹھا ہوا بدن‘ گندمی رنگ‘گھنے اور لمبے بالوں والے تھے۔
۵۵ ہجری میں مدینہ سے دس میل دور واقع مقام عقیق میں وفات پائی۔
وہاں سے ان کی میت کندھوں پر اٹھا کر مدینہ طیبہ لائی گئی اور جنت البقیع میں دفن کیے گئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 254   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث909  
´تشہد اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود (نماز) کے بعد کیا دعا پڑھے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص آخری تشہد (تحیات اور درود) سے فارغ ہو جائے تو چار چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگے: جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، موت و حیات کے فتنے سے، اور مسیح دجال کے فتنے سے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 909]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
آخری تشہد میں سلام سے پہلے اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت کی بھلائی اور اپنی حاجات طلب کرنے کا موقع ہے۔
اس موقع کے لئے اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے۔
 (ثُمَّ لِيَتَخَيَّرُ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ أِلَيْهِ فَيَدْعُو)
 (صحيح البخاري، الأذان، باب ما یتخیر من الدعاء بعد التشھد ولیس بواجب، حدیث: 835)
پھر (تشہد کے بعد)
اسے جو دعا زیادہ پسند ہو۔
وہ منتخب کرلے اور دعا کرے۔

(2)
پسند کی دعا منتخب کرنے کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعایئں واجب نہیں۔
البتہ ثواب کا باعث ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہی استنباط فرمایا ہے۔

(3)
اسے چاہیے کہ چار چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگےاس حکم کی تعمیل اس طرح ہوسکتی ہے۔
کہ ہم پڑھیں۔ (اللهم إِنِّي أَعُوْذُبِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ)
  اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں۔
جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، زندگی اور موت کے فتنے سے، اور مسیح دجال کے فتنے سے یہ دعا الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ مختلف روایات میں آئے ہے۔
مثلاً ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں۔ (اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَحْيَا، وَفِتْنَةِ المَمَاتِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ المَأْثَمِ وَالمَغْرَمِ فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ:
مَا أَكْثَرَ مَا تَسْتَعِيذُ مِنَ المَغْرَمِ،)
(صحیح البخاري، الأذان، باب الدعا قبل السلام، حدیث: 832)
اے اللہ! میں عذاب قبر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
اور مسیح دجال کے فتنہ سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
اور زندگی اور موت کے فتنہ سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
اے اللہ! میں گناہ اور تاوان (قرض وغیرہ)
سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 909   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1010  
1010- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ سے اللہ کے عذاب کی پناہ مانگو، اللہ تعالیٰ سے موت کے فتنے سے پناہ مانگو، اللہ تعالیٰ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگو۔ اللہ تعالیٰ سے دجال کے فتنے سے پناہ مانگو۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1010]
فائدہ:
اس حدیث میں عام ذکر ہے کہ جب بھی انسان چاہے یہ دعا پڑھ سکتا ہے لیکن نماز میں درود شریف کے بعد اس دعا کا پڑھنا واجب ہے (صحیح البخاری)
ہر انسان کو ان اعمال سے پرہیز کرنا چاہیے جو جہنم میں لے جاتے ہیں اور ہمیشہ وہی اعمال کرنے چاہئیں جو جنت میں داخلے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ تمام فتنے حق ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں، ان سے محفوظ فرمائے، آمین۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1011   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1324  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی تشہد پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ سے چار چیزوں سے پناہ طلب کرے، آپﷺ فرماتے تھے: اے اللہ! میں جہنم کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے اور زندگی اور موت کی آزمائش سے اور مسیح دجال کے فتنہ کے شر سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1324]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ دعا دنیا وآخرت کے آفات ومصائب سے حفاظت کے لیے بڑی جامع ہے۔
سب سے پہلے جہنم کے عذاب سے پناہ مانگی ہے۔
جو شدید ترین اور ناقابل تصور عذاب ہے اور انسان کی سب سے بڑی شقاوت اور بدبختی ہے۔
پھر قبر کے عذاب سے پناہ مانگی ہے جو درحقیقت عذاب جہنم کا ہی ایک رخ یا پیش خیمہ ہے۔
جو عذاب قبر سے محفوظ رہا وہ دوزخ کے عذاب سے محفوظ رہے گا کیونکہ قبر،
آخرت کی منزلوں میں سے سب سے پہلی منزل ہے۔
اگر بندہ اس سے نجات پا گیا تو آگے کی منزلیں آسان ہیں اور اگر انسان قبر کی منزل سے نجات نہ پا سکا تو اس کے بعد کی منزلیں تو بہت زیادہ سخت اور کٹھن ہیں۔
اس کے بعد آپﷺ نے زندگی اور موت کے فتنوں سے پناہ مانگی ہے۔
زندگی میں انسان اپنے اہل واولاد عزیز واقارب دوست واحباب کی محبت اپنی نفسانی خواہشات دنیوی اغراض ومقاصد نادانی وجہالت کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے احکام وہدایات کو نظر انداز کرتا ہے۔
یا گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے اور موت کا فتنہ یہ ہے کہ انسان مرتے وقت ایمان پر قائم نہ رہے یا مرتے وقت غلط وصیت کر جائےموت کی سختی سے جزع وفزع کرے اور زبان سے غلط الفاظ نکال بیٹھے،
آخر میں آپﷺ نے دجال کے شر سے پناہ مانگی،
کیونکہ یہ دنیا میں برپا ہونےوالے فتنوں میں سے سب سے بڑا اور مشکل فتنہ ہو گا۔
جس میں ایمان کا سلامت رکھنا بڑا کٹھن ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1324   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1377  
1377. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے:اے اللہ!میں عذاب قبر سے اور عذاب جہنم سے، زندگی اور موت کے فتنے سے اورمسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1377]
حدیث حاشیہ:
عذاب قبر کے بارے میں علامہ شیخ سفارینی الاثری ؒ اپنی مشہور کتاب لوامع أنوار البهیة میں فرماتے ہیں۔
(وَمِنْهَا)
أَيِ الْأُمُورِ الَّتِي يَجِبُ الْإِيمَانُ بِهَا وَأَنَّهَا حَقٌّ لَا تُرَدُّ عَذَابُ الْقَبْرِ قَالَ الْحَافِظُ جَلَالُ الدِّينِالسُّيُوطِيُّ فِي كِتَابِهِ " شَرْحُ الصُّدُورِ فِي أَحْوَالِ الْمَوْتَى وَالْقُبُورِ " وَقَدْ ذَكَرَ اللَّهُ عَذَابَ الْقَبْرِ فِي الْقُرْآنِ فِي عِدَّةِ أَمَاكِنَ كَمَا بَيَّنْتُهُ فِي الْإِكْلِيلِ فِي أَسْرَارِ التَّنْزِيلِ. انْتَهَى.قَالَ الْحَافِظُ ابْنُ رَجَبٍ فِي كِتَابِهِ أَهْوَالِ الْقُبُورِ فِي «قَوْلِهِ تَعَالَى:
{فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ} [الواقعة: 83] - إِلَى قَوْلِهِ - {إِنَّ هَذَا لَهُوَ حَقُّ الْيَقِينِ} [الواقعة: 95] عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ:
تَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَاتِ فَقَالَ:
" إِذَا كَانَ عِنْدَ الْمَوْتِ قِيلَ لَهُ هَذَا، فَإِنْ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ وَأَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشِّمَالِ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ وَكَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ»
". وَأَخْرَجَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:
" «مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ " فَأَكَبَّ الْقَوْمُ يَبْكُونَ قَالَ " مَا يُبْكِيكُمْ؟ " قَالُوا إِنَّا نَكْرَهُ الْمَوْتَ قَالَ لَيْسَ ذَلِكَ وَلَكِنَّهُ إِذَا حَضَرَ فَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ فَرَوْحٌ وَرَيْحَانٌ وَجَنَّةُ نَعِيمٍ، فَإِذَا بُشِّرَ بِذَلِكَ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ وَاللَّهُ لِلِقَائِهِ أَحَبُّ، وَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِينَ فَنُزُلٌ مِنْ حَمِيمٍ وَتَصْلِيَةُ جَحِيمٍ، فَإِذَا بُشِّرَ بِذَلِكَ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ وَاللَّهُ لِلِقَائِهِ أَكْرَهُ» ". وَقَالَ الْإِمَامُ الْمُحَقِّقُ ابْنُ الْقَيِّمِ فِي كِتَابِ الرُّوحِ قَوْلُ السَّائِلِ مَا الْحِكْمَةُ فِي أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ لَمْ يُذْكَرْ فِي الْقُرْآنِ صَرِيحًا مَعَ شِدَّةِ الْحَاجَةِ إِلَى مَعْرِفَتِهِ وَالْإِيمَانِ بِهِ لِيَحْذَرَهُ النَّاسُ وَيُتَّقَى؟ فَأَجَابَ عَنْ ذَلِكَ بِوَجْهَيْنِ مُجْمَلٍ وَمُفَصَّلٍ أَمَّا الْمُجْمَلُ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَنْزَلَ عَلَى رَسُولِهِ وَحْيَيْنِ فَأَوْجَبَ عَلَى عِبَادِهِ الْإِيمَانَ بِهِمَا وَالْعَمَلَ بِمَا فِيهِمَا وَهُمَا الْكِتَابُ وَالْحِكْمَةُ قَالَ تَعَالَى {وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ} [النساء: 113] وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى {هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ} [الجمعة: 2] - إِلَى قَوْلِهِ - {وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ} [الجمعة: 2] وَقَالَ تَعَالَى {وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ} [الأحزاب: 34] الْآيَةَ وَالْحِكْمَةُ هِيَ السُّنَّةُ بِاتِّفَاقِ السَّلَفِ، وَمَا أَخْبَرَ بِهِ الرسول عن اللہ فَهُوَ فِي وُجُوبِ تَصْدِيقِهِ وَالْإِيمَانِ بِهِ كَمَا أَخْبَرَ بِهِ الرَّبُّ عَلَى لِسَانِ رَسُولِهِ، فَهَذَا أَصْلٌ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ بَيْنَ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا يُنْكِرُهُ إِلَّا مَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " «إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ» ". قَالَ الْمُحَقِّقُ:
وَأَمَّا الْجَوَابُ الْمُفَصَّلُ فَهُوَ أَنَّ نَعِيمَ الْبَرْزَخِ وَعَذَابَهُ مَذْكُورٌ فِي الْقُرْآنِ فِي مَوَاضِعَ (مِنْهَا)
قَوْلُهُ تَعَالَى {وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ} [الأنعام: 93] الْآيَةَ وَهَذَا خِطَابٌ لَهُمْ عِنْدَ الْمَوْتِ قَطْعًا وَقَدْ أَخْبَرَتِ الْمَلَائِكَةُ وَهُمُ الصَّادِقُونَ أَنَّهُمْ حِينَئِذٍ يُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ، وَلَوْ تَأَخَّرَ عَنْهُمْ ذَلِكَ إِلَى انْقِضَاءِ الدُّنْيَا لَمَا صَحَّ أَنْ يُقَالَ لَهُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ، وَقَوْلُهُ تَعَالَى {فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا} [غافر: 45] - إِلَى قَوْلِهِ - {يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا} [غافر: 46] الْآيَةَ فَذَكَرَ عَذَابَ الدَّارَيْنِ صَرِيحًا لَا يُحْتَمَلُ غَيْرُهُ. وَمِنْهَا قَوْلُهُ تَعَالَى {فَذَرْهُمْ حَتَّى يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي فِيهِ يُصْعَقُونَ يَوْمَ لَا يُغْنِي عَنْهُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ} [الطور: 45] انْتَهَى كَلَامُهُ. وَأَخْرَجَ الْبُخَارِيُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:
«كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ» " وَأَخْرَجَ التِّرْمِذِيُّ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:
مَا زِلْنَا فِي شَكٍّ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ حَتَّى نَزَلَتْ {أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ} [التكاثر: 1] . وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ:
إِذَا مَاتَ الْكَافِرُ أُجْلِسَ فِي قَبْرِهِ فَيُقَالُ لَهُ مَنْ رَبُّكَ وَمَا دِينُكَ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي فَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ - ثُمَّ قَرَأَ ابْنُ مَسْعُودٍ " فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا " قَالَ الْمَعِيشَةُ الضَّنْكُ هِيَ عَذَابُ الْقَبْرِ. وَقَالَ الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِهِ تَعَالَى " {عَذَابًا دُونَ ذَلِكَ} [الطور: 47] " قَالَ عَذَابَ الْقَبْرِ. وَرُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِهِ تَعَالَى {وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ} [السجدة: 21] (قَالَ عَذَابُ الْقَبْرِ)
. وَكَذَا قَالَ قَتَادَةُ وَالرَّبِيعُ بْنُ أَنَسٍ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى " سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ":
إِحْدَاهُمَا فِي الدُّنْيَا وَالْأُخْرَى عَذَابُ الْقَبْرِ. اس طویل عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ عذاب قبر حق ہے جس پر ایمان لانا واجب ہے۔
اللہ پاک نے قرآن مجید کی متعدد آیات میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔
تفصیلی ذکر حافظ جلال الدین سیوطی ؒ کی کتاب ''شرح الصدور'' اور ''اکلیل في أسرار التنزیل'' میں موجود ہے۔
حافظ ابن رجب نے اپنی کتاب ''أحوال القبور'' میں آیت شریفہ:
{فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ} (الواقعة: 83)
کی تفسیر میں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کو تلاوت فرمایا اور فرمایا کہ جب موت کا وقت آتا ہے تو مرنے والے سے یہ کہا جاتا ہے۔
پس اگر وہ مرنے والا دائیں طرف والوں میں سے ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے اور اگر وہ مرنے والا بائیں طرف والوں میں سے ہے تو وہ اللہ کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے اور اللہ پاک اس کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے۔
اور علامہ محقق امام ابن قیم ؒ نے کتاب الروح میں لکھا ہے کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ اس امر میں کیا حکمت ہے کہ صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں عذاب قبر کا ذکر نہیں ہے حالانکہ یہ ضروری تھا کہ اس پر ایمان لانا ضروری ہے تاکہ لوگوں کو اس سے ڈر پیدا ہو۔
حضرت علامہ نے اس کا جواب مجمل اور مفصل ہردو طور پر دیا۔
مجمل تو یہ دیا کہ اللہ نے اپنے رسول ﷺ پر دو قسم کی وحی نازل کی ہے اور ان دونوں پر ایمان لانا اور ان دونوں پر عمل کرنا واجب قرار دیا ہے اور وہ کتاب اور حکمت ہیں، جیسا کہ قرآن مجید کی کئی آیات میں موجود ہے اور سلف صالحین سے متفقہ طور پر حکمت سے سنت (حدیث نبوی)
مراد ہے اب عذاب قبر کی خبر اللہ کے رسول ﷺ نے صحیح احادیث میں دی ہے۔
پس وہ خبر یقینا اللہ ہی کی طرف سے ہے جس کی تصدیق واجب ہے اور جس پر ایمان رکھنا فرض ہے۔
(جیسا کہ رب تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان حقیقت ترجمان سے صحیح احادیث میں عذاب قبر کے متعلق بیان کرایا ہے)
پس یہ اصول اہل اسلام میں متفقہ ہے اس کا وہی شخص انکار کرسکتا ہے جو اہل اسلام سے باہر ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ خبردار رہو کہ میں قرآن مجید دیا گیا ہوں اور اس کی مثال ایک اور کتاب (حدیث)
بھی دیا گیا ہوں۔
پھر محقق علامہ ابن قیم نے تفصیلی جواب میں فرمایا کہ برزخ کا عذاب قرآن مجید کی بہت سی آیات سے ثابت ہے اور برزخ کی بہت سی نعمتوں کا بھی قرآن مجید میں ذکر موجود ہے۔
(یہی عذاب وثواب قبر ہے)
ان آیات میں سے ایک آیت {وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ} (الأنعام: 93)
بھی ہے (جس میں ذکر ہے کہ اگر تو ظالموں کو موت کی بے ہوشی کے عالم میں دیکھے)
ان کے لیے موت کے وقت یہ خطاب قطعی ہے اور اس موقع پر فرشتوں نے خبردی ہے جو بالکل سچے ہیں کہ ان کافروں کو اس دن رسوائی کا عذاب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ عذاب تمہارے لیے اس وجہ سے ہے کہ تم اللہ پر ناحق جھوٹی باتیں باندھا کرتے تھے اور تم اس کی آیات سے تکبر کیا کرتے تھے۔
یہاں اگر عذاب کو دنیا کے خاتمہ پر مؤخر مانا جائے تو یہ صحیح نہیں ہوگا یہاں تو آج کا دن استعمال کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تم کو آج کے دن رسوائی کا عذاب ہوگا۔
اس آج کے دن سے یقینا قبر کے عذاب کا دن مراد ہے۔
اور دوسری آیت میں یوں مذکور ہے کہ {وَحَاقَ بِاٰلِ فِرعَونَ سُوئُ العَذَابِ o {يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا} (المؤمن: 45,46)
یعنی فرعونیوں کو سخت ترین عذاب نے گھیرلیا جس پر وہ ہر صبح وشام پیش کئے جاتے ہیں۔
اس آیت میں عذاب دارین کا صریح ذکر ہے اس کے سوا اور کسی کا احتمال ہی نہیں (دارین سے قبر کا عذاب اور پھر قیامت کے دن کا عذاب مراد ہے)
تیسری آیت شریفہ {فَذَرْهُمْ حَتَّى يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي فِيهِ يُصْعَقُونَ} (الطور: 45)
ہے۔
یعنی اے رسول! ان کافروں کو چھوڑ دیجئے۔
یہاں تک کہ وہ اس دن سے ملاقات کریں جس میں وہ بے ہوش کردئیے جائیں گے‘ جس دن ان کا کوئی مکر ان کے کام نہیں آسکے گا اور نہ وہ مدد کئے جائیں گے۔
(اس آیت میں بھی اس دن سے موت اور قبر کا دن مراد ہے)
بخاری شریف میں حدیث ابی ہریرہ ؓ میں ذکر ہے کہ رسول کریم ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔
«اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ» اے اللہ! میں تجھ سے عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور ترمذی میں حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ عذاب قبر کے بارے میں ہم مشکوک رہا کرتے تھے۔
یہاں تک کہ آیات {أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ} (التکاثر: 2‘1)
نازل ہوئی (گویا ان آیات میں بھی مراد قبر کا عذاب ہی ہے)
حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ جب کافر مرتا ہے تو اسے قبر میں بٹھایا جاتا ہے اور اس سے پوچھا جاتا ہے تیرا رب کون ہے؟ اور تیرا دین کیا ہے۔
وہ جواب دیتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔
پس اس کی قبر اس پر تنگ کردی جاتی ہے۔
پس حضرت ابن مسعود ؓ نے آیت وَمَن أَعرَضَ عَن ذِکرِي فَاِنَّ لَهُ مَعِیشَة ضَنکاً (طہ: 124)
کو پڑھا (کہ جو کوئی ہماری یاد سے منہ موڑے گا اس کو نہایت تنگ زندگی ملے گی)
یہاں تنگ زندگی سے قبر کا عذاب مراد ہے۔
حضرت براءبن عازب نے آیت شریفہ {وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ} (السجدة: 21)
کی تفسیر میں فرمایا کہ یہاں بھی عذاب قبر ہی کا ذکر ہے۔
یعنی کافروں کو بڑے سخت ترین عذاب سے پہلے ایک ادنیٰ عذاب میں داخل کیا جائے گا (اور وہ عذاب قبر ہے)
ایسا ہی قتادہ اور ربیع بن انس نے آیت شریفہ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَینِ (التوبة: 101) (ہم ان کو دو دفعہ عذاب میں مبتلا کریں گے۔
)

کی تفسیر میں فرمایا ہے۔
کہ ایک عذاب سے مراد دنیا کا عذاب اور دوسرے سے مراد قبر کا عذاب ہے۔
قال الحافظ ابن رجب وقد تواترت الأحادیث عن النبي ﷺ في عذاب القبر۔
یعنی حافظ ابن رجب فرماتے ہیں کہ عذاب قبر کے بارے میں نبی کریم ﷺ سے متواتر احادیث مروی ہیں جن سے عذاب قبر کا حق ہونا ثابت ہے۔
پھر علامہ نے ان احادیث کا ذکر فرمایا ہے۔
جیسا کہ یہاں بھی چند احادیث مذکور ہوئی ہیں۔
باب اثبات عذاب القبر پر حضرت حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
لم يَتَعَرَّضِ الْمُصَنِّفُ فِي التَّرْجَمَةِ لِكَوْنِ عَذَابِ الْقَبْرِ يَقَعُ عَلَى الرُّوحِ فَقَطْ أَوْ عَلَيْهَا وَعَلَى الْجَسَدِ وَفِيهِ خِلَافٌ شَهِيرٌ عِنْدَ الْمُتَكَلِّمِينَ وَكَأَنَّهُ تَرَكَهُ لِأَنَّ الْأَدِلَّةَ الَّتِي يَرْضَاهَا لَيْسَتْ قَاطِعَةً فِي أَحَدِ الْأَمْرَيْنِ فَلَمْ يَتَقَلَّدِ الْحُكْمَ فِي ذَلِكَ وَاكْتَفَى بِإِثْبَاتِ وُجُودِهِ خِلَافًا لِمَنْ نَفَاهُ مُطْلَقًا مِنَ الْخَوَارِجِ وَبَعْضِ الْمُعْتَزِلَةِ كَضِرَارِ بْنِ عَمْرٍو وَبِشْرٍ الْمَرِيسِيِّ وَمَنْ وَافَقَهُمَا وَخَالَفَهُمْ فِي ذَلِكَ أَكْثَرُ الْمُعْتَزِلَةِ وَجَمِيعُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَغَيْرِهِمْ وَأَكْثَرُوا مِنَ الِاحْتِجَاجِ لَهُ وَذَهَبَ بَعْضُ الْمُعْتَزِلَةِ كَالْجَيَّانِيِّ إِلَى أَنَّهُ يَقَعُ عَلَى الْكُفَّارِ دُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَبَعْضُ الْأَحَادِيثِ الْآتِيَةِ تَرُدُّ عَلَيْهِمْ أَيْضًا۔
(فتح الباري)
خلاصہ یہ کہ مصنف (امام بخاری ؒ)
نے اس بارے میں کچھ تعرض نہیں فرمایا کہ عذاب قبر فقط روح کو ہوتا ہے یا روح اور جسم ہر دو پر ہوتا ہے۔
اس بارے میں متکلمین کا بہت اختلاف ہے۔
حضرت امام نے قصداً اس بحث کو چھوڑ دیا۔
اس لیے کہ ان کے حسب منشاء کچھ دلائل قطعی اس بارے میں نہیں ہیں۔
پس آپ نے ان مباحث کو چھوڑ دیا اور صرف عذاب قبر کے وجود کو ثابت کردیا۔
جب کہ خوارج اور کچھ معتزلہ اس کا انکار کرتے ہیں جیسے ضرار بن عمرو‘ بشر مریسی وغیرہ اور ان لوگوں کی جملہ اہلسنت بلکہ کچھ معتزلہ نے بھی مخالفت کی ہے اور بعض معتزلہ جیانی وغیرہ ادھر گئے ہیں کہ عذاب قبر صرف کافروں کو ہوتا ہے ایمان والوں کو نہیں ہوتا۔
مذکور بعض احادیث ان کے اس غلط عقیدہ کی تردید کررہی ہیں۔
بہرحال عذاب قبر برحق ہے جو لوگ اس بارے میں شکوک وشبہات پیدا کریں ان کی صحبت سے ہر مسلمان کو دور رہنا واجب ہے اور ان کھلے ہوئے دلائل کے بعد بھی جن کی تشفی نہ ہو، ان کی ہدایت کے لیے کوشاں ہونا بیکار محض ہے۔
وباللہ التوفیق۔
تفصیل مزید کے لیے حضرت مولانا الشیخ عبیداللہ صاحب مبارک پوری ؒ کا بیان ذیل قابل مطالعہ ہے حضرت موصوف لکھتے ہیں:
(باب إثبات عذاب القبر)
قال في اللمعات:
المراد بالقبر هنا عالم البرزخ، قال تعالى:
{ومن ورائهم برزخ إلى يوم يبعثون} [100: 23] وهو عالم بين الدنيا والآخرة له تعلق بكل منهما، وليس المراد به الحفرة التي يدفن فيها الميت، فرب ميت لا يدفن كالغريق، والحريق، والمأكول في بطن الحيوانات، يعذب، وينعم، ويسأل، وإنما خص العذاب بالذكر للاهتمام، ولأن العذاب أكثر لكثرة الكفار والعصاة -انتهى. قلت:
حاصل ما قيل في بيان المراد من البرزخ أنه اسم لأنقطاع الحياة في هذا العالم المشهود، أي دار الدنيا، وابتداء حياة أخرى، فيبدأ شيء من العذاب أو النعيم بعد إنقطاع الحياة الدنيوية، فهو أول دار الجزاء، ثم توفى كل نفس ما كسبت يوم القيامة عند دخولها في جهنم أو الجنة، وإنما أضيف عذاب البرزخ ونعيمه إلى القبر لكون معظمه يقع فيه، ولكون الغالب على الموتى أن يقبروا، وإلا فالكافر ومن شاء الله عذابه من العصاة يعذب بعد موته ولو لم يدفن، ولكن ذلك محجوب عن الخلق إلا من شاءالله. وقيل:
لا حاجة إلى التأويل فإن القبر اسم للمكان الذي يكون في الميت من الأرض، ولا شك أن محل الإنسان ومسكنه بعد انقطاع الحياة الدنيوية هي الأرض كما أنها كانت مسكناً له في حياته قبل موته، قال تعالى {ألم نجعل الأرض كفاتاً، أحياء وأمواتاً} [77: 25، 26] أي ضامة للأحياء والأموات، تجمعهم وتضمهم وتحوزهم، فلا محل للميت إلا الأرض، سواء كان غريقاً أو حريقاً أو مأكولاً في بطن الحيوانات من السباع على الأرض، والطيور في الهواء، والحيتان في البحر، فإن الغريق يرسب في الماء فيسقط إلى أسفله من الأرض، أو الجبل إن كان تحته جبل، وكذا الحريق بعد ما يصير رماداً لا يستقر إلا على الأرض سواء أذرى في البر أو البحر، وكذا المأكول، فإن الحيوانات التي تأكله لا تذهب بعد موتها إلا إلى الأرض، فتصير تراباً. والحاصل أن الأرض محل جميع الأجسام السفلية ومقرها لا ملجأ لها إلا إليها فهي كفات لها. واعلم أنه قد تظاهرت الدلائل من الكتاب والسنة على ثبوت عذاب القبر، وأجمع عليه أهل السنة، ولا مانع في العقل أن يعيد الله الحياة في جزء من الجسد أو في جميعه على الخلاف المعروف فيثيبه ويعذبه، وإذا لم يمنعه العقل، وورد به الشرع وجب قبوله واعتقاده، ولا يمنع من ذلك كون الميت قد تفرقت أجزاءه كما يشاهد في العادة، أو أكلته السباع، والطيور، وحيتان البحر، كما أن الله تعالى يعيده للحشر وهو قادر على ذلك، فلا يستبعد تعلق روح الشخص الواحد في آن واحد بكل واحد من أجزائه المتفرقة في المشارق والمغارب، فإن تعلقه ليس على سبيل الحلول حتى يمنعه الحلول في جزء من الحلول في غيره، فلا استحالة في تعذيب ذرات الجسم في محالها، كيف وقد ثبت بالعقل والنقل الشعور في الجمادات؟ قال في مصابيح الجامع:
وقد كثرت الأحاديث في عذاب القبر حتى قال غير واحد:
إنها متواترة لا يصح عليها التواطئ وإن لم يصح مثلها لم يصح شيء من أمر الدين آخرہ۔
(مرعاة، جلد:
اول/ ص: 130)

مختصر مطلب یہ کہ لمعات میں ہے کہ یہاں قبر سے مراد عالم برزخ ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ مرنے والوں کے لیے قیامت سے پہلے ایک عالم اور ہے جس کا نام برزخ ہے اور یہ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک عالم ہے جس کا تعلق دونوں سے ہے اور قبر سے وہ گڑھا مراد نہیں جس میں میت کو دفن کیا جاتا ہے کیونکہ بہت سی میت دفن نہیں کی جاتی ہیں جیسے ڈوبنے والا اور جلنے والا اور جانوروں کے پیٹوں میں جانے والا۔
حالانکہ ان سب کو عذاب وثواب ہوتا ہے اور ان سب سے سوال جواب ہوتے ہیں اور یہاں عذاب کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے‘ اس لیے کہ اس کاخاص اہتمام ہے اور اس لیے کہ اکثر طور پر گنہگاروں اور جملہ کافروں کے لیے عذاب ہی مقدر ہے۔
میں کہتا ہوں کہ حاصل یہ ہے کہ برزخ اس عالم کا نام ہے جس میں دار دنیا سے انسان زندگی منقطع کرکے ابتدائے دار آخرت میں پہنچ جاتا ہے۔
پس دنیاوی زندگی کے انقطاع کے بعد وہ پہلا جزا اور سزا کا گھر ہے پھر قیامت کے دن ہر نفس کو اس کا پورا پورا بدلہ جنت یا دوزخ کی شکل میں دیا جائے گا اور عذاب اور ثواب برزخ کو قبر کی طرف اس لیے منسوب کیا گیا ہے کہ انسان اسی کے اندر داخل ہوتا ہے اور اس لیے بھی کہ غالب موتی قبر ہی میں داخل کئے جاتے ہیں ورنہ کافر اور گنہگار جن کو اللہ عذاب کرنا چاہے اس صورت میں بھی وہ ان کو عذاب کرسکتا ہے کہ وہ دفن نہ کئے جائیں۔
یہ عذاب مخلوق سے پردہ میں ہوتا ہے الامن شاءاللہ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تاویل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قبر اسی جگہ کا نام ہے جہاں میت کا زمین میں مکان بنے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مرنے کے بعد انسان کا آخری مکان زمین ہی ہے۔
جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ ہم نے تمہارے لیے زمین کو زندگی اور موت ہر حال میں ٹھکانا بنایا ہے۔
وہ زندہ اور مردہ سب کو جمع کرتی ہے اور سب کو شامل ہے پس میت ڈوبنے والے کی ہو یا جلنے والے کی یا بطن حیوانات میں جانے والے کی خواہ زمین کے بھیڑیوں کے پیٹ میں جائے یا ہوا میں پرندوں کے شکم میں یا دریا میں مچھلیوں کے پیٹ میں‘ سب کا نتیجہ مٹی ہونا اور زمین ہی میں ملنا ہے اور جان لوکہ کتاب وسنت کے ظاہر دلائل کی بناپر عذاب قبر برحق ہے جس پر جملہ اہل اسلام کا اجماع ہے اور اس بارے میں اس قدر تواتر کے ساتھ احادیث مروی ہیں کہ اگر ان کو بھی صحیح نہ تسلیم کیا جائے تو دین کا پھر کوئی بھی امر صحیح نہیں قرار دیا جاسکتا۔
مزید تفصیل کے لیے کتاب الروح علامہ ابن قیم کا مطالعہ کیا جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1377   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1377  
1377. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے:اے اللہ!میں عذاب قبر سے اور عذاب جہنم سے، زندگی اور موت کے فتنے سے اورمسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1377]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت جتنی بھی احادیث بیان کی ہیں، ان کا تعلق عنوان سابق سے تھا، لیکن انہیں الگ عنوان دے کر بیان کیا گیا ہے، کیونکہ پہلا عنوان تو ان لوگوں کی تردید کے لیے تھا جو عذاب قبر کے منکر تھے اور مذکورہ عنوان اس لیے قائم کیا ہے کہ ایسے موقع پر ہمیں اللہ کی پناہ لینی چاہیے اور اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے، کیونکہ اس کے سوا اور کوئی بھی عذاب قبر سے نجات نہیں دے سکتا۔
(فتح الباري: 306/3) (2)
عذاب قبر کے ساتھ فتنہ دجال کو ملحق کیا ہے، کیونکہ فتنہ دجال اس قدر سنگین ہو گا کہ اس کا اثر قبور تک بھی پہنچے گا، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ ابتلا ان معاصی کے آثار میں سے ہو گا جو دنیا میں کیے تھے۔
واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کا عذاب قبر اور فتنہ دجال سے پناہ مانگنا امت کی تعلیم کے لیے ہے وگرنہ آپ عذاب قبر سے محفوظ اور فتنہ دجال سے مامون ہیں۔
صلی اللہ علیه وسلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1377