Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
7. باب صفة الصلاة
نماز کی صفت کا بیان
حدیث نمبر: 215
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يستفتح الصلاة بالتكبير والقراءة بالحمد لله رب العالمين،‏‏‏‏ وكان إذا ركع لم يشخص رأسه ولم يصوبه ولكن بين ذلك،‏‏‏‏ وكان إذا رفع من الركوع لم يسجد حتى يستوي قائما،‏‏‏‏ وكان إذا رفع رأسه من السجود لم يسجد حتى يستوي جالسا،‏‏‏‏ وكان يقول في كل ركعتين التحية،‏‏‏‏ وكان يفرش رجله اليسرى وينصب اليمنى،‏‏‏‏ وكان ينهى عن عقبة الشيطان وينهى أن يفترش الرجل ذراعيه افتراش السبع،‏‏‏‏ وكان يختم الصلاة بالتسليم.أخرجه مسلم وله علة.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا آغاز «الله اكبر» سے کیا کرتے تھے اور قرآت «الحمد لله رب العالمين» (سورۃ «فاتحه») سے شروع کرتے اور جب رکوع کرتے تو اپنا سر مبارک نہ اونچا کرتے اور نہ نیچا کرتے بلکہ اس کے درمیان کی حالت میں رکھتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس وقت تک سجدہ میں نہ جاتے جب تک کہ بالکل سیدھے کھڑے نہ ہو جاتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو دوسرا سجدہ اس وقت تک نہ کرتے جب تک کہ ٹھیک آرام سے بیٹھ نہ جاتے اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد پڑھتے اور اپنے بائیں پاؤں کو زمین پر بچھا لیتے اور دائیں کو قائم رکھتے (کھڑا رکھتے) شیطان کی چوکڑی سے منع فرماتے تھے اور درندوں کی طرح بازو آگے نکال کر بیٹھنے سے بھی منع فرماتے تھے اور نماز کو سلام کے ساتھ ختم کرتے تھے۔ (مسلم) اس کی سند معلول ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الصلاة، باب ما يجمع صفة الصلاة وما يفتح به، حديث:498، والعلة مردودة هاهنا.»

حكم دارالسلام: صحيح

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 215 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 215  
لغوی تشریح:
«يَسْتَفْتِحُ» آغاز فرماتے، شروع کرتے۔
«وَالْقَرَاءَةَ» منصوب ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ آپ قرأت شروع فرماتے، یعنی «يَفْتَتِحُ» فعل محذوف کا مفعول ہے، یا «اَلصَّلَاةَ» پر عطف ہے اور «يَسْتَفْتِحُ» کا مفعول ہے۔
«لَمْ يُشْخِصْ» «إِشْخَاص» سے ماخوذ ہے۔ (باب افعال۔) اونچا نہ اٹھاتے۔
«وَ لَمْ يُصَوِّبْهُ» تصویب سے ماخوذ ہے، یعنی بہت زیادہ نیچے نہ جھکا تے
«بَيْنَ ذٰلِكَ» ان دونوں کیفیتوں (اونچ، نیچ) کے مابین رکھتے۔
«فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ» دونوں رکعتوں کے بعد۔
«اَلتَّحِيَّةَ» یقول کا مفعول واقع ہو رہا ہے، یعنی تشہد «اَلتَّحِيَّاتُ للهِ . . . إلخ» پڑھتے تھے۔
«وَكَانَ يُفْرِشُ رِجْلُهُ الْيُسْرٰي» اور اپنا بایاں پاؤں زمین پر بچھا لیتے، یعنی اس پر بیٹھ جاتے۔ یہ کیفیت دو سجدوں کے مابین اور پہلے تشہد کے موقع پر بناتے جیسا کہ سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ [سنن أبى داود، الصلاة، باب من ذكر التورك فى الرابعة، حديث: 963]
«عُقْبَةِ الشَّيْطَانِ» عقبہ کی عین پر ضمہ اور قاف ساکن ہے (شیطان کی چوکڑی۔) اسے «إِقْعَاءُ الْكَلْب» بھی کہتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آدمی اپنی سرین کو زمین پر رکھے، گھٹنے اور پنڈلیاں کھڑی کر لے اور اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھ لیے۔ یاد رکھیے کہ اقعاء کی ایک تفسیر اور بھی ہے کہ اپنے دونوں پاؤں کھڑے رکھے اور ایڑیوں پر بیٹھ جائے۔ یہ (دوسری صورت) ممنوع نہیں ہے بلکہ عبادلہ اربعہ (عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر، اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھم) کے نزدیک آخری تشہد کے علاوہ یہی کیفیت مختار ہے۔
«اِفْتِرَاش السَّبُع» «سَبُع» کے سین پر فتحہ اور با پر ضمہ ہے۔ با کو مفتوح اور ساکن پڑھنا بھی جائز ہے۔ چیر پھاڑ کرنے والے جانور، یعنی درندے کو کہتے ہیں۔ درندے کی طرح بیٹھنے کی صورت یہ ہے کہ سجدے کی حالت میں اپنے بازوؤں کو کہنی تک لمبا بچھانے جیسے کہ درندے بیٹھتے ہیں، یہ ناجائز ہے۔
«وَلهُ عِلَّةٌ» علت اس روایت میں یہ ہے کہ اسے ابوالجوزاء نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے اور ابوالجوزاء کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع ہی ثابت نہیں۔ اس وجہ سے اس حدیث کو معلول قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ہمارے فاضل محقق حفظہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ علت مردود ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 215   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 783  
´ «بسم الله الرحمن الرحيم» زور سے نہ پڑھنے کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو تکبیر تحریمہ «الله اكبر» اور «الحمد لله رب العالمين» کی قرآت سے شروع کرتے تھے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے تو نہ اپنا سر اونچا رکھتے اور نہ اسے جھکائے رکھتے بلکہ درمیان میں رکھتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو سجدہ نہ کرتے یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاتے، اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو دوسرا سجدہ نہ کرتے یہاں تک کہ بالکل سیدھے بیٹھ جاتے، اور ہر دو رکعت کے بعد «التحيات» پڑھتے، اور جب بیٹھتے تو اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور اپنا داہنا پاؤں کھڑا رکھتے اور شیطان کی طرح بیٹھنے ۱؎ سے اور درندوں کی طرح ہاتھ بچھانے ۲؎ سے منع کرتے اور نماز سلام سے ختم کرتے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 783]
783۔ اردو حاشیہ:
ان احادیث سے استدلال یہ ہے کہ قراءت کی ابتداء «الحمد الله رب العالمٰين» کے الفاظ سے ہوتی تھی نہ کہ «بسم الله» کے الفا ظ سے مگر شوافع وغیرہ جو «بسم الله» جہر پڑھنے کے قائل ہیں، وہ ان احادیث کا مفہوم یہ بتاتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ قراءت کی ابتداء سورۃ فاتحہ سے ہوتی تھی نہ کہ کسی اور سورت سے اور بقول ان کے «بسم الله» ہر سورت کا جز ہے۔ مگر دلائل کو جمع کیا جائے تو ان سے «بسم الله» کو خامو شی سے پڑھنے کی جانب راحج ثابت ہوتی ہے۔ جیسے کہ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور مسند احمد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ حضرات بسم اللہ جہراً نہ پڑھا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري۔ حديث نمبر 743 وصحيح مسلم حديث 399۔ ومسند احمد 255/3۔ 298]
➋ ہر دو رکعت کے بعد «التحيات» تین یا چار رکعت والی نماز میں ہے، مگر وتر کے لئے بصراحت ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تین یا پانچ رکعت وتر ایک ہی سلام سے پڑھتے۔ تو درمیان میں کوئی «التحيات» تشہد نہ پڑھتے، صرف آخری رکعت میں پڑھتے تھے۔
شیطان کی چوکڑی سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنے سرین کو زمین پر رکھ لے، پنڈلیاں کھڑی کر لے اور ہاتھوں کو زمین پر رکھ لے، یہ ناجائز ہے۔ مگر «اقعاء» کی ایک دوسری صورت یہ ہے کہ اپنے سرین کو اپنی ایڑیوں پر رکھے، جبکہ پاؤں پنجوں پر کھڑے کیے ہوں۔ تو سجدوں کے درمیان یہ صورت جائز ہے۔
درندوں کی طرح بیٹھنا اس سے مراد یہ ہے کہ سجدے میں اپنے ہاتھ زمین پر کہنی تک لمبے بچھا لے جیسے کے درندے بیٹھتے ہیں، یہ ناجائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 783   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1110  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کا آغاز تکبیر سے اور قرأت کا آغاز ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن﴾ سے کرتے اور جب رکوع کرتے تو اپنا سر نہ (پشت) سے اونچا کرتے اور نہ اسے نیچا کرتے بلکہ دونوں کے درمیان رکھتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے، سجدہ نہ کرتے حتیٰ کہ سیدھے بیٹھ جاتے اور ہر دو رکعتوں کے بعد التحیات پڑھتے اور اپنا بایاں پاؤں بچھا لیتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور شیطان کی بیٹھک سے منع فرماتے اور اس سے بھی منع فرماتے کہ انسان اپنی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1110]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
لَمْ يُشْخِصْ رَأْسَه وَلَمْ يَصَوِّبْ:
اشخاص بلند کرنے اور اٹھانے کو کہتے ہیں،
اور تصویب بہت نیچا کرنے کو۔
مقصد یہ ہے کہ اشخاص اور تصویب میں اعتدال اور توسط اختیار کرتے۔
(2)
عُقْبة اور عقب کا معنی ہے،
کتے اور درندے کی طرح سرین زمین پر رکھ لینا اور پنڈلیاں کھڑی کرکے ہاتھ زمین پر رکھ لینا۔
فوائد ومسائل:
(1)
نماز آغاز ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن﴾ سے کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآءت کا آغاز سورہ فاتحہ سے کرتے یہ معنی نہیں ہے کہ بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے اور قرآءت سے بھی پہلے آپ دعائے استفتاح پڑھتے تھے کیونکہ بسم اللہ تو پڑھنی ہوتی ہے۔
اختلاف تو اس کے جہر یا سر میں ہے کہ بلند پڑھیں گے یا آہستہ- (2)
رکوع میں پشت کو بالکل ہموار اور برابر رکھا جائے گا اور سر کو بھی نہ اونچا کیا جائے گا اور نہ نیچا اعتدال اور توسط کے ساتھ پشت کی سطح پر رکھا جائے گا اس طرح رکوع کے بعد قومہ اور دونوں سجدوں کے درمیان جلسہ میں سکون اور اطمینان کے ساتھ ہر عضو اور جوڑ کو اپنی اپنی جگہ پر آنے کا موقع دیا جائے گا تیز رفتاری اور عجلت سے کام نہیں لیا جائے گا۔
(3)
ہر دو رکعت کے بعد التحیات کے لیے بیٹھیں گے امام احمد اور محدثین کے نزدیک دونوں تشہد ضروری ہیں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دونوں واجب ہیں جو حنفی اصطلاح کے مطابق فرض سے کم تردرجہ ہے فرض نہیں ہیں مالکیہ کے نزدیک سنت ہیں اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پہلا تشہد سنت ہے اور دوسرا فرض ہے دونوں تشہدوں میں دایاں پاؤں کھڑا کر کے بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھیں گے امام مالک کے نزدیک دونوں جگہ تورک ہے یعنی دایاں پاؤں کھڑا کر کے سرین پر بیٹھیں گے اور بائیں پاؤں کو اس کے نیچے سے نکال لیں گے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سلام والے تشہد میں تورک ہے اور جس میں سلام نہ ہو اس میں افتراش (بائیں پاؤں پر بیٹھنا)
اور محدثین کا موقف بھی یہی ہے اور حنابلہ کے نزدیک جہاں دو تشہد ہیں وہاں پہلے میں افتراش اور دوسرے میں تورک اور جہاں تشہد ایک ہی ہے جیسے صبح کی نماز جمعہ اور عیدین وہاں افتراش ہے خلاصہ یہ ہے کہ سلام والے جلسہ کے سوا تمام جلسات میں افتراش ہے۔
(4)
آئمہ ثلاثہ مالک،
شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
احمد رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور سلف کے نزدیک سلام فرض ہے اور احناف کے نزدیک واجب ہے بعض حضرات نے لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سلام کی جگہ کوئی ایسا کام کرنا جو نماز کے منافی ہو کفایت کر جائے گا لیکن علامہ کرخی اور ان کے ہمنوا حضرات کے نزدیک سلام ہی پھیرا جائے گا وہ خروج بصنعہ نماز کے منافی حرکت کی فرضیت کو تسلیم نہیں کرتے صاحب ہدایہ اور ان کے ہمنوا خروج بصنعہ ہی کو فرض قرار دیتے ہیں ترک واجب سے بعض احناف کے نزدیک گناہ لازم آتا ہے اور بعض کے نزدیک نماز کا دہرانا (اعادہ)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1110