بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
5. باب الحث على الخشوع في الصلاة
نماز میں خشوع و خضوع کی ترغیب کا بیان
حدیث نمبر: 192
وعنه قال: كان قرام لعائشة رضي الله عنها، سترت به جانب بيتها، فقال لها النبي صلى الله عليه وآله وسلم: «أميطي عنا قرامك هذا، فإنه لا تزال تصاويره تعرض لي في صلاتي» . رواه البخاري. واتفقا على حديثها في قصة أنبجانية أبي جهم وفيه: «فإنها ألهتني عن صلاتي» .
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک زیبائشی چادر (برائے پردہ) تھی جو انہوں نے اپنے حجرے کے ایک طرف لٹکا رکھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ” زیبائشی چادر کو میرے سامنے سے ہٹا دو کیونکہ اس کی تصویریں میری نماز میں میرے سامنے آتی ہیں (نماز میں خلل اندازی کا باعث بنتی ہیں)۔ “ بخاری اور مسلم دونوں ابوجہم کی چادر انبجانیہ کے قصہ پر متفق ہیں اس میں ہے کہ ” اس چادر نے مجھے میری نماز سے غافل کر دیا۔ “
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الصلاة، باب إذا صلي في ثوب مصلب أو تصاوير...، حديث:374، وحديث أنبجانية أبي جهم أخرجه البخاري، الصلاة، حديث: 373، ومسلم، المساجد، حديث:556.»
حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 192 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 192
� لغوی تشریح:
«قِرَام» ”قاف“ کے نیچے کسرہ اور ”را“ پر تخفیف ہے۔ مختلف رنگوں والا باریک کپڑا۔
«أَمِيطِي» مجھ سے دور کردو۔
«تَصَاوِيرُهُ» اس کی علامات اور نقوش۔ ضروری نہیں کہ یہ نقوش حیوانات کے ہوں کہ جسے حیوان اور انسان کی تصویر کے جواز کی دلیل بنا لیا جائے۔
«تَعْرضُ» ظاہر اور نمایاں ہوتے رہے ہیں۔
«فِي قِصَّةِ أَنْبِجَانِيَة» ”ہمزہ“ مفتوح، ”نون“ ساکن، ”با“ کے نیچے کسرہ اور ”جیم“ مخفف ہے۔ ”الف“ کے بعد والا ”نون“ مکسور اور یائے نسبتی پر تشدید ہے، یعنی اونی چادر بغیر نقوش کے۔ قصہ اس کا یہ ہے کہ ابوجہم رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک چادر تحفے کے طور پر پیش کی، اس چادر میں کچھ نقوش و اعلام تھے اور وہ تھی بھی باریک۔ آپ نے اسے پہن کر یا اوڑھ کر نماز ادا فرمائی تو آپ کی نظر اعلام و نقوش کی جانب مبذول ہو گئی۔ نماز سے فارغ ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس چادر کو ابوجہم ہی کے پاس لے جاؤ اور اس سے مجھے أنبجانيه چادر لا دو۔“ آپ نے ابوجہم رضی اللہ عنہ کی خمیصۃ (نقش دار چادر) کے بدلے میں بغیر نقوش والی أنبجانية چادر اسی سے طلب فرمائی تاکہ ایسا نہ ہو کہ ابوجہم رضی اللہ عنہ کی دل شکنی ہو کہ اس کے تحفے کو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس کر دیا ہے۔
«فَإِنَّهَا أَنهَتنِي عَنْ صَلَاتِي» یعنی ابوجہم رضی اللہ عنہ کی چادر نے مجھے غافل اور مشغول کر دیا
«لهي يلهي» ”ہا“ کے نیچے کسرہ بمعنی غافل کر دینا اور یہ «لها يلهو لهوا» سے ماخوذ نہیں ہے جس کے معنی کھیلنے کے آتے ہیں۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہر وہ چیز جس سے نمازی کی توجہ ہٹ کر اس چیز کی طرف ہو جانے کا اندیشہ ہو اسے دور کرنا چاہیئے تا کہ وہ نماز میں خلل انداز نہ ہو۔
➋ اگر اسے دور کرنا اور ہٹانا بس میں نہ ہو تو خود سامنے سے ہٹ جانا چاہئیے تا کہ خشوع و خضوع اور توجہ میں کمی پیدا نہ ہو۔
وضاحت:
(سیدنا ابوجہم رضی اللہ عنہ) یہ ابن حذیفہ بن غانم قرشی العدوی ہیں۔ عدی قبیلہ میں سے ہونے کی وجہ سے عدوی کہلائے۔ ان کا اصل نام عامر یا عبید ہے۔ فتح مکہ کے سال اسلام قبول کیا۔ عمر رسیدہ لوگوں میں سے تھے۔ جب قریش نے کعبہ کو تعمیر کیا، یہ اس موقع پر موجود تھے اور ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے تعمیر کعبہ کے وقت بھی موجود تھے۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی خلافت کے ابتدائی ایام میں وفات پائی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 192
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:374
374. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت عائشہ ؓ کے پاس ایک پردہ تھا جسے انھوں نے گھر کی ایک طرف لٹکا رکھا تھا۔ نبی ﷺ نے (اسے دیکھ کر) فرمایا: ”ہمارے سامنے سے اپنا یہ پردہ ہٹا دو کیونکہ اس کی تصویریں مسلسل میری نماز میں سامنے آتی رہتی ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:374]
حدیث حاشیہ:
1۔
عنوان میں اگر تصاویر کا عطف (مصلّب)
پر ہو تو اس کے معنی یہ ہوں گے۔
اگر ایسے کپڑے میں نماز پڑھی جائے جس پر صلیب کا نقش ہو یا دوسری تصویریں ہوں تو اس کا کیا حکم ہے؟ اگر اس کا عطف "ثوب" پر ہو تو اس کا ترجمہ یوں ہو گا اگر ایسے کپڑے میں نماز پڑھی جائے جس پر صلیب کا نشان ہو یا ایسی جگہ پر نماز ادا کی جائے جہاں تصاویر ہوں تو ایسی نماز کا کیا حکم ہے؟اس روایت سے تصاویر کے متعلق معلوم ہوا کہ نماز تو فاسد نہیں ہو گی، البتہ کراہت برقرار رہے گی۔
اس حدیث کی تفصیل دیگر روایات میں اس طرح ہے کہ حضرت عائشہ ٍ کے پاس ایک پردہ تھا جسے انھوں نے گھر کے ایک حصے پر لٹکا رکھا تھا رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف نماز پڑھ کرناگواری کا اظہار فرمایا۔
حضرت عائشہ ؓ نے اسے اتار کر دوٹکڑے کر دیے جو دو تکیوں کے غلاف بنے۔
رسول اللہ ﷺ ان پر تکیہ لگا کر آرام فرماتے تھے۔
(سنن النسائي، الزینة، حديث: 5357)
اس سے معلوم ہوا کہ شریعت کا منشا ان تصاویر و تماثیل کی توہین کرنا اور انھیں عزت واحترام کے مقام سے گرانا ہے، لہٰذا ہر وہ صورت جس سے اس کی تعظیم ہوتی ہو ممنوع ہوگی۔
اور جس سے اس کی اہانت ہو وہ مطلوب مجسمے یا تصاویر بنانا اور فوٹو لینا بہر صورت ناجائز و حرام ہیں، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق کی مشابہت کے علاوہ عبادت غیر اللہ اور بہت سے مفاسد ہیں، یعنی ان سے بے شمار برائیوں اور بداخلاقیوں کا دروازہ کھلتا ہے۔
اس لیے ناجائز و حرام ہیں۔
چونکہ یہاں مقصود نماز کا مسئلہ ہے تصویر کا مسئلہ بتانا مقصود نہیں، لہٰذا اس کی تفصیل کتاب اللباس میں آئے گی۔
2۔
اس روایت میں اگرچہ صلیب کا ذکر نہیں، تاہم رسول اللہ ﷺ کو اس کا نقش اس درجہ قابل نفرت تھا کہ جہاں اس کا نقش پاتے اسے مٹا دیتے یا اکھاڑ دیتے، چنانچہ حدیث میں ہے حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ اپنے اپنے گھر میں اگر کوئی ایسی چیز دیکھتے جس پر صلیب کا نشان ہوتا تو اسے توڑڈالتے۔
(صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5952)
امام بخاریؒ نے مذکوہ حدیث پیش کر کے اس روایت کی طرف اشارہ کردیا جس میں صلیب کے توڑنے کا ذکر ہے۔
بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ صلیب بھی ایک شکل میں تصویر ہی ہے اور تصویر ہی کے حکم میں اسے ممنوع قراردیا جائے گا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے یہ جواب دیا ہے کہ چونکہ دونوں کی عبادت کی جاتی ہے، لہٰذا ایک ذکر کر کے دوسری کو اس پر قیاس کر لیا گیا۔
(فتح الباري: 628/1)
ممکن ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے گھر کی کسی دیوار میں عیب ہوا اور آپ نے اسے چھپانے کے لیے یہ پردہ استعمال کیا ہو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے زیب و زینت کے طور پر درودیوار کی پردہ پوشی سے منع کیا ہے۔
فرمان نبوی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع فرمایا ہے کہ ہم اس کے رزق کو پتھروں اور اینٹوں کی پوشش پر صرف کریں۔
(سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4153)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 374
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5959
5959. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ سیدہ عائشہ ؓ کے پاس ایک پردہ تھا جو انہوں نے گھر کے ایک کنارے پر لٹکا رکھا تھا۔ نبی ﷺ نے انہیں فرمایا: ”اس پردے کو مجھ سے دور کردو کیونکہ اس کی تصاویر میری نماز میں میرے سامنے آتی رہتی ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5959]
حدیث حاشیہ:
(1)
پہلے ایک حدیث میں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل نہیں ہوتے تھے کیونکہ گھر میں ایک تصویردار پردہ تھا، جبکہ اس حدیث کے مطابق تصویروں والے پردے کی موجودگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی، ان دونوں احادیث میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جس پردے کی موجودگی میں آپ گھر میں داخل نہیں ہوئے تھے وہ جاندار کی تصاویر تھیں اور اس حدیث میں صرف نقش و نگار والے پردے کا ذکر ہے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں خضوع و خشوع ہونا چاہیے اور جو چیز خشوع کے لیے رکاوٹ ہو اسے دور کرنا ضروری ہے۔
(فتح الباري: 481/10)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:
(باب:
إن صلی في ثوب مصلب أو تصاوير هل تفسد صلاته؟)
”اگر کسی نے صلیب یا تصویر والے کپڑے میں نماز پڑھی تو کیا اس کی نماز فاسد ہے؟“ (صحیح البخاري، الصلاة، باب: 15)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5959