Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
6. باب المساجد
مساجد کا بیان
حدیث نمبر: 196
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏قاتل الله اليهود اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد» .‏‏‏‏ متفق عليه،‏‏‏‏ وزاد مسلم: «‏‏‏‏والنصارى» .‏‏‏‏ولهما من حديث عائشة رضي الله عنها: «‏‏‏‏كانوا إذا مات فيهم الرجل الصالح بنوا على قبره مسجدا» .‏‏‏‏ وفيه: «‏‏‏‏أولئك شرار الخلق» .‏‏‏‏
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ یہودیوں کو غارت و برباد کرے انہوں نے انبیاء کرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔
اسے بخاری و مسلم دونوں نے روایت کیا ہے اور مسلم نے نصاریٰ کے لفظ کا اضافہ بھی نقل کیا ہے۔ بخاری و مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب ان میں صالح آدمی فوت ہو جاتا ہے تو یہ اس کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیتے۔ اس حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ یہ بدترین مخلوق ہیں۔

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الصلاة، باب (55)، حديث:437، ومسلم، المساجد، باب النهي عن بناء المساجد علي القبور...، حديث: 530، وحديث عائشة أخرجه البخاري، الصلاة، حديث:427، ومسلم، المساجد، حديث:528.»

حكم دارالسلام: صحيح

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 196 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 196  
لغوی تشریح:
«قَاتَلَ» «لَعَنَ» اور «أَهْلَكَ» کے معنی میں استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں: اللہ کی لعنت ہو اور اللہ انہیں تباہ و برباد کرے۔ قبروں کو مساجد بنا لینے کی وجہ سے ملعون قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ فعل حرام ہے۔
«زَادَ مُسْلِمٌ وَالنَّصَارٰي» امام مسلم نے یہود کے بعد لفظ نصاریٰ کا اضافہ نقل کیا ہے۔ (اس فعل کے نصاریٰ بھی مرتکب ہوتے ہیں)۔
«شِرَار» «شَرٌّ» کی جمع ہے۔ یہ اسم تفضیل «أَشَرُّ» کے معنی میں استعمال ہوا ہے جس کے معنی بدترین اور شریرترین کے ہیں اور «اَلْخَلْق» مخلوق کے معنی میں استعمال ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام قسم کی مخلوقات میں سے یہ بدترین مخلوق ہیں۔

فوائد و مسائل:
➊ قرآن کے بیان کے مطابق یہ اہل کتاب ہیں جنہیں آسمانی کتب دی گئیں مگر ان بدبختوں نے اپنے انبیائے کرام علیہم السلام کی وفات کے بعد ان کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا اور ان سے اپنی حاجات طلب کرنا شروع کر دیں۔
➋ اس فعل حرام کا ارتکا ب جس طرح یہودیوں نے کیا اسی طرح عیسائیوں نے بھی کیا۔ اس طرح یہ شرک جلی کے مرتکب ہوئے جو خالق کائنات کی نظر میں سنگین ترین اور ناقابل معافی جرم ہے۔
➌ اب نام کے مسلمانوں کو غور کرنا اور سوچنا چاہیے کہ قبروں کو سجدہ گاہ بنا کر کن گمراہ لوگوں کی یاد تازہ کر رہے ہیں اور کس جرم کا ارتکاب کر کے شرار الخلق کے زمرے میں شامل ہو رہے ہیں؟
➍ یہ فعل بت پرستی کے مشابہ ہے۔ یہی کام غیر کرے تو قابل صد لعنت اور اگر مسلمان کہلانے والا کرے تو باعث اجر وثواب! یہ اپنے آپ کو فریب اور دھوکے میں مبتلا کرنے کے سوا اور کیا ہے؟ اس قبر پرستی کے جو نتائج آج برآمد ہو رہے ہیں وہ سب کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ بت برستوں کی تہذیب غالب آ رہی ہے، ان کا تمدن ہر سو چھایا ہوا ہے، ان کے طور طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایسے افعال قبیحہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
➎ قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں: ایک تو یہ کہ جو افعال مساجد میں صرف اللہ کے لیے انجام دیے جاتے ہیں وہی قبروں پر انجام دیے جائیں، مثلاً: سجدہ اور رکوع کیا جائے یا ہاتھ باندھ کر تعظیماً ان کے سامنے قیام کیا جائے۔ اور دوسرا یہ کہ قبروں کے نزدیک مساجد تعمیر کی جائیں اور میت کی تعظیم و تکریم کی بنا پر دوسری مساجد سے انہیں متبرک سمجھا جائے، یہ شرعاً درست نہیں ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 196   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3227  
´قبر پر عمارت بنانا۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ یہود کو غارت کرے انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3227]
فوائد ومسائل:

قبروں پرمسجدیں بنانا یا مسجدوں کے پاس اموات کودفن کرنا دونوں ہی صورتیں ناجائز ہیں۔
خیال رہے کہ ر سول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کا مسجد نبوی میں آجانا ایک اتفاقی واقعہ ہے۔
آپﷺ کا اپنے اس حجرے میں دفن ہونا آپ کی خصوصیت تھی۔
اور اسوقت یہ حجرہ مسجد سے الگ تھا۔

زائر حرم نبوی کے لئے واجب ہے کہ اگر وہ قبر نبوی کے قریب بھی نماز پڑھے۔
توقلبی طور پر اللہ کی طرف لو لگائے رہے۔
اور بیت اللہ الحرام کو اپنا قبلہ سمجھے۔
کسی قبر کو قبلہ بنا کر نماز پڑھنا حرام ہے۔
اس موضوع پر علامہ البانی کی تالیف تحزیر المساجد ایک اہم قابل مطالعہ کتاب ہے۔
قبروں پرمسجدین اور اسلام کے نام سے اس کا ترجمہ ہوچکا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3227   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1055  
1055- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: اے اللہ! تو میری قبر کو بت نہ بنا دینا۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر لعنت کرے، جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا دیا تھا۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1055]
فائدہ:
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو پورا کیا اور آج تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر عبادت گاہ نہیں بن سکی اور روز قیامت تک عبادت گاہ نہیں بن سکے گی، آج کے بعض قبر پرست دعویٰ کرتے ہیں کہ عرب حکومت ختم ہوگی اور وہاں ہماری حکومت ہوگی، پھر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو دیکھنا کیا کچھ کریں کے، یعنی عبادت گاہ بنائیں گے، استغفر اللہ۔ یہ برا گماں ہرگز پورا نہیں ہوسکتا، الحمد للہ۔ گویا عرب پر ان کی بھی حکومت نہیں آ سکتی۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1054   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:437  
437. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہودیوں کو غارت کرے، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:437]
حدیث حاشیہ:

قبروں پر مساجد تعمیر کرنا اور انھیں عبادت گاہ بنانا افراط ہے اور ان کی بے حرمتی کرنا انھیں بلا وجہ اکھاڑنا تفریط ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے افراط و تفریط سے منع فرمایا ہے۔
ان احادیث میں قبروں کے متعلق یہود و نصاری کے افراط کو بیان کیا گیا ہے۔
امام بخاری ؒ نے ان احادیث پر کوئی عنوان قائم نہیں کیا، کیونکہ یہ پہلے باب کا نتیجہ یا تکملہ ہے۔
احادیث میں قدر مشترک یہ ہے کہ قبروں کو مساجدکا درجہ دینے سے منع کیا گیا ہے۔
امام بخاری ؒ اس فعل کی شناعت بیان کرتے ہیں کہ یہ فعل انتہائی قابل مذمت ہے، خواہ ان میں تصاویر رکھی جائیں یا تصاویر کے بغیرہوں۔
(فتح الباری: 689/1)
عنوان ذکر نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہود ونصاری کی عبادت گاہوں میں نماز کی کراہت اس وجہ سے ہے کہ وہاں مجسمے اور تصاویر ہوتی ہیں، بصورت دیگر اصل کے اعتبار سے تو ہر جگہ نماز جائز ہے، ممانعت کی اصل وجہ منکرات اور خلاف شرع امور کا پایا جانا ہے۔
اس بنا پر یہ ممانعت یہود ونصاریٰ کے عبادت خانوں کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ اگر مسلمانوں کی مساجد میں بھی ایسی کوئی صورت پیدا ہو جائے تو ان میں بھی نماز پڑھنا کراہت سے خالی نہ ہو گا، مثلاً:
کسی مسجد میں نمایاں طور پر قبر کو برقرار رکھا گیا ہو۔
گویا امام بخاری ؒ یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ مساجد میں قبروں کو باقی رکھنا ایسا ہی سے جیسے یہود ونصاری کے عبادت خانوں میں تصاویر کا پایا جانا۔
چنانچہ ان احادیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا جا سکتا ہے:
(باب كراهية الصلاة في المساجد التي فيها القبور)
ایسی مساجد میں نمازپڑھنا مکروہ ہے جن میں قبروں کو برقرار رکھا گیا ہو۔

پہلی حدیث میں ایک اشکال ہے کہ اس میں مشرکانہ عمل کے لیے یہود ونصاری دونوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے جبکہ واقعہ یہ ہے کہ انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کے اصل مجرم تو یہودی ہیں نصاری نے کسی نبی کی قبر کو سجدہ گاہ نہیں بنایا کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا تھا اور ان کی قبر بنانے کی نوبت ہی نہیں آئی اور ان کے بعد رسول اللہ ﷺ تک کوئی اور نبی بھی نہیں آیا تو ان حالات میں انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کے جرم میں نصاری کو یہود کے ساتھ شریک کرنا چہ معنی وارد؟ اس کی متعدد توجیہات حسب ذیل ہیں۔
عیسیٰ ؑ کے بعد نبی توآئے تھے، لیکن وہ رسول نہ تھے۔
جیسا کہ حواربیین میں سے بعض اس کام کے لیے مامور کیے گئے تھے جن کا تذکرہ سوریٰس آیات 13تا18میں ہے۔
اس لیے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کا الزام ان پر براہ راست بھی عائد ہو سکتا ہے۔
حدیث میں انبیاء علیہم السلام کے ساتھ کبار اتباع بھی مراد ہیں۔
جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ یہود ونصاریٰ نے اپنے انبیاء اور صلحاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔
یہی وجہ ہے کہ حدیث نمبر434 میں جب نصاریٰ کا بطور خاص ذکر ہوا تو وہاں کسی نیک بندے کی قبر کو سجدہ گاہ بنانے کا حوالہ دیا گیااور جب حدیث نمبر436 میں یہود کو بطور خاص بیان کیا گیا تو انبیاء کی قبروں کو سجدہ گا ہ بنانے کا تذکرہ ہوا ہے۔
اگرچہ اس کام کے موجود یہودی تھے، لیکن نصاریٰ نے اس فعل بد کا برابر اتباع کیا، لہٰذا اس لعنت میں دونوں شریک ہو گئے۔
یہودی ابتداع (پہلے پہل یہ کام کرنے)
کے طور پر اور عیسائی اتباع (یہود کی پیروی)
کے طور پر(فتح الباری: 689/1)

ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ حدیث اس وقت بیان فرمائی ہو جب آپ کے سامنے حضرت اُم سلمہ ؒ اور اُم حبیبہ ؒ نے سر زمین حبشہ پر کنیسہ ماریہ کے متعلق اپنے چشم دیدواقعات بیان کیے ہیں جن کا ذکر اس سے قبل حدیث 434 میں ہوا ہے اور مرض وفات میں آپ کو قرائن و آثار یا بذریعہ وحی معلوم ہوگیا ہو کہ اب دنیا سے روانگی کا وقت بھی قریب آپہنچا ہے تو آپ نے امت کو تنبیہ فرمائی کہ میری قبر پر میلہ نہ لگانا اور اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ یا اللہ!میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پوجا پاٹ ہو نے لگے۔
(مسند احمد: 246/2)
آپ نے اس وقت یہ حدیث بھی ازراہ احتیاط بیان فرمائی کہ مبادا آپ کی قبر کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے۔
لیکن دور حاضر کے نام نہاد مسلمانوں پر افسوس کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی آخری خواہش کا احترام کرنے کے بجائے اس کی خلاف ورزی میں مصروف ہیں اللہ تعالیٰ حکومت سعودیہ اور اس کے ذمہ داران کوا اپنے ہاں جزائے خیر دے کہ وہ لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک پر غیر شرعی کام کرنے سے روکتے ہیں، اس سے بڑھ کر یہ بات افسوس ناک ہے کہ بدعتی حضرات کی طرف سے یہ مطالبہ سننے میں آرہا ہے کہ مدینہ منورہ کو کھلا شہر قراردیا جائے تاکہ یہ لوگ اپنی مرضی سے وہاں بدعات و خرافات کورواج دے سکیں 4۔
اس حدیث کی روشنی میں ہم عام مسلمانوں کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آج اکثر یت حدیث نبوی کی مخالفت پر کمر بستہ ہے مثلاً رسول اللہ ﷺ نے قبور انبیاء پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا، مگر مسلمان قبروں پر عبادت کرنے کو اپنی سعادت خیال کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے قبروں پر عمارت کھڑی کرنے سے منع فرمایا، لیکن مسلمان ان پر مزارات اور خانقاہیں تعمیر کرتے ہیں اور انھیں دربار کا نام دیتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے قبروں پر چراغاں کرنے سے منع فرمایا، لیکن مسلمان قبروں پر قمقموں اور روشنیوں کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے قبروں پر زائد مٹی ڈالنے سے منع فرمایا مگر یہ حضرات ماربل اور چینی کی ٹائلیں لگا کر انھیں پختہ کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے قبروں پر لکھنے سے منع فرمایا، مگر ہمارے رواجی مسلمان قرآنی آیات پر مشتمل کتبے آویزاں کرتے ہیں اور صاحب قبر کا نام کندہ کراتے ہیں، بلکہ آج تو بیت اللہ کی طرح بعض قبروں کا طواف اور وہاں"مناسک حج " ادا کیے جاتے ہیں۔
(هَدَاهُمُ اللهُ تَعَالى)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 437