بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
1. باب المواقيت
اوقات نماز کا بیان
حدیث نمبر: 139
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «الفجر فجران: فجر يحرم الطعام وتحل فيه الصلاة وفجر تحرم فيه الصلاة أي صلاة الصبح ويحل فيه الطعام» . رواه ابن خزيمة والحاكم وصححاه. وللحاكم من حديث جابر نحوه وزاد في الذي يحرم الطعام: «أنه يذهب مستطيلا في الأفق» . وفي الآخر: «إنه كذنب السرحان» .
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”فجر کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ فجر جس میں کھانا حرام ہے اور نماز ادا کرنا جائز و حلال اور ایک وہ فجر ہے جس میں نماز پڑھنا حرام ہے اور کھانا جائز و حلال ہے۔“
اسے ابن خزیمہ اور حاکم نے روایت کیا ہے اور دونوں نے اسے صحیح بھی قرار دیا ہے۔ اور مستدرک حاکم میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ ”جس صبح میں کھانا حرام ہے وہ آسمان کے کناروں اور اطراف میں پھیل جاتی ہے اور دوسری بھیڑیئے کی دم کی طرح اونچی چلی جاتی ہے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن خزيمة:1 /184 و3 /210، حديث:356، 1927، والحاكم:1 /191، 425 وصححاه، وللحديث شاهد عند الحاكم من حديث جابر رضي الله تعاليٰ عنه:1 /191، حديث:688 وسنده حسن.»
حكم دارالسلام: حسن
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 139 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 139
لغوی تشریح:
«يُحَرِّمُ الطَّعَامُ» روزے دار کے لیے سحری کا کھانا حرام کرتی ہے۔
«وَتُحِلُّ فِيهِ الصَّلَاةُ» اور اس میں نماز جائز اور حلال ہے، یعنی نماز فجر۔ اس سے مراد حقیقی صبح ہے جس کا نام صبح صادق ہے۔
«زَادَ» یعنی حاکم نے یہ بات زائد ذکر کی ہے۔
«فِي الَّذِي يُحَرِّمُ الطَّعَام: إِنَّهُ يَذْهِبُ مُسْتَطِيلَا» اس فجر کے بارے میں فرمایا جس میں کھانا حرام ہو جاتا ہے (اس کی نشانی اور علامت یہ ہے) کہ وہ آسمان پر پھیل جاتی ہے، یعنی مشرقی کنارے پر۔
«اَلْأُفُقِ» افق آسمان کے اس حصے کو کہتے ہیں جو زمین کے ساتھ ملتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
«وَفِي الْآخَرِ» ”خا“ پر فتحہ ہے۔ اور اس سے مراد وہ فجر ہے جس میں صبح کی نماز ادا کرنا حرام ہے اور روزے دار کے لیے کھانا حلال ہے۔ یہ وہی صبح ہے جسے صبح کا ذب کہا جاتا ہے۔
«كَذَنَبِ السِّرْحَانِ» ”کاف“ برائے تشبیہ اور «ذَنَبٌ» میں ”ذال“ اور ”نون“ دونوں پر فتحہ ہے، یعنی بھیڑیے کی دُم۔ اور «سِرْحان» ”سین“ کے نیچے کسرہ اور ”را“ ساکن ہے۔ بھیڑیے کو کہتے ہیں۔ مراد اس سے یہ ہے کہ یہ فجر جب نمودار ہوتی ہے تو ستون کی طرح بالکل سیدھی آسمان میں اوپر چڑھتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اطراف واکناف میں پھیلی ہوئی نہیں ہوتی۔ صبح صادق اور صبح کا ذب دونوں کے مابین کچھ وقفہ اور فاصلہ ہوتا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 139