بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
2. باب الأذان
اذان کا بیان
حدیث نمبر: 159
عَنْ جَابِرٍ- رَضِيَ اَللَّهُ عَنْهُ- أَنَّ رَسُولَ اَللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -قَالَ: مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ اَلنِّدَاءَ: اَللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ اَلدَّعْوَةِ اَلتَّامَّةِ , وَالصَّلَاةِ اَلْقَائِمَةِ , آتِ مُحَمَّدًا اَلْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ , وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا اَلَّذِي وَعَدْتَهُ , حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ أَخْرَجَهُ اَلْأَرْبَعَةُ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس آدمی نے اذان سن کر یہ دعا کی تو اس کے لیے قیامت کے دن میری شفاعت حلال ہو گئی۔ «اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وأبعثه مقاما محمودا الذي وعدته حلت له شفاعتي يوم القيامة» ”اے اللہ! اے اس کامل دعا اور قائم ہونے والی نماز کے مالک! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ (مقام محمود) اور فضیلت عطا فرما اور مقام محمود پر جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے پہنچا دے (بھیج دے) تو اس کے لیے قیامت کے روز میری شفاعت حلال ہو گئی۔ “ اسے ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ چاروں نے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب الدعاء عند النداء، حديث:614، وأبوداود، الصلاة، حديث:529، والترمذي، الصلاة، حديث:211، والنسائي، الصلاة، حديث: 681، وابن ماجه، الصلاة، حديث:722.»
حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 159 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 159
� لغوی تشریح:
«النِّدَاءَ» اذان۔
«رَبَّ» منصوب ہے منادٰی سے بدل ہونے کی وجہ سے، یا پھر یہ دوسرا مستقل منادٰی ہے اور مضاف ہو رہا ہے
«هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ» کے قول کی طرف۔ «الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ» اس دعوت سے مراد توحید کی دعوت ہے۔ اس کے مکمل ہونے کی وجہ سے اسے «تَامَّة» کے لفظ سے بیان کیا گیا ہے، اس لیے کہ دعوت توحید ہی کاملیت اور تمامیت کا استحقاق رکھتی ہے، اس کے علاوہ سب کچھ نقص اور فساد کی زد میں ہے۔
«وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ» قیامت تک باقی رہنے والی نماز۔
«اَلْوَسِيلَةَ» اس کی وضاحت خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے فرما دی ہے کہ وہ جنت میں ایک مقام ہے، اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے کو ملے گا اور مجھے توقع ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا۔ [صحيح مسلم، الصلاة، باب استحاب القول مثل قول المؤذن لمن۔۔۔ حديث: 384]
«وَالْفَضِيلَةَ» اس مرتبے کو کہتے ہیں جو ساری مخلوق سے برتر ہو۔
«وَابْعَثْهُ» آپ کو وہاں پہنچا دے، بھیج دے۔
«مَقَامًا مَحْمُودًا» یہ وہ مقام ہے جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن رب کائنات کے حضور سجدہ ریز ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی ان کلمات کے ساتھ حمد و ستائش کریں گے جو اس موقع پر انہیں الہام کیے جائیں گے۔ اس سے پہلے ان کا علم آپ کو نہیں ہو گا اور اسی دعا و درخواست کی وجہ سے آپ کو شفاعت کبریٰ کی اجازت ہو گی۔ [صحيح البخاري، التوحيد، باب قول الله تعالىٰ: «وُجُوْهٌ يَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ»، حديث: 7440]
«حُلَّتْ» واجب ہو جائے گی۔ میری شفاعت کا مستحق قرار پائے گا۔
«الَّذِي وَعَدْتَهُ» جس کا وعدہ قرآن مجید کی سورۂ بنی اسرائیل [آيت: 79] میں کیا گیا ہے۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اذان سننے کے بعد اس دعا کا پڑھنا مسنون ہے اور اس کی فضیلت بھی بڑی ہے۔ اس سے بڑا شرف اور فضل کیا ہو گا کہ پڑھنے والے کے لیے بروز قیامت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت لازمی ہو گی۔ جس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارش فرمائی وہ بالآخر جنت میں چلا ہی جائے گا۔
➋ ”مقام محمود“ کا ذکر قرآن مجید میں سورۂ بنی اسرائیل کی آیت (79) میں ہے «عَسيٰ اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا» یعنی امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر پہنچا دے گا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 159
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 529
´اذان کے بعد کی دعا کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اذان سن کر یہ دعا پڑھی: «اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته» ”اے اللہ! اس کامل دعا اور ہمیشہ قائم رہنے والی نماز کے رب! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ اور فضیلہ عطا فرما اور آپ کو مقام محمود پر فائز فرما جس کا تو نے وعدہ فرمایا ہے“ تو قیامت کے دن اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔“ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 529]
529۔ اردو حاشیہ:
➊ دعوت تامہ کامل پکار سے مراد توحید و رسالت کی پکار ہے «صلوة القائمة» ”قائم رہنے والی نماز“ سے مراد یہ ہے کہ کوئی ملت اس سے خالی نہیں رہی ہے۔ اور نہ کسی شریعت نے اسے منسوخ ہی کیا ہے۔ اور زمین و آسمان کے باقی رہنے تک یہ باقی رہے گی۔ «وسيله» جنت کی ایک منزل کا نام ہے۔ «مقام محمود» سے مراد وہ مقام ہے، جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان حشر میں مخوقات کے لئے شفاعت کی خاطر سجدہ ریز ہوں گے۔ اور یہ سجدہ سات دن رات تک طویل ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس سجدے میں اللہ کی حمد و ثناء کروں گا۔ جو اس وقت مجھے اللہ الہام فرمائے گا۔ تب مجھے حکم ہو گا کہ سر اٹھاؤ، سفارش کرو قبول ہو گی۔ [صحيح بخاري۔ التوحيد، حديث 7440]
«فضيلة» سے مراد تمام مخلوقات سے بڑھ کر عالیٰ مرتبہ۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا مستحق بن جانا بہت بڑے شرف کی بات ہے، اس لئے ہر مسلمان کو اس کا حریص ہونا چاہیے۔ جو محض تمناؤں اور امیدوں سے ممکن نہیں اس کے لئے قول تصدیق اور عمل ضروری ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 529
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 681
´اذان سننے کے بعد کی دعا کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اذان سن کر یہ دعا پڑھی: «اللہم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه المقام المحمود الذي وعدته إلا حلت له شفاعتي يوم القيامة» ”اے اللہ! اس کامل پکار اور قائم رہنے والی صلاۃ کے رب! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ ۱؎ اور فضیلت ۲؎ عطا فرما، اور مقام محمود ۳؎ میں پہنچا جس کا تو نے وعدہ کیا ہے ۴؎ تو قیامت کے دن اس پر میری شفاعت نازل ہو گی۔“ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 681]
681 ۔ اردو حاشیہ:
➊ مکمل دعوت سے مراد اذان ہے کیونکہ اس میں تمام اصول دین موجود ہیں جن کی طرف اسلام دعوت دیتا ہے۔ چونکہ اس اذان کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، اس لیے اسے اس مکمل دعوت کا رب کہا گیا۔
➋ الصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ سے مراد وہ نماز ہے جو ابھی باجماعت قائم ہو گی۔
➌ الْوَسِيلَة کی تفسیر تو حدیث: 679 میں گزر چکی ہے کہ وہ جنت میں ایک مقام ہے جو صرف ایک شخص کو ملے گا اور وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوں گے۔ الفضیلة سے مراد بھی بعض لوگوں کے نزدیک ایک مقام ہے، مگر کسی حدیث سے اس کا مفہوم کی تائید نہیں ہوتی، لہٰذا اس سے مراد فضیلت ہو گی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب لوگوں، امتوں اور انبیاء علیہم السلام پر حاصل ہو گی، جنت سے باہر بھی اور جنت کے اندر بھی۔ اور مقام محمود حشر کے روز آپ کو نصیب ہو گا جب سب انبیاء کی امتیں آپ کے پاس چل کر آئیں گی اور آپ سے شفاعت کبریٰ کی درخواست کریں گی۔ آپ اپنے رب عزوجل کے انتہائی قریب پہنچ کر سجدے میں گر جائیں گے اور اپنے رب تعالیٰ کی بے مثال تعریفیں کریں گے، جب کہ تمام خلائق آپ کی تعریفیں کر رہی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو پیار محبت سے سجدے سے اٹھائے گا اور آپ کی شفاعت قبول فرمائے گا۔ اسے مقام محمود کہنے کی وجہ یہی ہے کہ آپ یہ مقام، حمد سے حاصل کریں گے۔ آپ اپنے رب کی حمد کریں گے اور سب لوگ آپ کی حمد کر رہے ہوں گے۔ اس مقام کا وعدہ قرآن مجید میں ہے: «عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا» [بني اسرائیل79: 17]
”امید ہے آپ کا رب آپ کو عنقریب مقام محمود پر سرفراز فرمائے گا۔“
➌ سنن بیہقی کی روایت میں اس دعا کے آخر میں «إنك لا تخلفُ الميعادَ» ”یقیناًً تو وعدے کے خلاف ورزی نہیں کرتا۔“ کے الفاظ بھی ہیں لیکن یہ شاذ اور ناقابل حجت ہیں، مزید یہ کہ بعض لوگ «والدرجةَ الرفيعةَ» کا اضافہ بھی کرتے ہیں مگر وہ حدیث کی کتب میں نہیں بلکہ بے اصل الفاظ ہیں، اس لیے مسنون الفاظ ہی کافی وافی ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [إرواء الغليل: 261/1، والقول المقبول فى شرح و تعليق صلاة الرسول، ص302 اور اسي كتاب كا ابتدائيه]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 681
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث722
´مؤذن کی اذان کے جواب میں کیا کہا جائے؟`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اذان سن کر یہ دعا پڑھی: «اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته» ”اے اللہ! اس مکمل پکار اور قائم ہونے والی نماز کے مالک، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ ۱؎ اور فضیلت ۲؎ عطا فرما، آپ کو اس مقام محمود ۳؎ تک پہنچا جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے“ تو اس کے لیے قیامت کے دن شفاعت حلال ہو گئی ۴؎۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 722]
اردو حاشہ:
(1)
قیامت کے دن شفاعت ہوگی۔
سب سے پہلے انبیاٰکرام علیہم السلام شفاعت کرینگے ان کے بعد درجہ بدرجہ مومنوں کو شفاعت کی اجازت ملے گی۔
(2)
شفاعت صرف وہی شخص کریگا جسے اللہ کی طرف سے اجازت ملے گی اور وہ شفاعت بھی محدود تعداد میں کچھ افراد کے حق میں کرسکے گا قرآن مجید کا حافظ جو اس کی تعلیمات پر عمل کرنے والا ہو شفاعت کرے گا۔
شہید بھی شفاعت کرینگے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے بتایا کہ شہید کی شفاعت اس کے عزیز واقارب میں سے ستر افراد کے حق میں قبول کی جائے گی۔
دیکھے:
(جامع الترمذي، فضائل الجهاد، باب في الشهيد، حديث: 1663)
(3)
وسیلہ جنت کے سب سے بلند اور عظیم ترین مقام کا نام ہے اور افضل ترین انسان یعنی حضرت محمد ﷺ کے لیے خاص ہے۔ (صحيح مسلم، الصلاة، باب استجاب القول مثل قول الموذن لمن سمعه۔
۔
۔
۔
الخ، حدیث: 384)
(4)
مقام محمود سے مراد شفاعت کبری کا وہ مقام ہے جو صرف خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کے لیے مخصوص ہے۔
اس موقع پر تمام اوّلین وآخرین رسول اللہ ﷺ کی تعریف کرینگے۔
(5)
مسنون دعا صرف اسی قدر ہے جو حدیث میں ذکر ہوئی۔
بعض لوگ مسنون دعاؤں میں اپنی طرف سے اضافہ کرلیتے ہیں یا مختلف مواقع کے لیے اپنی طرف سے دعائیں بنا لیتے ہیں۔
ایسی خود ساختہ دعاؤں اور اضافوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 722
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 211
´اذان کے بعد آدمی کیا دعا پڑھے اس سے متعلق ایک اور باب۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اذان سن کر «اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته إلا حلت له الشفاعة يوم القيامة» ”اے اللہ! اس کامل دعوت ۱؎ اور قائم ہونے والی صلاۃ کے رب! (ہمارے نبی) محمد (صلی الله علیہ وسلم) کو وسیلہ ۲؎ اور فضیلت ۳؎ عطا کر، اور انہیں مقام محمود ۴؎ میں پہنچا جس کا تو نے وعدہ فرمایا ہے“ کہا تو اس کے لیے قیامت کے روز شفاعت حلال ہو جائے گی۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 211]
اردو حاشہ:
1؎:
اس کامل دعوت سے مراد توحید کی دعوت ہے اس کے مکمل ہونے کی وجہ سے اسے تامّہ کے لفظ سے بیان کیا گیا ہے۔
2؎:
وسیلہ جنت میں ایک مقام ہے۔
3؎:
فضیلہ اس مرتبہ کو کہتے ہیں جو ساری مخلوق سے بر تر ہو۔
4؎:
یہ وہ مقام ہے جہاں رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی ان کلمات کے ساتھ حمد و ستائش کریں گے جو اس موقع پر آپ کو الہام کئے جائیں گے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 211
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 614
614. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اذان سنتے وقت یہ دعا پڑھے: (اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلاَةِ القَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الوَسِيلَةَ وَالفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ، حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ) ”اے اللہ! اس کامل پکار اور قائم ہونے والی نماز کے رب! حضرت محمد ﷺ کو وسیلہ اور بزرگی عطا فر اور انہیں اس مقام پر پہنچا جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے، تو اسے قیامت کے دن میری شفاعت نصیب ہو گی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:614]
حدیث حاشیہ:
دعا کا ترجمہ یہ ہے:
اے میرے اللہ جو اس ساری پکار کا رب ہے اورقائم رہنے و الی نماز کا بھی رب ہے، محمد ﷺ کو قیامت کے دن وسیلہ نصیب فرمانا اور بڑے مرتبہ اورمقام محمود پر ان کا قیام فرمائیو، جس کا تونے ان سے وعدہ کیاہواہے۔
بعض لوگوں نے اس دعا میں کچھ الفاظ اپنی طرف سے بڑھا لیے ہیں یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔
حدیث میں جتنے الفاظ وارد ہوئے ہیں ان پر زیادتی کرنا موجب گناہ ہے۔
اذان پوری پکار ہے اس کا مطلب یہ کہ اس کے ذریعہ نماز اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے پکارا جاتاہے۔
کامیابی سے مراد دین اوردنیا کی کامیابی ہے اوریہ چیز یقینا نماز کے اندر موجود ہے کہ اس کو باجماعت ادا کرنے سے باہمی محبت اوراتفاق پیدا ہوتاہے اورکسی قوم کی ترقی کے لیے یہی بنیاد اوّل ہے۔
دعوة تامة سے دعوت توحید کلمہ طیبہ مراد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 614
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:614
614. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اذان سنتے وقت یہ دعا پڑھے: (اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلاَةِ القَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الوَسِيلَةَ وَالفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ، حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ) ”اے اللہ! اس کامل پکار اور قائم ہونے والی نماز کے رب! حضرت محمد ﷺ کو وسیلہ اور بزرگی عطا فر اور انہیں اس مقام پر پہنچا جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے، تو اسے قیامت کے دن میری شفاعت نصیب ہو گی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:614]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں الفاظ حدیث کے پیش نظر دعائے اذان کے محل کو متعین نہیں فرمایا۔
ممکن ہے کہ ان کے نزدیک دوران اذان میں کسی وقت بھی اسے پڑھنا جائز ہو۔
امام طحاوی ؒ نے اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اذان کا جواب دینا ضروری نہیں، اگر کوئی مذکورہ دعا پڑھ لے تو یہی کافی ہے، جبکہ دیگر روایات میں جواب اذان کے لیے صیغۂ امر وارد ہے جو عام طور پر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔
ہمارے نزدیک مذکورہ دعا اذان سے فراغت کے بعد پڑھنی چاہیے اور اس سے پہلے دورد پڑھنے کی تاکید ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جب مؤذن اذان دے تو تم اسی طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے، پھر مجھ پر درود پڑھو، اس کے بعد میرے لیے" الوسیلہ" ملنے کی دعا کرو۔
“ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 849(384) (2)
واضح رہے کہ وسیلہ کے متعلق خود رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
”یہ جنت میں ایک درجے کا نام ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کے لائق ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں۔
جس نے میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلے کی دعا کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔
“ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 849(384)
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جو شخص مؤذن کی اذان سن کر مندرجہ ذیل دعا پڑھے تو اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے:
(أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمداً عبده ورسوله، رضيت بالله ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دينا)
میں گوہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔
اس کا کوئی شریک نہیں۔
یقینا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے فرستادہ ہیں۔
میں اللہ کے رب ہونے، محمد ﷺ کے رسول ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں۔
“ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 851(386)
دعائے اذان کی ترتیب اس طرح ہونی چاہیے؛ پہلے درود پڑھا جائے، پھر دعا اور آخر میں مذکورہ کلمات کہے جائیں۔
(3)
اذان کی مذکورہ دعا میں (الدرجة الرفيعة)
اور (وارزقنا شفاعته يوم القيامة)
کے الفاظ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، البتہ(إنك لا تخلف الميعاد)
کا اضافہ بعض روایات میں ملتا ہے۔
(السنن الکبرٰی للبیهقي: 110/1)
لیکن محدثین نے اس اضافے کو بھی شاذ قرار دیا ہے, کیونکہ راوئ حدیث علی بن عیاش سے جتنے طرق کتب حدیث میں مروی ہیں، کسی میں بھی یہ الفاظ نہیں ملتے۔
(إرواء الغلیل: 261/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 614
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 614
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اذان سن کر یہ کہے «اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته» اسے قیامت کے دن میری شفاعت ملے گی۔ [صحيح بخاري ح: 614]
فوائد:
➊ یہ دعا اذان پوری ہونے کے بعد پڑھنی چاہیے، کیونکہ صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی حدیث ان لفظوں میں ہے: «إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا يَقُوْلُ، ثُمَّ صَلُّوْا عَلَيَّ .... ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ لِيَ الْوَسِيلَةَ» [مسلم، الصلاة، باب استحباب القول مثل قول المؤذن .....: 384] ”جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو جیسے وہ کہے، پھر مجھ پر صلاۃ بھیجو ..... پھر میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلے کا سوال کرو۔“
➋ «اللهم» اصل میں ”یا اللہ“ تھا، ”یا“ کو حذف کر کے آخر میں میم مشدد لگا دیا گیا، اس لیے ”یا“ اور میم مشدد اکٹھے نہیں آتے۔
➌ «الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ» (کامل دعوت) سے مراد اللہ کی کبریائی، اس کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت اور اس کی دعوت ہے، کیونکہ اللہ کی توحید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں کوئی نقص نہیں، نہ کبھی ان کو زوال ہے، جب کہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نقص ہی نقص ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو نبی مان کر یا اس کے بغیر ہی کسی کی ہر بات کو واجب الاطاعت ماننا نقص ہی نقص ہے اور یہ سب کچھ باطل اور فنا ہونے والا ہے۔
➍ «وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ» سے مراد «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» یعنی اس نماز کی دعوت ہے جو قیامت تک ہمیشہ رہنے والی ہے، اس میں کوئی تبدیلی یا کمی بیشی نہیں ہو گی، نہ وہ کبھی منسوخ ہو گی۔
➎ «آتِ» «أَتى يَأْتى إِثْيَانًا»، آنا اور «آتى يُؤْتِي إِيْتَاء» دینا۔ ”آتِ“ فعل امر ہے: دے، عطا کر۔ لغت میں «الْوَسِيْلَةُ» کا معنی ہے: قرب، قریب ہونے کا ذریعہ، ”الف لام“ سے تخصیص ہو گئی۔ حدیث میں اس کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آتی ہے:
«ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ لِي الْوَسِيلَةَ، فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ، لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدِ مِنْ عِبَادِ اللهِ، وَأَرْجُوْ أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ» [مسلم، الصلاة، باب استحباب القول مثل قول المؤذن .....: 384] یعنی وسیله جنت کا ایک مرتبہ ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کے لائق ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ میں ہی ہوں گا۔
«الفَضِيلَةُ» ایسا مرتبہ جو تمام مراتب سے برتر ہو، اس سے مراد وہی مرتبہ وسیلہ ہے اور ممکن ہے اس کے علاوہ کوئی اور مرتبہ ہو۔ «مَقَامًا مَحْمُودًا» ایسا مقام جس پر فائز ہونے والے کی ہر ایک تعریف کرے، یہ اشارہ ہے قرآن کریم کی اس آیت کی طرف: «عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا» [بني إسرائيل: 79] ”قریب ہے کہ تیرا رب تجھے مقام محمود پر کھڑا کرے۔“ اس میں اگرچہ «عسي» کا لفظ آیا ہے جس کا معنی ہے ”امید ہے۔“ یا ”قریب ہے۔“ مگر یہ لفظ جب اللہ تعالٰی کے فرمان میں آئے تو وہ یقین کے معنی میں ہوتا ہے، کیونکہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ بادشاہوں کا بادشاہ امید دلا کر اسے پورا نہ کرے۔ اس لیے اسے اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہا گیا ہے، چنانچہ اس دعا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود عطا کرنے کی درخواست ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کے وعدے کو بھی بطورِ وسیلہ پیش کیا گیا ہے۔
➏ اکثر اہل علم مقام محمود سے مراد شفاعتِ کبریٰ کا مقام لیتے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ”یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بٹھانا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد کرسی پر بٹھانا ہے اور یہ دونوں قول ایک جماعت سے بیان کیے گئے ہیں۔ اگر اسے صحیح فرض کریں تو یہ پہلے قول کے خلاف نہیں، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ عرش یا کرسی پر بٹھانا شفاعتِ کبریٰ کی اجازت کی علامت ہو۔“ [فتح الباري] حافظ رحمہ اللہ نے اگرچہ بفرضِ صحت کہہ کر اس کے بے بنیاد ہونے کی طرف اشارہ کر دیا ہے، مگر واضح طور پر اس کی نفی نہیں کی، حالانکہ اگر ان کے پاس معراج کے موقع پر یا قیامت کے دن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش یا کرسی پر بٹھانے کی کوئی دلیل ہوتی تو اسے ضرور پیش کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات کہیں بھی قرآن یا حدیث سے ثابت نہیں، بلکہ قرآن کی ایک آیت اللہ کے سوا کسی کے بھی عرش پر جانے کی نفی کرتی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «قُلْ لَوْ كَانَ مَعَةَ الِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذَ الاَبْتَغُوا إِلى ذِي الْعَرْشِ سَبِيلا42 سُبْحَنَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوا كَبِيرًا» [بني إسرائيل: 42، 43] ”کہہ دے! اگر اس کے ساتھ کچھ اور معبود ہوتے جیسا کہ یہ کہتے ہیں تو اس وقت وہ عرش والے کی طرف کوئی راستہ ضرور ڈھونڈتے، پاک ہے وہ اور وہ بہت بلند ہے اس سے جو یہ کہتے ہیں، بہت زیادہ بلند ہونا۔“
➐ عام لوگ اس دعا میں «وَالْفَضِيلَةَ» کے بعد «وَالدَّرَجَةَ الرَّفِيعَةَ» اور اس کے آخر میں «وَارْزُقْنَا شَفَاعَتَهُ» پڑھتے ہیں، یہ الفاظ کسی حدیث سے ثابت نہیں، البتہ [سنن كبريٰ بيهقي 603/1، ح: 1933] میں اس دعا کے آخر میں یہ الفاظ آئے ہیں: «إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ» ”یقیناً تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔“
➑ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، اس لیے اس نے آپ کو وہ مقام دینا ہی دینا ہے، پھر ہمیں آپ کے لیے وہ مقام عطا کرنے کی دعا کی تعلیم کیوں دی گئی ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ وسلام بھیجتے ہیں، اس کے باوجود ہمیں آپ پر صلاة و سلام بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں رسول الله علیم نے فرمایا: «إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ، فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا يَقُوْلُ، ثُمَّ صَلُّوْا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا» [مسلم، كتاب الصلاة، باب استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعه .....: 384] ”جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو جیسے وہ کہتا ہے، پھر مجھ پر صلاۃ پڑھو، کیونکہ جو مجھ پر ایک بار صلاۃ پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس پر دس بار صلاۃ بھیجتا ہے۔“
اس سے یہ معلوم ہوا کہ اس نیت سے صلاۃ و سلام نہیں پڑھنا چاہیے، نہ ہی اس نیت سے آپ کے لیے وسیلہ و فضیلہ اور مقامِ محمود کی دعا کرنی چاہیے کہ ہماری دعا سے آپ کو یہ نعمتیں اور مقامات حاصل ہوں گے، بلکہ اس نیت سے صلاۃ و سلام پڑھنا اور یہ دعائیں کرنی چاہییں کہ آپ کو تو یہ مقام ملنا ہی ملنا ہے، اس صلاۃ و سلام اور دعا سے ہمارا شمار بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبین اور حلقہ بگوشوں میں ہو جائے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: «مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يَدْعُو لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ، إِلَّا قَالَ الْمَلَكُ: وَلَكَ بِمِثْلِ» [مسلم: 2732 - أبو داود: 1534] ”جو بھی مسلمان بندہ اپنے بھائی کی عدم موجودگی میں اس کے لیے دعا کرتا ہے تو اس پر فرشتہ کہتا ہے: اور تجھے بھی اس کی مثل عطا ہو۔“ تو ہو سکتا ہے کہ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کے صلاۃ و سلام میں سے اور جنت کے مقامات میں سے کوئی حصہ مل جائے۔
➒ «حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِيْ:» اس کا معنی ”اس کے لیے میری شفاعت حلال ہو جائے گی۔“ درست نہیں، کیونکہ وہ اس دعا کے بغیر بھی حرام نہیں، اس لیے «حَلَّتْ» کا معنی «اسْتَحَقَّتْ» یا «وَجَبَتْ» یا «نَزَلَتْ عَلَيْهِ» ہے، کیونکہ «حَلَّ يَحُلُّ» (بالضم) کا معنی «إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ» ہے۔ «لام» بمعنی «علي» ہے۔ اس کی تائید [ابو داؤد 523 اور ترمذي 3614] کی روایت «حَلَّتْ عَلَيْهِ» سے ہوتی ہے۔ [طحاوي 145/1] میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں «وَجَبَتْ لَهُ» کے الفاظ ہیں، اس لیے ترجمہ ”واجب ہو جائے گی“ کیا گیا ہے۔
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 614