وعن جبير بن مطعم رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقرأ في المغرب بالطور. متفق عليه.
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 227
فوائد و مسائل:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تو یہی تھا کہ مغرب میں قصار مفصل پڑھتے تھے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے، مگر بعض اوقات لمبی سورت بھی پڑھ لیتے تھے جیسا کہ اس حدیث میں سورہ طور پڑھنا ثابت ہوا۔ بعض روایات میں المرسلات، أعراف اور أنعام کا نماز مغرب میں پڑھنا بھی ثابت ہے۔ [صحيح البخاري، الأذان، حديث: 763، وسنن أبى داود، الصلاة، حديث: 812]
➋ آپ کے عمل سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے سفر کے دوران میں صبح کی فرض نماز میں صرف معوذتین کی تلاوت کی۔ [سنن أبى داود، الوتر، باب فى المعوذتين، حديث: 1462] نیز سیدنا معاذ بن عبداللہ جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کی دونوں رکعتوں میں «اِذَا زُلْزِلَتُ» تلاوت فرمائی۔ [سنن أبى داود، الصلاة، باب الرجل يعيد سورة واحدة فى الركعتين، حديث: 816] بہرحال عام معمول وہی تھا جو اوپر مذکور ہوا، البتہ کبھی کبھی اس کے خلاف بھی جائز ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 227
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 140
´نماز مغرب میں سورۂ طور پڑھنا`
«. . . عن محمد بن جبير بن مطعم عن ابيه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قرا بالطور فى المغرب . . .»
”. . . سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز مغرب میں سورہ طور پڑھتے ہوئے سنا . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 140]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 765، ومسلم 463، من حديث مالك به]
تفقه
➊ نماز مغرب میں (پوری) سورۂ طور اور اسی طرح سورۂ مرسلات کی قرأت ثابت ہے۔ دیکھئے: [الموطأ: ح 49]
➋ ابوعبداللہ الصنانکی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے خلافت (کے دور) میں مدینہ آیا تو آپ کے پیچھے مغرب کی نماز پڑھی۔ آپ نے پہلی دو رکعتوں میں (ہر رکعت میں) سورۂ فاتحہ اور قصارِ مفصل کی ایک (ایک) سورت پڑھی پھر تیسری رکعت میں سورۂ فاتحہ اور ایک آیت «رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ» پڑھی۔ [الموطأ 1/79 ح170، وسنده صحيح]
اس صدیقی اثر سے دو مسئلے معلوم ہوئے:
اول:
ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ پڑھنی چاہئے لہٰذا جو لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ ”نماز کی آخری دو رکعتوں میں اگر کچھ بھی نہ پڑھا جائے تو نماز جائز ہے۔“ یہ قول باطل ہے۔
دوم:
تیسری (اور چوتھی) رکعت میں سورۂ فاتحہ کے علاوہ بھی قرآنِ مجید میں سے پڑھنا جائز ہے۔
➌ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ (رباعی نماز کی) چاروں رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اور ایک سورت پڑھتے تھے اور بعض اوقات ایک رکعت میں دو یا تین سورتیں بھی پڑھ لیتے تھے۔ ديكهئے: [الموطأ 1/79 ح171، وسنده صحيح]
➍ اس روایت کی بعض سندوں میں آیا ہے کہ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز مغرب میں سورۂ طور پڑھتے ہوئے سنا تو اس وقت جبیر رضی اللہ عنہ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
اس سے علمائے کرام نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اگر کوئی کافر مسلمان ہو جائے تو حالت اسلام میں حالت کفر والی روایتیں بیان کر سکتا ہے اور انہیں قبول کیا جائے گا بشرطیکہ یہ راوی حالت اسلام میں ثقہ وصدوق ہو۔
➎ اس حدیث میں ان لوگوں کا رد بھی ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ نماز مغرب کا وقت بہت کم ہوتا ہے لہٰذا اس میں بالکل چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھی جائیں۔!
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 69
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث832
´مغرب میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان۔`
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب کی نماز میں «والطور» پڑھتے سنا۔ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے ایک دوسری حدیث میں کہا کہ جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ الطور میں سے یہ آیت کریمہ «أم خلقوا من غير شيء أم هم الخالقون» سے «فليأت مستمعهم بسلطان مبين»، یعنی: ”کیا یہ بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خودبخود پیدا ہو گئے ہیں؟ کیا انہوں نے ہی آسمانوں و زمینوں کو پیدا کیا ہے؟ بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں، یا کیا ان کے پاس تیرے رب کے خزانے ہیں؟ یا ان خزانوں کے یہ داروغہ ہیں، یا کیا ان کے پاس کوئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 832]
اردو حاشہ:
فائدہ:
حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ بد ر میں مشرکوں کی طرف سے شریک تھے۔
مسلمانوں نے جن غیر مسلموں کو جنگ میں گرفتار کیا تھا۔
ان میں یہ بھی شامل تھے۔
جب انھیں گرفتار کرکے مدینہ لایا گیا۔
اس دوران میں انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے مغرب کی نماز میں قرآن سنا۔ (صحیح البخاري، الجھاد، باب فداء المشرکین، حدیث 3050)
اس موقع پر ان کے دل میں ایمان جاگزیں ہوگیا۔ (صحیح البخاري، المغاذي، باب 12، حدیث: 4023)
قرآن کے اس اثر کو زیر مطالعہ حدیث میں انھوں نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
کہ قرآن سن کر مجھے یوں محسوس ہوا گویا میرا دل سینے سے نکل جائے گا۔
یعنی دل پر قرآن کا اس قدراثر ہوا کہ دل اسلام قبول کرنے کےلئے بے تاب ہوگیا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 832
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:566
566- محمد بن جبیر بن مطعم اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب ی نماز میں سورۂ طور کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے۔ سفیان نے یہ بات بیان کی ہے، محدثین نے اس روایت میں یہ الفاظ نقل کئے ہیں: سیدنا جبیر رضی اللہ عنہ یہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت سنا تھا، جب میں مشرک تھا، اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرا دل اڑ جاائے گا (یعنی میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے) تاہم زہری نے یہ الفاظ ہمارے سامنے بیان نہیں کیے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:566]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ خلاف معمول نماز مغرب میں لمبی سورت پڑھنا درست ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 566
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 765
765. حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو نمازِ مغرب میں سورہ طور پڑھتے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:765]
حدیث حاشیہ:
مغرب کی نماز کا وقت تھوڑا ہوتاہے، اس لیے اس میں چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھی جاتی ہیں۔
لیکن اگر کبھی کوئی بڑی سورت بھی پڑھ دی جائے تویہ بھی مسنون طریقہ ہے۔
خاص طور پر سورۃ طور پڑھنا کبھی سورۃ مرسلات۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 765
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3050
3050. حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے، وہ بدر کے قیدیوں کو چھڑانے کے سلسلے میں حاضر ہوئے تھے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو نماز مغرب میں سورہ طور پڑھتے سنا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3050]
حدیث حاشیہ:
ہر دو احادیث میں مشرکین سے فدیہ لینے کا ذکر ہے‘ مشرکین خواہ اپنے عزیز رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں اصل رشتہ دین کا رشتہ ہے۔
یہ ہے تو سب کچھ ہے‘ یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
حضرت عباس ؓ کے فدیہ کے بارے میں آپ ﷺ کا ارشاد گرامی بہت سی مصلحتوں پر مبنی تھا۔
وہ آپ کے چچا تھا‘ ان سے ذرا سی بھی رعایت برتنا دوسرے لوگوں کے لئے سوء ظن کا ذریعہ بن سکتا تھا‘ اس لئے آپ نے یہ فرمایا‘ جو حدیث میں مذکور ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3050
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:765
765. حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو نمازِ مغرب میں سورہ طور پڑھتے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:765]
حدیث حاشیہ:
:
(1)
رسول اللہ ﷺ بآواز بلند قراءت کررہے تھے، اس لیے حضرت جبیر بن مطعم آپ کی قراءت کو بیان کررہے ہیں۔
امام بخاری ؒ کا مقصد بھی یہ تھا کہ نماز مغرب میں بآواز بلند قراءت کو ثابت کیا جائے۔
(2)
واضح رہے کہ جبیر بن مطعم ؓ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے بلکہ آپ غزوۂ بدر کے جنگی قیدیوں کے متعلق مذاکرات کرنے کے لیے مدینہ آئے تھے۔
ان کا اپنا بیان ہے کہ جب میں نے سورۂ طور کو سنا تو میرا دل مارے دہشت کے پھٹنے لگا۔
میں اسی وقت مسجد سے نکل گیا۔
میرے دل میں اسی دن اسلام کی حقانیت جاگزیں ہوچکی تھی۔
(فتح الباري: 321/2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حالت کفر کی دیکھی یا سنی ہوئی بات کو مسلمان ہونے کے بعد بیان کیا جاسکتا ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 765
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3050
3050. حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے، وہ بدر کے قیدیوں کو چھڑانے کے سلسلے میں حاضر ہوئے تھے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو نماز مغرب میں سورہ طور پڑھتے سنا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3050]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت جبیر بن مطعم ؓ قریش کے سرداروں میں سے تھے وہ فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے۔
غزوہ بدر میں جو مشرکین قید ہوئے تھے وہ انھیں چھڑانے کے لیے مدینہ طیبہ آئے۔
اس وقت وہ مسلمان نہیں تھے۔
انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے قیدیوں کی رہائی کے متعلق گفتگو کی توآپ نے فرمایا:
”اگر تمھارا باپ آپ زندہ ہوتا اور ان پلید لوگوں کی سفارش کرنے آتا تو میں ضرور قبول کر لیتا۔
“ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4024)
اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد کا رسول اللھ ﷺ پر ایک احسان تھا کہ جب آپ طائف سے واپس ہوئے تو مطعم بن عدی نے آپ کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا۔
حضرت جبیر ؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے نماز مغرب میں سورہ طور کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
﴿أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ﴾ ”کیا وہ بغیر کسی خالق کے پیدا ہو گئے یا وہ خود اپنے خالق ہیں۔
“ (الطور: 52۔
35)
تو میرا دل مارے خوف کے ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا تھا۔
(صحیح البخاري، تفسیر، حدیث: 4854)
ایک روایت میں ہے اسی وقت ایمان میرے اندر جا گزیں ہو گیا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4023)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3050
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4854
4854. حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نماز مغرب میں سورہ والطور پڑھ رہے تھے۔ جب آپ درج ذیل آیات پر پہنچے: ﴿أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمْ الْمُسَيْطِرُونَ﴾ ”کیا وہ بغیر کسی چیز کے خود ہی پیدا ہو گئے ہیں یا یہ خود اپنے خالق ہیں یا آسمانوں اور زمین کو انہوں نے پیدا کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ وہ یقین ہی نہیں رکھتے۔ کیا ان کے پاس آپ کے پروردگار کے خزانے ہیں یا یہ ان خزانوں پر حکم چلانے والے ہیں؟“ تو یہ آیات سن کر میرا دل اڑنے لگا۔ حضرت سفیان نے بیان کیا: میں نے زہری سے سنا ہے، وہ محمد بن جبیر بن مطعم سے روایت کرتے تھے، ان سے ان کے والد جبیر بن مطعم ؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی ﷺ کو نماز مغرب میں سورہ والطور پڑھتے سنا۔ میرے ساتھیوں نے اس کے بعد جو اضافہ کیا وہ میں نے زہری سے نہیں سنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4854]
حدیث حاشیہ:
واقعہ یہ ہے کہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بدر کے قیدیوں میں تھے اور انھیں مسجد میں ٹھہرایا گیا تھا جیسا کہ ایک روایت میں صراحت ہے۔
(صحیح البخاري، الجهاد و السیر، حدیث: 3050)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زمانہ کفر میں سنی ہوئی بات یا دیکھا ہوا واقعہ ایمان لانے کے بعد بیان کیا جا سکتا ہے۔
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں نے ان آیات کو سنا تو اسلام قبول کرنے کے لیے میرے اندر شوق پیدا ہوا۔
آئندہ چل کر یہ مسلمان ہوئے اور اسلام کی سر بلندی کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4023)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4854