Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
7. باب صفة الصلاة
نماز کی صفت کا بیان
حدیث نمبر: 228
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقرأ في صلاة الفجر يوم الجمعة (الم تنزيل) السجدة , و (هل أتى على الإنسان). متفق عليه وللطبراني من حديث ابن مسعود: يديم ذلك.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز نماز فجر کی پہلی رکعت میں «الم تنزيل السجدة» اور دوسری میں «هل أتى على الإنسان» (سورۃ «دهر») پڑھا کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم) اور طبرانی میں ابن مسعود سے مروی روایت میں ہے کہ ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجمعة، باب ما يقرأ في صلاة الفجر يوم الجمعة، حديث:891، ومسلم، الجمعة، باب ما يقرأ في يوم الجمعة، حديث:880، وحديث ابن مسعود أخرجه الطبراني في الصغير: 2 /44 وسنده ضعيف، وفيه من لم أعرفه، وقال الهيثمي: رجاله موثقون.»

حكم دارالسلام: صحيح

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 228 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 228  
لغوی تشریح:
«يُدِيمُ ذٰلِكَ» «إِدَامَةٌ» سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جمعہ کے روز صبح کی نماز میں ان سورتوں کو ہمیشہ پڑھتے رہے۔

فوائد و مسائل:
➊ ان سورتوں کا التزام کیوں کرتے تھے؟ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی مصلحت و حکمت یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ان سورتوں میں تخلیق آدم اور روز قیامت بندوں کا محشر میں جمع ہونا مذکور ہے۔ اور احادیث میں ہے کہ قیامت بھی جمعہ کے روز قائم ہو گی، غالباً اسی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز ان کا التزام فرماتے تھے۔ اس لیے جمعہ کے روز صبح کی فرض نماز میں ان دونوں کا پڑھنا مسنون ہے۔
➋ جن سورتوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی نماز میں بالالتزام پڑھا ہو، ہمارے لیے امتثال امر کرتے ہوئے ان سورتوں کو انھی نمازوں میں پڑھنا افضل اور مسنون ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی دوسری سورت نہیں پڑھی جا سکتی، مگر اتباع سنت کا تقاضا ہے کہ انھی سورتوں کو پڑھا جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی ہیں۔ اور آج بحمد للہ علمائے اہلحدیث اس کی پابندی کرتے ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 228   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2035  
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعے کے دن صبح کی نماز کی پہلی رکعت میں ﴿الم ﴿١﴾ تَنزِيلُ الْكِتَابِ﴾ اور دوسری رکعت میں ﴿هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ‌ لَمْ يَكُن شَيْئًا مَّذْكُورً‌ا﴾ پڑھتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2035]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں ہمیشہ سورۃ سجدہ اور سورہ دہر کی تلاوت فرماتے تھے۔
کیونکہ قیامت جمعہ کے دن ہی قائم ہو گی اور سورہ سجدہ میں قرآن مجید کی حقانیت وصداقت،
دنیا کی تخلیق کی حکمت وغایت اور انسان کی پیدائش اور اس کی صلاحیت کا تذکرہ کر کے منکرین قیامت کے شبہات کا جواب اور ان کا انجام بیان کیا گیا ہے۔
پھر مومنوں کی صفات اور ان کا انجام اور کافروں کا انجام بتایا ہے اور سورہ دہر میں انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل اور اطوار بیان کیے گئے ہیں۔
پھر یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو سننے اور سمجھنے کی قوت عنایت کر کے اس کو خیر وشر کا امتیاز بخش کرکس طرح امتحان میں ڈالا ہے۔
اور قیامت کے دن اس امتحان میں کامیابی اور ناکامی کی صورت میں کیا نتائج برآمد ہوں گے۔
اس لیے احناف کا بیجا تأویل کرکے ان کی قراءت سےگریز کرنا مناسب نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2035   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 891  
891. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جمعہ کے دن نماز فجر میں الم تنزيل السجدة اور ﴿هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ﴾ پڑھا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:891]
حدیث حاشیہ:
طبرانی کی روایت ہے کہ آپ ہمیشہ ایسا کیا کرتے تھے۔
ان سورتوں میں انسان کی پیدائش اور قیامت وغیرہ کا ذکر ہے اور یہ جمعہ کے دن ہی واقع ہوگی۔
اس حدیث سے مالکیہ کا رد ہوا جو نماز میں سجدہ والی سورت پڑھنا مکروہ جانتے ہیں۔
ابو داؤد کی روایت ہے کہ آپ نے ظہر کی نماز میں سجدے کی سورت پڑھی اور سجدہ کیا (وحید ی)
علامہ شوکانی اس بارے میں کئی احادیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔
وھذا الأحادیث فیھا مشروعیة قراءة تنزیل السجدة وھل أتی علی الانسان قال العراقي وممن کان یفعله من الصحابة عبد اللہ بن عباس ومن التابعین إبراهیم بن عبد الرحمن بن عوف وھو مذھب الشافعي و أحمد و أصحاب الأحادیث (نیل الأوطار)
یعنی ان احادیث سے ثابت ہوا کہ جمعہ کے دن فجر کی نمازکی پہلی رکعت میں الم تنزیل سجدہ اور دوسری میں ھل أتی علی الانسان پڑھنا مشروع ہے، صحابہ میں سے حضرت عبد اللہ بن عباس اور تابعین میں سے ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف کا یہی عمل تھا اور امام شافعی اور امام احمد اور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے۔
علامہ قسطلانی فرماتے ہیں:
والتعبیر بکان یشعر بمواظبته علیه الصلوة والسلام علی القراءة بھما فیھا۔
یعنی حدیث مذکور میں لفظ کان بتلا رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن فجر کی نماز میں ان سورتوں پر مواظبت یعنی ہمیشگی فرمائی ہے۔
اگر چہ کچھ علماء مواظبت کو نہیں مانتے، مگر طبرانی میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یدیم بذلک لفظ موجود ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل پر مداومت فرمائی (قسطلانی)
کچھ لوگوں نے دعوی کیا تھا کہ اہل مدینہ نے یہ عمل ترک کر دیا تھا، اس کا جواب علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان لفظوں میں دیا ہے:
و أما دعواہ أن الناس ترکوا العمل به فباطلة لأن أکثر أهل العلم من الصحابة والتابعین قد قالوا به کما نقله ابن المنذر وغیرہ حتی أنه ثابت عن إبراهیم ابن عرف والاسعد وھو من کبار التابعین من أهل المدینة أنه أم الناس بالمدینة بھما في الفجر یوم الجمعة أخرجه ابن أبي شیبة بإسناد صحیح الخ (فتح الباری)
یعنی یہ دعوی کہ لوگوں نے اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا باطل ہے۔
اس لیے کہ اکثر اہل علم صحابہ وتابعین اس کے قائل ہیں، جیسا کہ ابن منذر وغیرہ نے نقل کیا ہے حتی کہ ابراہیم ابن عوف سے بھی یہ ثابت ہے جو مدینہ کے کبار تابعین سے ہیں کہ انہوں نے جمعہ کے دن لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی اور ان ہی دو سورتوں کو پڑھا۔
ابن ابی شیبہ نے اسے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 891   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1068  
1068. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جمعہ کے دن نماز فجر میں الم تنزيل السجدة اور ﴿هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ﴾ پڑھا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1068]
حدیث حاشیہ:
علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
لَمْ أَرَ فِي شَيْءٍ مِنَ الطُّرُقِ التَّصْرِيحَ بِأَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَجَدَ لَمَّا قَرَأَ سُورَةَ تَنْزِيلٌ السَّجْدَةَ فِي هَذَا الْمَحَلِّ إِلَّا فِي كِتَابِ الشَّرِيعَةِ لِابْنِ أَبِي دَاوُدَ مِنْ طَرِيقٍ أُخْرَى عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَن بن عَبَّاسٍ قَالَ غَدَوْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ فَقَرَأَ سُورَةً فِيهَا سَجْدَةٌ فَسَجَدَ الْحَدِيثَ وَفِي إِسْنَادِهِ مَنْ يُنْظَرُ فِي حَالِهِ ولِلطَّبَرَانِيِّ فِي الصَّغِيرِ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَجَدَ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ فِي تَنْزِيلٌ السَّجْدَةَ لَكِنْ فِي إِسْنَادِهِ ضَعْفٌ۔
یعنی میں نے صراحتا کسی روایت میں یہ نہیں پایا کہ آنحضرت ﷺ نے جب اس مقام پر (یعنی نماز فجر میں)
سورۃ الم تنزیل سجدہ کو پڑھا آپ نے یہاں سجدہ کیا ہو ہاں کتاب الشریعۃ ابن ابی داؤد میں ابن عباس سے مروی ہے کہ میں نے ایک جمعہ کے دن فجر کی نماز آنحضرت ﷺ کے پیچھے ادا کی اور آپ نے سجدہ والی سورۃ پڑھی اور سجدہ کیا۔
طبرانی میں حدیث علی ؓ میں یہ وضاحت موجود ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فجر کی نماز میں یہ سورۃ پڑھی اور سجدہ کیا۔
ان سورتوں کے فجر کی نماز میں جمعہ کے دن بلاناغہ پڑھنے میں بھید یہ ہے کہ ان میں پیدائش آدم پھر قیامت کے واقع ہونے کا ذکر ہے۔
آدم کی پیدائش جمعہ کے ہی دن ہوئی اور قیامت بھی جمعہ کے ہی دن قائم ہوگی جمعہ کے دن نماز فجر میں ان ہر دو سورتوں کو ہمیشگی کے ساتھ پڑھنا آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے اور یہ بھی ثابت شدہ امر ہے کہ سورہ الم تنزیل میں سجدہ تلاوت ہے پس یہ ممکن نہیں کہ آنحضرت ﷺ اس سورہ شریفہ کو پڑھیں اور سجدہ تلاوت نہ کریں۔
پھر طبرانی وغیرہ میں صراحت کے ساتھ اس امر کا ذکر بھی موجود ہے اس تفصیل کے بعد علامہ ابن حجر ؒ نے جو نفی فرمائی ہے وہ اسی حقیقت بیان کردہ کی روشنی میں مطالعہ کرنی چاہیے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1068   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:891  
891. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جمعہ کے دن نماز فجر میں الم تنزيل السجدة اور ﴿هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ﴾ پڑھا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:891]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض روایات میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پہلی رکعت میں سورۂ سجدہ اور دوسری رکعت میں سورۂ دہر پڑھتے تھے۔
جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، پھر حدیث مذکور میں لفظ كان سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن نماز فجر میں ان سورتوں کے پڑھنے پر مواظبت فرمائی ہے، بلکہ طبرانی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس عمل پر مداومت فرمائی۔
کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اہل مدینہ نے اس عمل کو ترک کر دیا تھا، لیکن اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، کیونکہ اکثر اہل علم اس کے قائل اور فاعل ہیں حتی کہ ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف جو مدینہ کے کبار تابعین میں سے ہیں ان کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ انہوں نے جمعہ کے دن لوگوں کو نماز فجر پڑھائی اور نماز میں ان دو سورتوں کو تلاوت فرمایا، جیسا کہ ابن ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ اسے روایت کیا ہے۔
(فتح الباري: 486/2) (2)
ان سورتوں کو جمعہ کے دن نماز فجر میں پڑھنے کی حکمت یہ بیان کی جاتی ہے کہ ان میں خلق آدم اور قیامت آنے کا ذکر ہے، پھر حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش جمعہ کے دن ہوئی تھی اور قیامت کے متعلق بھی احادیث میں ہے کہ جمعہ کے دن آئے گی، اس لیے خلق آدم اور آمد قیامت کے مضامین کو تازہ کرنے کے لیے جمعہ کے دن نماز فجر میں سورۂ سجدہ اور سورۂ دہر پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
(فتح الباري: 487/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 891   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1068  
1068. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جمعہ کے دن نماز فجر میں الم تنزيل السجدة اور ﴿هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ﴾ پڑھا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1068]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ الم تنزیل السجدہ میں سجدہ ہے، لیکن امام بخاری ؒ نے اس سورت کے نام سے سجدہ ثابت کیا ہے۔
ممکن ہے امام بخاری ؒ نے ان روایات کی طرف اشارہ کیا ہو جن میں سجدے کی صراحت ہے، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:
میں نے ایک دن جمعہ کی نماز فجر رسول اللہ ﷺ کے پیچھے ادا کی تو آپ نے اس میں سجدے والی سورت پڑھی اور اس میں سجدہ کیا۔
اس کے علاوہ حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر میں تنزیل السجدہ تلاوت فرمائی اور اس میں آپ نے سجدہ کیا، لیکن اس کی سند میں کچھ کمزوری ہے۔
(فتح الباري: 487/2) (2)
اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ امام بخاری ؒ کے تراجم کی دو اقسام ہیں:
(1)
فقہیہ (2)
شارحہ۔
فقہیہ سے مراد وہ عناوین ہیں جن میں کسی فقہی مسئلے کو ثابت کیا جاتا ہے اور شارحہ سے مراد وہ عناوین ہیں جن میں کسی حدیث کی تشریح کرنا مقصود ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا عنوان بھی فقہیہ نہیں بلکہ شارحہ ہے۔
عنوان سے آپ نے حدیث کی وضاحت فرمائی ہے کہ اس سورت میں سجدۂ تلاوت ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1068