Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
5. باب الحث على الخشوع في الصلاة
نماز میں خشوع و خضوع کی ترغیب کا بیان
حدیث نمبر: 193
وعن جابر بن سمرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏لينتهين أقوام يرفعون أبصارهم إلى السماء في الصلاة،‏‏‏‏ أو لا ترجع إليهم» .‏‏‏‏ رواه مسلم. وله عن عائشة رضي الله عنها قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «‏‏‏‏لا صلاة بحضرة طعام ولا هو يدافعه الأخبثان» .‏‏‏‏
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان قوم نماز میں اپنی نظریں آسمان کی جانب اٹھانے سے باز آ جائے ورنہ ایسا نہ ہو کہ پھر ان کی نظریں واپس ہی نہ آئیں (یعنی نابینا ہو جائیں)۔ (مسلم) اور مسلم ہی میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جب کھانا حاضر ہو اور قضائے حاجت پیش ہو تو نماز نہیں ہوتی۔

تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الصلاة، باب النهي عن رفع البصر إلي السماء في الصلاة، حديث:428، وحديث عائشة أخرجه مسلم، المساجد، حديث:560.»

حكم دارالسلام: صحيح

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 193 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 193  
لغوی تشریح:
«لِيَنْتَهِيَنَّ» انتھاء سے ماخوذ ہے اور اس میں لام، قسم محذوف کے جواب میں آیا ہے۔ آخر میں نون مشددہ تاکید کے لیے ہے اور یہ خبر امر کے معنی میں ہے، یعنی رک جائیں، باز آجائیں۔
«أَوْ لَا تَرْجِعُ» یعنی ان کی نظریں واپس نہیں لوٹیں گی۔
«إِلَيْهِمْ» ان کی طرف، یعنی وہ نابینے ہو کر رہ جائیں گے۔ دونوں میں سے ایک کا وقوع لازمی ہے یا تو لوگ نماز میں اپنی نظریں اٹھانے سے باز آ جائیں گے یا پھر بطور سزا اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں چھین لے گا۔
«وَلَا وَهُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ» یعنی اس وقت بھی نماز نہیں ہوتی جب نمازی پیشاب یا پاخانہ روک کر نماز پڑھے۔ «وَهُوَ» کی واؤ حالیہ ہے۔ اور دو خبیث چیزوں سے مراد پیشاب اور پاخانہ ہے۔ مدافعت باب مفاعلہ ہے جس میں مشارکت کا خاصا ہے۔ اس کے معنی ہیں: ایک دوسرے کو دھکیلنا۔ گویا نمازی ان کو دھکیلتا اور روکتا ہے اور وہ نمازی کو فراغت کی طرف کھینچتے اور دھکیلتے ہیں۔

فوائد و مسائل:
➊ نماز كے دوران ميں آسمان کی جانب نظریں اٹھانا حرام ہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ایسا کرنے والے کی نماز ہی نہیں رہتی۔ [المحلي لا بن حزم: 74، مسئله 382] امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں کہا ہے کہ اس میں سخت نہی اور وعید ہے۔ انہوں نے اس نہی کے تحریمی ہونے پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے۔ [صحيح مسلم بشرح النووي، 199/4، 200، مطبوعة مؤسسة قرطبة]
➋ اسی طرح نماز شروع کرنے سے پہلے قضائے حاجت کی اگر شدید حاجت ہو تو اسے روک کر نماز ادا نہیں کرنی چاہئیے۔ ایسی نماز نہیں ہو گی۔ بول و براز کی جب شدید حاجت ہو تو اس وقت یہ دونوں، نمازی کو ان سے فراغت کی جانب بزور کھینچ لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے نماز میں یکسوئی نہیں رہتی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 193   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 912  
´نماز میں (ادھر ادھر) دیکھنے کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ نماز میں اپنے ہاتھ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لوگ نماز میں اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں انہیں چاہیئے کہ اس سے باز آ جائیں ورنہ (ہو سکتا ہے کہ) ان کی نگاہیں ان کی طرف واپس نہ لوٹیں یعنی بینائی جاتی رہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 912]
912۔ اردو حاشیہ:
نماز کے دوران میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھانا جائز ہے، جیسے کہ قنوت میں اٹھائے جاتے ہیں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اللہ کی حمد کے لئے اٹھائے تھے۔ دیکھئے: (حدیث۔ 940۔ 941) لیکن نظریں آسمان کی طرف اٹھانا صحیح نہیں، اس حدیث میں انکار نظریں اٹھانے پر ہے، نہ کہ ہاتھ اٹھانے پر۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 912