Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
31. بَابُ مَرْجَعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الأَحْزَابِ وَمَخْرَجِهِ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ وَمُحَاصَرَتِهِ إِيَّاهُمْ:
باب: غزوہ احزاب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واپس لوٹنا اور بنو قریظہ پر چڑھائی کرنا اور ان کا محاصرہ کرنا۔
حدیث نمبر: 4119
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ , حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ:" لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ" , فَأَدْرَكَ بَعْضُهُمُ الْعَصْرَ فِي الطَّرِيقِ , فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا نُصَلِّي حَتَّى نَأْتِيَهَا , وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ نُصَلِّي لَمْ يُرِدْ مِنَّا ذَلِكَ , فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ.
ہم سے محمد بن عبداللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ غزوہ احزاب کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام مسلمان عصر کی نماز بنو قریظہ تک پہنچنے کے بعد ہی ادا کریں۔ بعض حضرات کی عصر کی نماز کا وقت راستے ہی میں ہو گیا۔ ان میں سے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے تو کہا کہ ہم راستے میں نماز نہیں پڑھیں گے۔ (کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ میں نماز عصر پڑھنے کے لیے فرمایا ہے) اور بعض صحابہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا منشا یہ نہیں تھا۔ (بلکہ جلدی جانا مقصد تھا) بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا تذکرہ ہوا تو آپ نے کسی پر خفگی نہیں فرمائی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4119 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4119  
حدیث حاشیہ:
جب رسول کریم ﷺ غزوئہ خندق سے کامیابی کے ساتھ واپس ہوئے تو ظہر کے وقت حضرت جبریل ؑ تشریف لا کر کہنے لگے کہ اللہ تعالی کا حکم آپ کے لیے یہ ہے کہ آپ فوراًبنو قریظہ کی طرف چلیں۔
آپ نے حضرت بلال ؓ کو پکارنے کے لیے حکم فرمایا کہ من کان سامعا مطیعا فلا یصلین العصر إلا في بني قریظة۔
یعنی جو بھی سننے والا فرمانبردارمسلمان ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ عصرکی نماز بنی قریظہ میں پہنچ کر پڑھے۔
وقال ابن القیم في الھدي ما حصله کل من الفریقین ما جور بقصدہ إلا أن من صلی حاز الفضیلتین امتثال الأمر في الإسراع وامتثال الأمر في المحافظة علی الوقت ولا سیما ما في ھذہ الصلاة بعینها من الحث علی المحافظة علیها وإن من فاته حبط و إنما لم یعنف الذین أخروھا لقیام عذرھم في التمسك بظاهر الأمر اجتھدوا فأخروا لامتثالھم الأمر لکنھم لم یصلوا إلی أن یکون اجتھادھم أصوب من اجتھادالطائفة الأخری الخ وقد استدل به الجمھور علی عدم تأثیم من اجتھد لأنه صلی اللہ علیه وسلم لم یعنف أحدا من الطائفتین فلو کا ن ھناك أثم لعنف من أثم (فتح الباري)
خلاصہ یہ کہ آنحضرت ﷺ نے اعلان کرایا کہ جو بھی مسلمان سننے والا اور فرمانبرداری کرنے والا ہے اس کا فرض ہے کہ نماز عصر بنوقریظہ ہی میں ادا کرے۔
علامہ ابن قیم ؒ نے زاد المعاد میں کہا ہے کہ دونوں فریق اجر وثواب کے حقدار ہوئے۔
مگر جس نے وقت ہونے پر راستہ ہی میں نماز ادا کرلی اس نے دونوں فضیلتوں کو حاصل کر لیا۔
پہلی فضیلت نماز عصر کی اس کے اول وقت میں ادا کرنے کی کیونکہ اس نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنے کی خاص تاکید ہے اور یہاں تک ہے کہ جس کی نماز عصر فوت ہو گئی اس کا عمل ضائع ہو گیا۔
اس طرح اس فریق کو اول وقت نماز پڑھنے اور پھر بنو قریظہ پہنچ جانے کا ثواب حاصل ہوا اور دوسرا فریق جس نے نمازعصر میں تاخیر کی اور ظاہر فرما ن رسول پر عمل کیا ان پر کوئی نکتہ چینی نہیں کی گئی کیو نکہ انہوں نے اپنے اجتہاد سے فرمان رسالت پر عمل کرنے کے لیے نماز کو تاخیر سے بنو قریظہ ہی میں جاکر ادا کیا۔
ان کا اجتہاد پہلی جماعت سے زیادہ صواب کے قریب رہا۔
اسی سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ اجتہاد کرنے والا گنہگار نہیں ہے۔
(اگر وہ اجتہاد میں غلطی بھی کر جائے۔
)

اس لیے کہ نبی کریم ﷺ نے دونوں قسم کے لوگوں میں سے کسی پر بھی نکتہ چینی نہیں فرمائی۔
اگر ان میں کوئی گنہگار قرار پاتا تو آنحضرت ﷺ ضرور اس کو تنبیہ فرماتے۔
راقم الحروف کہتا ہے کہ اس بنا پر یہ اصول قرار پایا کہ المجتھد قد یخطی ویصیب مجتہد سے خطااور ثواب دونوں ہو سکتے ہیں اور خطا پر بھی گنہگار قرار نہیں دیا جا سکتا مگر جب اس کو قرآن و حدیث سے اپنے اجتہادی غلطی کی اطلاع ہو جائے تو اس پر اجتہاد کا ترک کرنا اور کتاب و سنت پر عمل کرنا واجب ہو جاتا ہے اسی لیے مجتہدین امت ائمہ اربعہ ؒ نے واضح لفظوں میں وصیت کر دی ہے کہ ہمارے اجتہادی فتاوی اگر کتاب وسنت سے کسی جگہ ٹکرائیں تو کتاب وسنت کو مقدم رکھو اور ہمارے اجتہادی غلط فتاووں کو چھوڑ دو۔
مگر افسوس ہے کہ ان کے پیرو کاروں نے ان کی اس قیمتی وصیت کو پس پشت ڈال کر ان کی تقلید پر ایسا جمود اختیار کیا کہ آج مذاہب اربعہ ایک الگ الگ دین الگ الگ امت نظر آتے ہیں۔
اس لیے کہا گیا ہے کہ:
دین حق را چار مذہب سا ختند آج جبکہ یہ چودھویں صدی ختم ہونے جارہی ہے مسلمانوں کا فرض ہے کہ ان فرضی گروہ بندیوں کو ختم کر کے کلمہ اور قرآن اور قبلہ پر اتحا د امت قائم کریں ورنہ حالات اس قدر نازک ہیں کہ اس افتراق وانشقاق کے نتیجہ بد میں مسلمان اور بھی زیادہ ہلاک وبرباد ہو جائیں گے۔
وما علینا إلا البلاغ المبین والحمد للہ رب العالمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4119   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4119  
حدیث حاشیہ:

جب رسول اللہ ﷺ غزو ہ خندق سے کامیابی کے ساتھ واپس ہوئے تو ظہر کے وقت حضرت جبرئیل ؑ تشریف لائے اور کہا:
آپ کے لیے اللہ کا حکم یہ ہے کہ آپ فوراً بنوقریظہ پر فوج کشی کریں، چنانچہ آپ نے حضرت بلال ؓ کو اعلان کرنے کا حکم دیا کہ جو بھی سمع واطاعت کا خوگر ہے اسے چاہیے کہ وہ نمازعصر بنوقریظہ پہنچ کر ادا کرے۔
راستے میں نماز پڑھنے اور نہ پڑھنے والے دونوں فریق اجروثواب کےحقدار ہوئے لیکن جن لوگوں نے نماز کا وقت ہونے پر راستے میں اد اکرلی انھوں نے دوفضیلتوں کو حاصل کرلیا:
ایک بروقت نماز عصر ادا کرنے کی اوردوسری بنوقریظہ بروقت پہنچے کی جبکہ دوسرے فریق نے رسول اللہ ﷺ کے ظاہر فرمان کے پیش نظر نماز عصر تاخیر سے اداکی، اس لیے ان پر بھی کوئی نکتہ چینی نہیں کی گئی۔
(فتح الباري: 512/7)

صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز ظہر کے متعلق حکم دیا کہ اسے بنوقریظہ پہنچ کر ادا کیاجائے۔
(صحیح مسلم، الجھاد والسیر، حدیث: 4602)
ان روایات میں تضاد نہیں کیونکہ جن لوگوں نے نمازظہر پڑھ لی تھی انھیں فرمایا کہ نمازعصر بنوقریظہ جا کر ادا کریں اور جنھوں نے ابھی نماز ظہر نہ پڑھی تھی انھیں حکم دیا کہ نماز ظہر بنوقریظہ پہنچ کر پڑھیں۔
(فتح الباري: 511/7)

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مجتہد سے غلط اور صحیح دونوں صادر ہوسکتے ہیں اور خطا صادر ہونے پر اسے گناہگار نہیں قراردیا جاسکتا مگر جب اسے قرآن وحدیث سے ا پنی اجتہادی غلطی کا علم ہوجائے تواسے اجتہاد ترک کرنا اورکتاب وسنت پر عمل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4119   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 946  
´سوار رہ کر اشارے ہی سے نماز`
«. . . لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچنے سے پہلے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب صَلَاةِ الْخَوْفِ: 946]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
طالب یعنی دشمن کی تلاش میں نکلنے والے مطلوب جس کی تلاشی میں دشمن لگا ہو یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب غزوہ احزاب ختم ہو گیا اور کفار ناکام چلے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ اسی حالت میں چلیں جہاں مدینے کے یہودی رہتے تھے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ان یہودیوں نے ایک معاہدہ کے تحت ایک دوسرے کے خلاف کسی جنگی کاروائی میں حصہ نہ لینے کا عہد کیا تھا مگر خفیہ طور پر پہلے بھی مسلمانوں کے خلاف سازشیں کر رہے تھے اور اس موقع پر انہوں نے کھل کر کفار کا ساتھ دیا، یہود نے یہ سمجھ کر بھی اس میں شرکت کی تھی کہ یہ آخری اور فیصلہ کن لڑائی ہو گی اور مسلمانوں کو اس میں شکست ہو گی، معاہدہ کی رو سے یہودیوں کی اس جنگ میں شرکت ایک سنگین جرم تھا۔ اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ بغیر کسی مہلت کے ان پر حملہ کیا جائے اور اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ نماز عصر بنوقریظہ میں جا کر پڑھی جائے، لہٰذا باب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ آپ نماز بنوقریظہ میں جا کر پڑھیں کیوں کہ راستے میں اگر کہیں نماز کے لیے ٹھہرتے تو دیر ہو جاتی چنانچہ بعض صحابہ نے بھی اس سے یہی سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد صرف جلد سے جلد بنوقریظہ میں پہنچنا تھا اس سے ثابت ہوا کہ بحالت مجبوری طالب اور مطلوب ہر دو سواری پر نماز اشارے سے ادا کر سکتے ہیں، یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ثابت ہوتی ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ان مطلوب يصلي على دابة يومئي ايماء، وان كان طالبًا نزل فصلي على الارض، قال الشافعي: إلا أن ينقطع عن اصحابه فيخاف عود المطلوب عليه فيجزئه ذالك .» [فتح الباري ج2 ص555]
یقیناً مطلوب (جس کی تلاش میں دشمن لگا ہوا ہو) وہ سواری پر ہی اشارے سے نماز ادا کرے اور اگر وہ طالب (دشمن کے پیچھے لگنے والا) ہو تو وہ سواری سے اتر کر زمین پر نماز ادا کرے اور امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر طالب کو اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ جانے کا خوف ہو یا دشمن کے پیچھے پلٹ آنے کا تو اس حالت میں اسے بھی سواری پر نماز ادا کرنا جائز ہے۔‏‏‏‏
لہٰذا حافظ صاحب کی صراحت سے واضح ہوتا ہے کہ بحالت مجبوری سواری پر اشارے سے نماز ادا کرنا صحیح ہے جیسا کہ حدیث اور باب سے واضح ہے۔

◈ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«موضع المطابقة من تاخير احدي الطائفين للصلاة إلى أن غابت الشمس، ووصلوا إلى بني قريظة، فلما جاز لها أن توخر عن الوقت والصلاة فى الوقت مفترضة، وكذالك يجوز ترك اتمام الاركان والانتقال إلى الايماء» [المتواري ص114]
یہاں مطابقت کی صورت یہ ہے کہ دونوں گروہ کا نماز میں تاخیر کرنا (ثابت ہوتا ہے) یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے اور ان کو بنوقریظہ تک پہنچا جائے۔ پس جب ان کے لیے نماز کو مقررہ وقت سے تاخیر کرنا جائز ہوا تو اسی طرح سے قیام کا ترک کرنا اور اشارے سے نماز پڑھنا (بھی جائز ہوا)۔
ابن المنیر رحمہ اللہ کی اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ جب ارکان اور وقت کی چھوٹ مل سکتی ہے تو لازماً بحالت مجبوری اشارے سے صلاۃ پڑھنا بھی جائز ہوا (جیسا کہ پیچھے اور اق میں ہم نے تفصیلاً ذکر کیا ہے) لہٰذا اس سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی اور امام اوزاعی رحمہ اللہ کے مذہب کو بھی تقویت ملے گی۔

فائدہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوقریظہ میں نماز عصر پڑھنے کا حکم دیا تھا یا نماز ظہر؟
بخاری و مسلم کی بعض احادیث میں ظہر کی نماز کا حکم ہے اور بعض احادیث میں نماز نماز عصر کا حکم ہے، منکرین حدیث اس نکتے کو بھی بخشتے نہیں اور وہ بےجا احادیث صحیحہ پر طعن کرتے ہیں اور اختلاف کی صورت کو جنم دیتے ہیں حالانکہ تحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان احادیث میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں کیوں کہ دونوں روایتوں میں بایں طور کہ احتمال ہے کہ حکم کرنے سے قبل بعض نے ظہر کی نماز پڑھ لی ہو اور بعض نے نہ پڑھی ہو تو ان کو ظہر کا حکم ملا اور دوسرے گروہ کو عصر کی نماز کا حکم ملا جس کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ اب یہاں چار باتیں قابل غور ہیں۔
➊ ظہر کی نماز کا حکم بنوقریظہ میں پڑھنے کا تھا۔
➋ یا عصر کی نماز کا حکم بنوقریظہ میں پڑھنے کا تھا۔
➌ یا پھر کسی راوی نے عصر کی جگہ ظہر کہہ دیا اپنی یاد داشت کی وجہ سے۔
➍ یا پھر دو گروہ تھے ایک کو ظہر کا حکم اور دوسرے کو عصر کا حکم۔
اب ہم ان چاروں نکات پر غور کریں گے۔

ظہر کی نماز بنوقریظہ میں:
ظہر کی نماز کا ذکر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جس کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں کتاب الجھاد والسیر میں ذکر فرمایا ہے:
«أن لا يصلين أحد الظهر اِلا فى بني قريظة» [صحيح مسلم، كتاب الجهاد والسير، رقم الحديث: 1770]
یعنی آپ میں سے کوئی ظہر ادا نہیں کرے گا مگر بنوقریظہ میں جا کر۔


◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«ووقع فى جميع النسخ عند مسلم الظهر . . . . . . وقد وافق مسلماً أبويعلي وآخرون، وكذالك أخرجه ابن سعد عن ابي عتبان مالك بن اسمٰعيل عن جويرية بلفظ الظهر وابن حبان من طريق ابي عتبان كذالك، ولم أره من رواية جويرية اِلا بلفظ الظهر» [فتح الباري ج6 ص519]
تمام مسلم کے نسخوں میں ظہر کی نماز کا ذکر ہے اور یقیناً امام مسلم کی موافقت کی ہے ابویعلیٰ اور دوسروں نے، اور اسی طرح سے ابن سعد نے ابوعتبان مالک بن اسمعیل عن جویریہ سے لفظ ظہر کا ذکر کیا ہے اور ابن حبان نے بطریق ابی عتبان سے اسی طرح (لفظ ظہر ہی) نقل کیا ہے اور میں نہیں دیکھتا جویریہ سے کوئی لفظ مگر ظہر ہی کا۔

عصر کی نماز کا حکم بنوقریظہ میں:
عصر کی نماز کا حکم صحیح البخاری میں موجود ہے امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ظہر کی نماز کا ذکر امام مسلم نے فرمایا اور عصر کی نماز کا حکم امام بخاری رحمہ اللہ نے۔ [شرح صحيح مسلم النووي ج12 ص97]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لا يصلين أحد العصر كذا وقع فى جميع النسخ عند البخاري» [فتح الباري ج6 ص519]
کہ آپ نماز عصر بنوقریظہ میں پڑھیں یہ الفاظ بخاری کے تمام نسخوں میں ہیں۔‏‏‏‏

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ:
«واما اصحاب المغازي فاتفقوا على انها العصر» [فتح الباري ج6 ص519]
تمام اصحاب مغازی اس بات پر متفق ہیں کہ وہ نماز عصر تھی۔

نماز عصر کا ذکر صحیح البخاری کے علاوہ اور بھی کتب احادیث میں موجود ہے امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفي 408ھ) اپنی کتاب میں ذکر فرماتے ہیں:
«عبدالله بن كعب رضى الله عنه اخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما رجع من طلب الاحزاب وضع عنه الأمة واغتسل، واستجمر فبداله جبريل عليه السلام فقال من ترك من محارب الا أراك قد وضعت اللامة وما وضعناها بعد قال فوثب رسول الله صلى الله عليه وسلم فزعًا، فعزم على الناس الا يصلوا صلاة العصر حتيٰ ياتوا بني قريظة» [دلائل النبوة للبيهقي ج4 ص7]
سیدنا عبداللہ بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آ گئے احزاب کی طلب اور تعاقب سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھیار اتار دیئے اور غسل بھی کر لیا تھا اور خوشبو کی دھونی بھی لے لی تو اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جبریل علیہ السلام آ گئے اور فرمایا کس نے آپ کو جنگ اور محاربہ پر سے روک دیا ہے؟ کیا میں دیکھ نہیں رہا کہ آپ نے ہتھیار اتار رکھ لیے ہیں جب کہ ہم نے ابھی تک نہیں اتار رکھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا گئے اور لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کا حکم دیا کہ وہ نماز عصر یہاں پر نہ پڑھیں یہاں تک کہ وہ بنی قریظہ پہنچ جائیں۔
مذکورہ روایت میں بھی صلاۃ العصر ہی کا ذکر موجود ہے اس روایت کو امام طبرانی نے اور امام ابن کثیر نے اپنی کتاب البداية والنهاية ج4 ص117 میں ذکر فرمائی ہے اور امام ابونعیم المستخرج میں بطریق «ابوحفص السلمي عن جويريه» سے نماز عصر کا ذکر فرمایا ہے۔ [فتح الباري ج6 ص519]
لہٰذا نماز عصر کا حکم صحیح بخاری میں موجود ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق راوی سے وہم ہوا ہے، کیونکہ صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی احادیث کا مخرج ایک ہی ہے۔ ممکن ہے کہ راوی وہم کا شکار ہوا ہو۔ لہٰذا صحیح بخاری کے الفاظ کو ترجیح دی جائے گی۔ حافظ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تمام اصحاب مغازی عصر کی نماز کے قائل ہیں۔

ظہر یا عصر کی نماز بیان کرنے میں کسی راوی سے بھول تو واقع نہیں ہوئی؟
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ صراحت کرتے ہوئے اس مسئلے پر کہتے ہیں:
«فالذي يظهر من تغاير اللفظين أن عبدالله بن محمد بن اسماء شيخ الشيخين فيه لما حدث به البخاري حدث به على هذا اللفظ ولما حدث به الباقين حدثهم به على اللفظ الأخير وهو اللفظ الذى حدث به جويرية . . .» [فتح الباري ج6 ص520]
یعنی مجھ کو معلوم ہوا کہ اختلاف لفظ مذکور میں سے اس کے بعض راویوں کے حفظ اور یاد داشت کی وجہ سے ہے پس جو ظاہر ہوتا ہے دونوں لفظوں کے اختلاف سے وہ یہ ہے کہ عبداللہ بن محمد شیخین کے شیخ نے جب امام بخاری رحمہ اللہ کو حدیث بیان کی تو عصر کے لفظ کے ساتھ حدیث بیان کی اور جب باقی لوگوں کو بیان کی تو ظہر کے لفظ کے ساتھ حدیث بیان کی یا امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو لکھا اپنی یاد سے نہیں رعایت کی انہوں نے لفظ کو جیسے معروف ہے ان کے مذہب سے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں عبداللہ بن محمد کے شیخ نے جب بخاری رحمہ اللہ کو بیان کیا تو عصر کہہ دیا اور جب مسلم رحمہ اللہ کو بیان کیا تو ظہر کہہ دیا یعنی یہ الفاظ کا اختلاف ان کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے۔

کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دو گروہ تھے؟ کہ ایک کو ظہر کا حکم دیا گیا اور دوسرے گروہ کو عصر کا:
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اما جمعهم بين الروايتين فى كونها الظهر والعصر فمحمول على أن هذا الأمر كان بعد دخول وقت الظهر، وقد صلى الظهر بالمدينة بعضهم دون بعض، فقيل للذين لم يصلوا الظهر: لا تصلوا الظهر الا فى بني قريظة وللذين صلوا بالمدينة لا تصلوا العصر ولا الظهر اِلا فى بني قريظة، ويحتمل انه قيل للذين ذهبوا أولا: لا تصلوا الظهر اِلا فى بني قريظة، وللذين ذهبوا بعدهم لا تصلوا العصر اِلا فى بنو قريظة» [شرح مسلم النووي ج12 ص98]
یعنی ان دونوں روایتوں میں ظہر اور عصر کا جو ذکر ہے یہ محمول ہے اس امر پر کہ یہ حکم ظہر کے دخول کے بعد کا تھا، یقیناً جن لوگوں نے بعض کے علاوہ نماز پڑھی مدینے میں تو پھر کہا گیا ان سے جنہوں نے نماز ظہر نہیں پڑھی کہ تم نہ پڑھنا ظہر مگر بنوقریظہ میں جا کر، اور ان لوگوں کو جنہوں نے مدینہ میں نماز پڑھی تو ان سے کہا گیا کہ تم نہ پڑھنا عصر اور نہ ظہر مگر بنو قریظہ میں، اور یہ احتمال ہے کہ یہ ان سے کہا گیا ہو جو پہلے ہی جا چکے ہوں گے، تم نہ پڑھنا ظہر مگر بنوقریظہ میں اور جو لوگ بعد میں گئے ہوں گے تو ان سے کہا گیا ہو گا کہ تم نہ نماز پڑھنا عصر کی مگر بنوقریظہ میں۔
امام نووی کی اس وضاحت سے دونوں احادیث میں تطبیق کی بہترین صورت بنتی ہے کہ یہ دو گروہ تھے ایک جو ظہر کے وقت نکلا تو ان کو ظہر اور عصر کا حکم دیا گیا اور جو دوسرا گروہ تھا اسے صرف عصر کا حکم دیا گیا کیوں کہ اس گروہ نے ظہر کے بعد وہاں سے کوچ کیا تھا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری میں اسی قسم کی تطبیق دی کہ ایک گروہ کو نماز ظہر کا حکم دیا اور دوسرے گروہ کو عصر کی نماز کا بنوقریظہ میں پڑھنے کا حکم دیا ظہر کی نماز کی روایت کو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کیا اور عصر کی نماز کا کعب بن مالک اور امی عائشہ رضی اللہ عنہم نے روایت کیا۔ تفصيل كے ليے مراجعت فرمائيں: [فتح الباري ج6 ص520]
اس مختصر سے بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ لشکر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا ایک لشکر کا حصہ وہ ہو جو ظہر سے قبل روانہ ہوا ان کو کہا گیا کہ ظہر بنوقریظہ میں جا کر پڑھنی ہے اور دوسرا لشکر وہ جو ظہر کے بعد روانہ ہوا تھا تو ان سے کہا گیا ہو کہ عصر بنوقریظہ میں پڑھنی ہے۔ یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ لشکر میں ایسے لوگ موجود ہوں جنہوں نے ظہر نہ پڑھی ہو تو ان سے بھی یہی کہا گیا کہ آپ ظہر وہاں ادا کریں اور جو باقی حضرات تھے ان کو عصر کی نماز کا حکم دیا گیا ہو گا۔
اب آخری سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنہوں نے راستہ میں عصر پڑھ لی وہ فضیلت کو پہنچے یا جنہوں نے نہ پڑھی وہ؟ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اس کو ترجیع دی کہ عصر بنوقریظہ میں ہی ادا کی جائے آپ فرماتے ہیں کہ ہم اگر وہاں ہوتے تو بنوقریظہ تک پہنچنے میں اگر کئی برس بھی لگ جاتے تب بھی عصر کی نماز بنوقریظہ سے پہلے نہ پڑھتے لیکن حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے ان لوگوں کو ترجیع دی جنہوں نے نماز راستے میں ہی ادا کر لی چنانچہ ابن القیم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«بل الذين صلوها فى الطريق فى وقتها حازو اقصب السبق، وكانوا اسعد بالفضيلتين، فانهم بادروا إلى امتثال أمره فى الخروج بادروا أى مرضاته فى الصلاة فى وقتها . . .» [زاد المعاد، ج2 ص113]
بلکہ وہ لوگ جنہوں نے راستے میں نماز پڑھی اور نماز عصر کو اپنے وقت پر ادا کیا کیوں کہ ان لوگوں نے دو فضیلتیں حاصل کی ہیں ایک فضیلت وقت پر ادا کرنے کی اور دوسری فضیلت جہاد میں حصہ لینے کی، اور جلد سے جلد بنوقریظہ پہنچنے کی فکر تو ان کو بھی دامن گیر تھی چنانچہ انہوں نے نماز راستے میں پڑھی اور پہنچتے ہی مورچہ بندی کا عمل شروع کیا اس لیے ان کے فعل کو ترجیع دی گئی ہے۔
لہٰذا کسی بھی گروہ کو فضیلت حاصل ہو لیکن دین کے معاملے میں دونوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پاکیزہ جماعت مخلص تھی اور ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اجر نصیب فرمایا۔

◈ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا:! «وما علينا من اثم، فصلّت طائفه ايمانًا واحتسابا، وتركت طائفة ايمانًا واحتسابا ولم يعب النبى صلى الله عليه وسلم واحد من الفريقين» [دلائل النبوة البيهقي ج4 ص8]
ہم پر کچھ گناہ نہ تھا (کیوں کہ) جس گروہ نے نماز پڑھی اس نے بھی ایمان اور احتساب کے ساتھ (عمل کیا) اور جس نے نہ پڑھی اس نے بھی ایمان اور احتساب کے ساتھ (عمل کیا) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں گروہ پر کچھ بھی ملامت نہ کی۔

◈ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یقیناً علماء نے اختلاف کیا ہے کہ (اجتہاد میں) کون صحیح تھا اس دن؟ بلکہ اسی مسئلہ پر ہے کہ دونوں فریقین اجر کے مستحق ٹھہرے بغیر کسی ملامت کے۔ علماء کی ایک جماعت نے کہا: جنہوں نے نماز میں تاخیر کی تھی اس دن (نماز) کے مقررہ وقت سے یہاں تک کہ انہوں نے بنوقریظہ میں جا کر ادا کی۔ کیونکہ انہیں اس دن نماز کی تاخیر کا حکم تھا۔ خاص مقدم ہے عام پر۔ علماء کی دوسری جماعت نے کہا: بلکہ وہ لوگ جنہوں نے نماز کو اپنے وقت پر ادا کر لی ان کا فہم یہ تھا کہ افضل نماز اس کے وقت پر ادا کرنا ہے اسی وجہ سے ان میں کسی پر بھی ملامت نہیں کی گئی اور نہ ہی نماز کے اعادہ کا حکم دیا گیا۔۔۔ [البدايه والنهايه، ج4، ص117]

◈ امام محمد بن خلیفہ (المتوفي 827ھ أو 828) رقمطراز ہیں:
«انما مراده صلى الله عليه وسلم استعجال الخروج لا قصد تأخير الصلاة، فمن أخذ بهذا المفهوم صلى خف فوت الوقت، ومن أخذ بظاهر اللفظ أخر، ففيه حجة للقائلين بالمفهوم وللقائلين بالظاهر»
بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد جلدی نکلنے کی تھی نہ کہ نماز میں تاخیر کی۔ پس جس نے یہ مفہوم مراد لیا تو اس نے وقت کے فوت ہونے کے خوف سے نماز پڑھ لی اور جنہوں نے ظاہر لفظ کا مطلب اخذ کیا وہ دوسرے تھے۔ پس اس میں دلیل ہے ان قائلین کے لیے جنہوں نے مفہوم سے دلیل لی اور ان قائلین کے لیے جنہوں نے ظاہر (حکم سے) دلیل اخذ کی۔

فائدہ نمبر 2:
یہاں پر اس نکتہ کو ضرور یاد رکھیں کہ «المجتهد قد يخطئ ويصيب» کہ مجتہد سے خطا اور ثواب دونوں ہو سکتے ہیں اور خطا پر بھی اس کی گرفت نہ ہو گی بلکہ وہ ایک ثواب کا مستحق ہو گا۔ مگر جب قرآن و سنت سے واضح دلائل میسر آ جائیں تو اجتہاد کو ترک کرنا اور کتاب و سنت پر عمل کرنا واجب ہو گا۔ سلف صالحین میں ایسی مثالیں ان گنت ہیں کہ جب انہیں قرآن و سنت کے نصوص پہنچے تو انہوں نے برملا طور پر اپنے اختیار اور عمل کو ترک کیا اور قرآن و سنت پر عمل کیا۔

◈ امام ابن قیم ابن الجوزی رحمہ اللہ چودہ برس تک ایک پر عمل کرتے رہے۔ چودہ برس بعد انہیں اس حدیث کے ضعف کی خبر ہوئی تو آپ نے فوراً اپنا عمل ترک کر دیا۔

امام ابویوسف جو کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تلمیذ رشید ہیں آپ نے «بيع الوقوف» والی حدیث کا ذکر فرمایا اور کہا: کہ اگر «بيع الوقوف» امام ابوحنیفہ تک پہنچتی تو رجوع کر لیتے۔ [سبل السلام، ج4، ص187]
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ میں بھی رجوع کا مادہ تھا اور آپ کا فتویٰ اگر قرآن و سنت کے خلاف ہو گا تو اسے چھوڑ دیا جائے گا۔ یہی صحیح مؤقف ہے ائمہ اربعہ رحمہم اللہ نے بھی یہی تعلیم دی ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 212   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3005  
´بنو نضیر سے جنگ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بنو نضیر اور بنو قریظہ کے یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کی آپ نے بنو نضیر کو جلا وطن کر دیا، اور بنو قریظہ کو رہنے دیا اور ان پر احسان فرمایا (اس لیے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کر لیا تھا) یہاں تک کہ قریظہ اس کے بعد لڑے ۱؎ تو ان کے مرد مارے گئے، ان کی عورتیں، ان کی اولاد، اور ان کے مال مسلمانوں میں تقسیم کر دئیے گئے، ان میں کچھ ہی لوگ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر ملے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں امان دی، وہ مسلمان ہو گئے، باقی مدینہ کے سارے یہودیوں کو رسو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3005]
فوائد ومسائل:

ایمان اور اسلام انسان کو دنیا میں جان مال و آبرو کی امان دیتا ہے۔
اورآخر ت میں ابدی امان کا باعث ہوگا۔


حضرت عبد اللہ بن سلام کی سیرت سے واضح ہوجاتا ہے۔
کہ ایمان جب دل کی گہرایئوں میں اتر جاتا ہے۔
تو دنیا کی عارضی لذتیں اور قوم قبیلے کی عصبیت کی اہمیت ختم ہوجاتی ہیں۔
پھر اللہ کے رسولﷺ سے بڑھ کر اور کوئی محبوب نہیں ہوتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3005   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4592  
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ بنو نضیر اور بنو قریظہ کے یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کو نکال دیا اور احسان کرتے ہوئے بنو قریظہ کو رہنے دیا حتی کہ اس کے بعد قریظہ نے بھی جنگ لڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مردوں کو قتل کر دیا اور ان کی عورتوں اور بچیوں کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا، مگر ان میں سے بعض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ ملے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4592]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بنو نضیر کی جلا وطنی کا واقعہ گزر چکا ہے،
بنو قریظہ کا ذکر اگلے باب میں آ رہا ہے اور بنو قینقاع کا واقعہ یہ ہے کہ جنگ بدر کے بعد ایک عرب عورت سامان تجارت لے کر بازار میں آئی اور ایک زرگر کے پاس بیٹھ گئی،
یہاں نے اس سے کہا،
اپنا منہ ننگا کرو،
اس نے انکار کر دیا،
اس پر اس سونار نے،
اس کے کپڑے کا نچلا کنارہ پچھلی طرف باندھ دیا اور اس عورت کو پتہ نہ چلا،
جب وہ اٹھی تو بے پردہ ہو گئی تو وہ ہنسنے لگے،
وہ چیخنے چلانے لگی،
جسے سن کر ایک مسلمان نے اس زرگر پر حملہ کر کے اس کو قتل کر ڈالا،
جواباً یہودیوں نے مسلمان پر حملہ کر کے اسے قتل کر ڈالا،
اس کے بعد مقتول مسلمان کے ورثاء نے شور مچایا،
اس طرح مسلمانوں اور بنو قینقاع کے درمیان جنگ شروع ہو گئی،
اور آپﷺ نے شوال 2ھ کے آخری پندرہ دنوں میں ان کا محاصرہ کر لیا،
اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا،
چنانچہ انہوں نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دئیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی جان و مال اور آل و اولاد اور عورتوں کے بارے میں جو فیصلہ کریں گے،
انہیں منظور ہو گا،
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان سب کو باندھ لیا گیا،
لیکن بالآخر عبداللہ بن ابی منافق کے انتہائی سخت اور بے جا اصرار پر آپﷺ نے انہیں چھوڑ دیا اور انہیں مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا،
(تفصیل کے لیے الرحیق المختوم دیکھئے)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4592   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4602  
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ احزاب سے لوٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں اعلان کروایا، کوئی انسان بنو قریظہ کے ہاں پہنچنے سے پہلے نماز نہ پڑھے، تو کچھ لوگ نماز کا وقت نکلنے سے ڈر گئے تو انہوں نے بنو قریظہ کے ہاں پہنچنے سے پہلے پڑھ لی اور دوسرے صحابہ نے کہا، ہم تو وہیں نماز پڑھیں گے، جہاں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھنے کا حکم دیا ہے، اگرچہ وقت نکل ہی جائے، حضرت... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4602]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جس نماز کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے ہاں پڑھنے کا حکم دیا تھا،
اس کی تعیین میں اختلاف ہے،
امام بخاری کی روایت میں عصر ہے اور یہاں مسلم میں ظہر،
اس لیے بعض حضرات کا خیال ہے کہ کچھ لوگوں نے ابھی نماز ظہر پڑھنی تھی یا وہ جلد تیار ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز ظہر بنو قریظہ کے ہاں پڑھنے کا حکم دیا اور کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ظہر پڑھی تو آپﷺ نے انہیں نماز عصر وہاں پڑھنے کا حکم دیا اور جب یہ حضرات چل دیے تو راستہ میں نماز کا وقت ہو گیا،
اس لیے کچھ صحابہ نے کہا،
ہمیں یہیں نماز پڑھ لینی چاہیے،
بنو قریظہ کے ہاں پہنچتے پہنچتے نماز کا وقت نکل جائے گا،
نماز اپنے وقت پر پڑھنے کا حکم ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ تم بلا تاخیر جلدی وہاں پہنچو،
کسی اور کام کی طرف توجہ نہ دو،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مقصد نہیں تھا کہ اگر راستہ میں نماز کا وقت ہو جائے تو نماز نہ پڑھنا،
اس لیے ان لوگوں نے نماز پڑھ لی،
لیکن دوسرے صحابہ نے کہا،
چونکہ آپﷺ کا صحیح فرمان ہے کہ نماز بنو قریظہ جا کر پڑھنا،
اس لیے ہم تو بنو قریظہ میں جا کر نماز پڑھیں گے،
چاہے وقت نکل ہی جائے،
اس لیے انہوں نے بنو قریظہ جا کر نماز پڑھی،
آپ کو اس سے مطلع کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی فریق کو سرزنش یا ملامت نہ کی،
جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کسی مسئلہ میں نیک نیتی سے اختلاف کیا جائے اور اس میں اجتہاد کی گنجائش ہو تو کوئی فریق بھی قابل مواخذہ نہیں ہے،
اگرچہ رائے ایک ہی کی صحیح ہے کیونکہ دونوں نے اپنی رائے کی بنیاد پر کسی دلیل و حجت کو بنایا ہے۔
پہلے گروہ نے تیز رفتاری بھی اختیار کی اور نماز کے وقت کی پابندی بھی کی اور دوسرے گروہ نے آپ کے الفاظ ظاہر کو ملحوظ رکھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4602   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4028  
4028. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: بنو نضیر اور بنو قریظہ نے (رسول اللہ ﷺ کے خلاف) لڑائی کی تو آپ نے بنو نضیر کو جلا وطن کر دیا اور بنو قریظہ پر احسان کرتے ہوئے انہیں برقرار رکھا حتی کہ انہوں نے دوبارہ آپ سے لڑائی کی تو آپ نے ان کے مردوں کو قتل کیا اور ان کی عورتوں، بچوں اور دیگر مال و اسباب کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا، البتہ ان میں سے کچھ لوگوں نے نبی ﷺ کے پاس آ کر پناہ لی تو آپ نے انہیں امن دے دیا اور وہ مسلمان ہو گئے۔ پھر آپ نے مدینہ طیبہ کے تمام یہود، یعنی بنو قینقاع جو حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کی قوم سے تھے اور یہود بنو حارثہ کو وہاں سے نکال دیا۔ الغرض آپ نے مدینہ طیبہ کے تمام یہودیوں کو مدینہ طیبہ سے جلا وطن کر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4028]
حدیث حاشیہ:
یہود ایسی غدار بے وفا قوم کا نام ہے جس نے خود اپنے ہی نبیوں اور رسولوں کے ساتھ بیشتر مواقع پر بے وفائی کی ہے۔
آج کے یہودی جو اسرائیلی حکومت قائم کرکے ارض فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کئے بیٹھے ہیں اپنی فطری غداری و بے وفائی کی زندہ مثال ہیں۔
اسی مصلحت کے تحت اللہ تعالی نے ارض حجاز کو اس غدار قوم سے خالی کرا دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4028   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 946  
946. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جب غزوہ خندق سے واپس ہوئے تو ہمیں حکم فرمایا: کوئی بھی نماز عصر بنو قریظہ کے علاوہ کہیں اور نہ پڑھے۔ چنانچہ بعض لوگوں کو راستے میں عصر کا وقت آ گیا تو کچھ نے کہا کہ ہم تو بنو قریظہ پہنچ کر نماز پڑھیں گے اور کچھ کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ کا مقصد یہ نہ تھا کہ ہم نماز قضا کر دیں، لہٰذا ہم تو نماز پڑھیں گے۔ جب اس واقعے کا ذکر نبی ﷺ سے ہوا تو آپ نے کسی کو ملامت نہ کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:946]
حدیث حاشیہ:
طالب یعنی دشمن کی تلاش میں نکلنے والے، مطلوب یعنی جس کی تلاش میں دشمن لگا ہو۔
یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب غزوہ احزاب ختم ہوگیا اور کفار ناکام چلے گئے تو آنحضرت ﷺ نے فوراً ہی مجاہدین کو حکم دیا کہ اسی حالت میں بنو قریظہ کے محلہ میں چلیں جہاں مدینہ کے یہودی رہتے تھے جب آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے تو ان یہودیوں نے ایک معاہدہ کے تحت ایک دوسرے کے خلاف کسی جنگی کاروائی میں حصہ نہ لینے کا عہد کیا تھا۔
مگر خفیہ طور پر یہودی پہلے بھی مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہے اور اس موقع پر تو انہوں نے کھل کر کفار کا ساتھ دیا۔
یہود نے یہ سمجھ کر بھی اس میں شرکت کی تھی کہ یہ آخری اور فیصلہ کن لڑائی ہوگی اور مسلمانوں کی اس میں شکست یقینی ہے۔
معاہدہ کی رو سے یہودیوں کی اس جنگ میں شرکت ایک سنگین جرم تھا، اس لیے آنحضور ﷺ نے چاہا کہ بغیر کسی مہلت کے ان پر حملہ کیا جائے اور اسی لیے آپ نے فرمایا تھا کہ نماز عصر بنو قریظہ میں جا کر پڑھی جائے کیونکہ راستے میں اگر کہیں نماز کے لیے ٹھہر تے تو دیر ہو جاتی چنانچہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس سے یہی سمجھا کہ آپ کا مقصد صرف جلد تر بنو قریظہ پہنچنا تھا۔
اس سے ثابت ہوا کہ بحالت مجبوری طالب اور مطلوب ہر دو سواری پر نماز اشارے سے پڑھ سکتے ہیں، امام بخاری ؒ کا یہی مذہب ہے اور امام شافعی اور امام احمد ؒ کے نزدیک جس کے پیچھے دشمن لگا ہو وہ تو اپنے بچانے کے لیے سواری پر اشارے ہی سے نماز پڑھ سکتا ہے اور جوخود دشمن کے پیچھے لگا ہو تو اس کو درست نہیں اور امام مالک ؒ نے کہاکہ اس کو اس وقت درست ہے جب دشمن کے نکل جانے کا ڈر ہو۔
ولید نے امام اوزاعی ؒ کے مذہب پر حدیث:
لا یصلین أحد العصر الخ سے دلیل لی کہ صحابہ بنو قریظہ کے طالب تھے یعنی ان کے پیچھے اور بنی قریظہ مطلوب تھے اور آنحضرت ﷺ نے نماز قضا ہو جانے کی ان کے لیے پروا نہ کی۔
جب طالب کو نماز قضا کر دینا درست ہوا تو اشارہ سے سواری پر پڑھ لینا بطریق اولی درست ہوگا حضرت امام بخاری ؒ کا استدلال اسی لیے اس حدیث سے درست ہے۔
بنو قریظہ پہنچنے والے صحابہ میں سے ہر ایک نے اپنے اجتہاد اور رائے پر عمل کیا بعضوں نے یہ خیال کیا کہ آنحضرت ﷺ کے حکم کا یہ مطلب ہے کہ جلد جاؤ بیچ میں ٹھہرو نہیں تو ہم نماز کیوں قضا کریں، انہوں نے سواری پر پڑھ لی بعضوں نے خیال کیا کہ حکم بجالانا ضروری ہے نماز بھی خدا اور اس کے رسول کی رضا مندی کے لیے پڑھتے ہیں تو اب آپ کے حکم کی تعمیل میں اگر نماز میں دیر ہو جائے گی تو ہم کچھ گنہگار نہ ہوںگے (الغرض)
فریقین کی نیت بخیر تھی اس لیے کوئی ملامت کے لائق نہ ٹھہرا۔
معلوم ہوا کہ اگر مجتہد غور کرے اور پھر اس کے اجتہاد میں غلطی ہو جائے تو اس سے مؤاخذہ نہ ہوگا۔
نووی نے کہا اس پر اتفاق ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر مجتہد صواب پر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 946   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:946  
946. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جب غزوہ خندق سے واپس ہوئے تو ہمیں حکم فرمایا: کوئی بھی نماز عصر بنو قریظہ کے علاوہ کہیں اور نہ پڑھے۔ چنانچہ بعض لوگوں کو راستے میں عصر کا وقت آ گیا تو کچھ نے کہا کہ ہم تو بنو قریظہ پہنچ کر نماز پڑھیں گے اور کچھ کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ کا مقصد یہ نہ تھا کہ ہم نماز قضا کر دیں، لہٰذا ہم تو نماز پڑھیں گے۔ جب اس واقعے کا ذکر نبی ﷺ سے ہوا تو آپ نے کسی کو ملامت نہ کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:946]
حدیث حاشیہ:
(1)
ولید بن مسلم نے امام اوزاعی کے موقف کی تائید میں مذکورہ بالا واقعہ بطور دلیل پیش کیا ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس واقعے کو پہلے معلق ذکر کرنے کے بعد متصل سند سے بیان کیا ہے تاکہ صحت حدیث اور صحت استدلال کا علم ہو جائے۔
واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب غزوۂ خندق سے واپس آئے تو آپ نے ہتھیار اتار دیے۔
حضرت جبرئیل ؑ تشریف لائے اور فرمایا کہ ہم نے ابھی اپنے ہتھیار نہیں اتارے کیونکہ ہمارا بنو قریظہ سے نمٹنے کا ارادہ ہے۔
انہوں نے منافقانہ طریقے سے دشمن کی مدد کی تھی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ بھی ان کا کام تمام کرنے کے لیے تیار ہو گئے، پھر آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو ارشاد فرمایا جس کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہے۔
جن لوگوں کو رسول اللہ ﷺ نے روانہ ہونے کا حکم دیا تھا وہ حملہ آور تھے اور آپ نے انہیں وہاں جلد پہنچنے کا حکم دیا تھا۔
اگرچہ روایت میں صراحت نہیں ہے کہ انہوں نے سواریوں سے اتر کر نماز پڑھی یا سوار رہتے ہوئے اسے ادا کیا، تاہم جلد پہنچنے کے تقاضے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سواریوں پر نماز پڑھی ہو گی۔
حضرت ولید بن مسلم نے سکوت سے استدلال کیا ہے کیونکہ حدیث میں سواریوں پر یا اتر کر نماز پڑھنے کی صراحت نہیں ہے۔
علامہ عینی نے اس حدیث کی عنوان سے مطابقت بایں الفاظ ذکر کی ہے کہ مطلوب آدمی نماز کو اشارے سے پڑھ سکتا ہے، حالانکہ اس پر رکوع اور سجود کا صحیح حالت میں ادا کرنا ضروری ہے جیسا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا بروقت نماز پڑھنا ضروری تھا لیکن انہوں نے تعمیل حکم کرتے ہوئے اسے مؤخر کیا اور بنو قریظہ میں جا کر اسے ادا کیا۔
(عمدة القاري: 147/5) (2)
حملہ آور کی نماز کے متعلق ایک روایت بایں الفاظ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن انیس ؓ کو خالد بن سفیان ہذلی کا کام تمام کرنے کے لیے روانہ کیا۔
فرماتے ہیں کہ جب میں نے اسے دیکھا تو نماز عصر کا وقت بھی ہو چکا تھا۔
مجھے اس کے فوت ہونے کا اندیشہ ہوا تو میں نے چلتے چلتے اشارے سے نماز ادا کر لی کیونکہ اگر ٹھہر کر تسلی سے نماز پڑھتا تو دشمن کے نکل جانے کا اندیشہ تھا، چنانچہ میں نے اسے قتل کر دیا۔
(سنن أبي داود، صلاة السفر، حدیث: 1249)
امام ابوداود ؒ نے اس حدیث پر حملہ آور کی نماز کا عنوان قائم کیا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 584/2) (3)
بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا یہ مطلب لیا کہ راستے میں کسی جگہ پڑاؤ کیے بغیر ہم جلدی پہنچیں، انہوں نے نماز قصر نہ کی اور اسے سواری ہی پر ادا کر لیا جبکہ دوسرے اصحاب رضی اللہ عنہم نے آپ کے ارشاد گرامی کو ظاہر پر محمول کیا کہ اگر تعمیل حکم میں نماز دیر سے بھی ادا ہوئی تو ہم گناہ گار نہیں ہوں گے۔
چونکہ فریقین کی نیت درست تھی، اس لیے کوئی بھی قابل ملامت نہ ٹھہرا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 946   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4028  
4028. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: بنو نضیر اور بنو قریظہ نے (رسول اللہ ﷺ کے خلاف) لڑائی کی تو آپ نے بنو نضیر کو جلا وطن کر دیا اور بنو قریظہ پر احسان کرتے ہوئے انہیں برقرار رکھا حتی کہ انہوں نے دوبارہ آپ سے لڑائی کی تو آپ نے ان کے مردوں کو قتل کیا اور ان کی عورتوں، بچوں اور دیگر مال و اسباب کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا، البتہ ان میں سے کچھ لوگوں نے نبی ﷺ کے پاس آ کر پناہ لی تو آپ نے انہیں امن دے دیا اور وہ مسلمان ہو گئے۔ پھر آپ نے مدینہ طیبہ کے تمام یہود، یعنی بنو قینقاع جو حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کی قوم سے تھے اور یہود بنو حارثہ کو وہاں سے نکال دیا۔ الغرض آپ نے مدینہ طیبہ کے تمام یہودیوں کو مدینہ طیبہ سے جلا وطن کر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4028]
حدیث حاشیہ:

مدینہ طیبہ سے یہود بنونضیر کو جلا وطن کرنے کے عام طور پر دو سبب بیان کیے جاتے ہیں:
۔
بئر معونہ کے واقعہ کے بعد عمرو بن امیہ ضمری نے دوآدمیوں کو قتل کردیا، حالانکہ ان کے قبیلے سے رسول اللہ ﷺ کا عہد وپیمان تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کی دیت ادا کرنے کا پروگرام بنایا۔
اس سلسلے میں آپ بنونضیر کے پاس گئے تو انھوں نے بظاہر آمادگی کا اظہار کیا لیکن درپردہ آپ کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کی سازش کی، تاہم اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل ؑ کے ذریعے سے آپ کو مطلع کردیا تو آپ وہاں سے مدینہ طیبہ واپس آگئے، پھر ان پر چڑھائی کی اور جلاوطن کیا۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ (آیت: 11)
میں اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
۔
بنونضیر نے رسول اللہ ﷺ کو پیغام بھیجا کہ آپ کے تین علماء ہمارے تین علماء سے مناظرہ کریں۔
اگردوران مناظرہ ہمارے علماء کو آپ کے علماء نے قائل کرلیا تو ہم مسلمان ہوجائیں گے لیکن اندرون خانہ یہ سازش تھی کہ ہمارے تین آدمی خنجر چھا کرلے جائیں گے اور مسلمانوں کے تینوں علماء کو قتل کردیں گے۔
اس سازش کی اطلاع ایک عورت نے دی تورسول اللہ ﷺ نے بنو نضیر سے فرمایا کہ تمہاری سازش بے نقاب ہوچکی ہے۔
اب تمھیں صرف دس دن کی مہلت ہے۔
چنانچہ انھیں جلاوطن کردیا گیا۔
حافظ ابن حجر ؒنے اسےقوی قراردیا ہے۔
(فتح الباري: 414/7)
بہرحال تمام اہل مغازی اس بات پر متفق ہیں کہ بنونضیر کی جلاوطنی غزوہ اُحد کے بعد عمل میں آئی جبکہ امام بخاری ؒ کہتے ہیں کہ یہ واقعہ غزوہ اُحد سے پہلے کا ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4028