عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «وقت الظهر إذا زالت الشمس وكان ظل الرجل كطوله ما لم يحضر وقت العصر ووقت العصر ما لم تصفر الشمس ووقت صلاة المغرب ما لم يغب الشفق ووقت صلاة العشاء إلى نصف الليل الأوسط ووقت صلاة الصبح من طلوع الفجر ما لم تطلع الشمس» . رواه مسلم. وله من حديث بريدة في العصر:«والشمس بيضاء نقية» .ومن حديث أبي موسى:«والشمس مرتفعة» .
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 129
� لغوی تشریح:
«كِتَابُ الصَّلَاةِ» صلاۃ کے لغوی معنی دعا کے ہیں اور اصطلاح شرع میں معروف عبادت کو کہتے ہیں۔
«بَابُ الْمَوَاقِيتِ» «مَوَاقِيت»، میقات کی جمع ہے۔ اس سے مراد وہ وقے محدود ہے جو کسی کام کے لیے مقرر کیا ہو، بلحاظ زمان یا مکان۔ یہاں اس سے مراد نمازوں کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالیٰ کا مقرر و متعین فرمایا ہوا وقت ہے۔
«إِذَا زَالَت الشَّمْسُ» جب سورج زوال پذیر ہو، یعنی آسمان کے عین درمیان سے مغرب کی جانب ڈھل جائے۔
«وَكَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ كَطُولِهِ» اور انسان کا سایہ اپنے قد کے برابر ہو، یعنی ظہر کا وقت تب تک رہتا ہے جب تک کہ ہر چیز کا سایہ اصل، چیز کے قد کے برابر ہو جائے۔
«مَالَمْ يَحْضُرُ الْعَصر» جب تک نماز عصر کا وقت نہ ہو جائے، یعنی آدمی کا اصلی سایہ اس کے قد کے برابر ہونے کے ساتھ عصر کا وقت شروع نہ ہو جائے۔
«اَلشَّفَقُ» غروب آفتاب کے بعد افق آسمان پر جو سرخی نمودار ہوتی ہے۔
«إِلَيٰ نِصْفِ اللَّيْلِ الْأَوْسَطِ» یہاں لفظ «اَلْأَوْسَطِ» «نِصْفِ اللَّيْلِ» کی صفت بن رہا ہے اور اس سے مراد رات کا پہلا نصف ہے۔ اس پہلے نصف حصے کو اوسط (درمیانے) سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ رات کو دو حصوں میں تقسیم کریں تو پہلا نصف حصہ رات کے وسط اور درمیان پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے، لہٰذا رات کے پہلے نصف حصے تک نماز عشاء کا وقت رہتا ہے۔
«نَقِيَّةٌ» «فعلية» کے وزن پر ”صاف ستھرا“ کے معنی میں استعمال ہوا ہے، یعنی ایسا صاف شفاف جس میں زرد رنگ کی آمیزش نہ ہو۔
«مُرْتَفِعَةٌ» آسمان میں بلند وبالا ہو اور مغرب کی جانب مائل نہ ہو۔ حدیث بالا میں نماز کی ادائیگی کے اوقات بیان کیے گئے ہیں۔ نماز عشاء کا آخری وقت کون سا ہے؟ اس میں مختلف آراء ہیں۔ جمہور علماء کہتے ہیں کہ یہ طلوع فجر تک ہے۔ اور اس حدیث میں جو بیان ہوا ہے اس سے مراد مختار وقت ہے اور بعض کا یہ بھی قول ہے کہ آدھی رات کو عشاء کی نماز کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے ظہر کا وقت ایک مثل تک ثابت ہوتا ہے، اس کے بعد عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ ائمہ ثلاثہ: امام شافعی، امام مالک، امام احمد کے علاوہ امام ابویوسف اور امام زفر رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ ایک روایت کی رو سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے بھی اسی طرح ہے لیکن ان کی طرف جو مشہور روایت منسوب ہے وہ دو مثل کی ہے۔
➋ علمائے احناف نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی اس روایت کو قبول کیا ہے مگر کسی صحیح مرفوع حدیث سے دو مثل تک ظہر کا وقت ثابت نہیں۔
➌ بہتر یہی ہے کہ نماز ظہر ایک مثل کے درمیان ہی میں ادا کر لی جائے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے دونوں شاگرد قاضی ابویوسف اور امام محمد کا بھی یہی فیصلہ ہے۔
➍ اس حدیث میں مذکور ایک مسئلہ شفق کا بھی ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ غروب آفتاب کے بعد افق آسمان پر نمودار ہونے والی سرخی کے فوراً بعد جو سفیدی ظاہر ہوتی ہے شفق سے وہ مراد ہے۔ اس کے برعکس امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ سرخی ہے جو غروب شمس سے ساتھ افق آسمان پر نمایاں ہوتی ہے۔ قرین قیاس بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے۔
➎ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنا ممنوع ہے کیونکہ اس وقت سورج شیطان کے دو سینگوں میں طلوع ہوتا ہے اور وہ آفتاب پرستوں کا مخصوص وقت ہے۔ اسی طرح عین غروب شمس کے وقت بھی نماز شروع نہیں کرنی چاہیے۔
➏ اس حدیث سے اوقات صلوات خمسہ بھی معلوم ہوتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر نماز کے لیے اول اور آخر وقت یہی ہے جو اس حدیث میں مذکور ہے۔
➐ رہا یہ مسئلہ کہ دھوپ کے زردی مائل ہو جانے کے بعد عصر کا وقت اور آدھی رات کے بعد عشاء کا وقت رہتا بھی ہے یا نہیں؟ اس حدیث سے یہی ثابت ہو رہا ہے کہ مختار وقت نہیں رہتا۔ سورج کے زرد ہونے کے بعد نماز پڑھنے والے کو حدیث میں منافق کہا گیا ہے۔
راویٔ حدیث:
(سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ) ان کی کنیت ابوعبداللہ اور بریدہ بن حصیب نام ہے۔ بریدہ اور حصیب دونوں تصغیر کے ساتھ ہیں۔ قبیلہ اسلم سے ہونے کی وجہ سے اسلمی کہلائے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت مدینہ کے دوران میں اس قبیلے کے پاس سے گزرے تو اس موقع پر جو تقریباً 80 آدمی مسلمان ہوئے ان میں یہ بھی شامل تھے۔ غزوہ احد کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان میں حاضر تھے۔ بصرہ کی طرف چلے گئے تھے، پھر وہاں سے خراسان کی جانب جہاد کے لیے نکل گئے اور مرہ میں قیام پذیر ہوئے۔ وہیں 62 یا 63 ہجری میں ان کی وفات ہوئی اور تدفین عمل میں آئی۔
(سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ) ان سے مراد عبداللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ ہیں۔ جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ غزوہ خیبر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ زبید اور عدن پر عامل مقرر ہوئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں یہ کوفہ اور بصرہ کے والی مقرر ہوئے۔ ان کے ہاتھوں تستر فتح ہوا اور دیگر بہت سے شہر بھی انہوں نے فتح کیے۔ 42 ہجری میں وفات پائی۔ اس کے علاوہ بھی سنِ وفات منقول ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 129
علامه سيد بديع الدين شاه راشدي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 1388
´نماز ظہر کا وقت`
«. . . وقت الظهر إذا زالت الشمس، وكان ظل الرجل كطوله، ما لم يحضر العصر . . .»
”ظہر کا وقت اس وقت تک ہوتا ہے جب سورج ڈھل جائے اور رہتا ہے جب تک کہ آدمی کا سایہ اس کے قد کے برابر ہو جائے جب تک کہ عصر کا وقت نہ آئے۔۔۔“ [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة: 1388]
تفقه
اس حدیث سے صراحۃً ثابت ہوا کہ نماز ظہر کا وقت ایک مثل تک رہتا ہے اور ایک مثل گزرنے کے بعد نماز عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور ظہر کے وقت کا دو مثلوں تک باقی رہنا کسی حدیث سے ثابت نہیں۔
باقی جو صحیح بخاری کی حدیث پیش کی جاتی ہے، جس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے اور مؤذن نے اذان دینے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”ٹھنڈا ہونے دو“، مؤذن نے (تھوڑی دیر بعد) پھر چاہا کہ اذان دے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”ٹھنڈا ہونے دو“ یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ ڈھلا ہوا دیکھ لیا . . . الخ۔ [صحیح بخاری ح 539] وہ ہم پر حجت نہیں بن سکتی، کیونکہ اول تو یہ سفر کا واقعہ ہے۔ چنانچہ خود مذکورہ حدیث شریف میں اس کی تصریح موجود ہے اور حدیث شریف میں سفر وغیرہ میں «جمع بين الصلوتين» کی اجازت وارد ہے۔ پس ہو سکتا ہے کہ آپ نے «جمع بين الظهر والعصر» کے ارادہ سے تاخیر فرمائی ہو۔
علاوہ ازیں یہ حدیث صحیح بخاری کے دوسرے مقام «باب الابراد بالظهر فى شدة الحر» میں بھی موجود ہے اور وہاں بھی یہ الفاظ «حتي راينا فى التلول» کے ہیں۔ اب ان دونوں لفظوں کے ملانے سے یہ معلوم ہتا ہے کہ سایہ کے برابر ہونے سے یہ مراد ہے کہ سایہ ٹیلوں کی چوٹی سے جڑ تک پہنچ جائے، کیونکہ ٹیلوں کا سایہ اکثر اسی وقت دیکھنے میں آتا ہے، جبکہ ان کی چوٹی سے برابر ہو جاتا ہے اور یہ قاعدہ مسلمہ ہے کہ احادیث ایک دوسری کی تفسیر ہوا کرتی ہیں، تو معلوم ہوا کہ ظہر کا وقت ایک مثل تک ہے اور اس کے بعد عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔
اہلحدیث کے امتیازی مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 14
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1385
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جن تم فجر کی نماز پڑھ لو تو اس کا وقت اس وقت تک باقی ہے جب سورج کا اوپر کا کنارہ نہ نکلے، پھر جب تم ظہر پڑھ لو تو اس کا وقت عصر تک باقی ہے جب تم عصر پڑھ لو تو اس کا وقت سورج کے زرد ہونے تک باقی ہے اور جب تم مغرب کی نماز پڑھو تو اس کا وقت شفق (سرخی) کے غروب ہونے تک باقی ہے اور جب تم عشاء پڑھ لو تو اس کا وقت... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1385]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جب سورج غروب ہو جاتا ہے تو مغرب کی طرف تقریباً ایک گھنٹہ تک سرخی رہتی ہے اس کے بعد وہ سرخی ختم ہو جاتی ہے اس کی جگہ کچھ دیر تک (تقریباً آدھ گھنٹہ)
سفیدی رہتی ہے پھر وہ سفیدی بھی غائب ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ سیاہی آ جاتی ہے۔
صاحبین (امام ابو یوسف،
امام محمد)
اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک شفق سے مراد سرخی اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور قول کے مطابق اس سے مراد سرخی اور سفیدی دونوں ہیں یعنی سیاہی آنے پر عشاء کا وقت ہو گا اور ایک قول دوسرے آئمہ کے مطابق ہے اس لیے عام طور پر آج کل عمل عام آئمہ کے قول کے مطابق ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1385
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1386
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”ظہر کا وقت، عصر کا وقت شروع ہونے تک ہے اور عصر کا وقت، سورج کے زرد ہونے سے پہلے تک ہے اور مغرب کا وقت اس وقت تک ہے جب تک شفق غروب نہ ہو اور عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے اور فجر کا وقت، جب تک سورج طلوع نہ ہو۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1386]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
ثَورُ الشَّفَق:
سرخی کا پھیلاؤ اور انتشار۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1386
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1388
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب سورج ڈھل جائے تو ظہر کا وقت ہو جاتا ہے اور آدمی کے سایہ اس کے برابر ہونے تک رہتا ہے، جب تک عصر کا وقت نہ ہو جائے اور عصر کا وقت سورج کے زرد ہونے تک رہتا ہے اور مغرب کی نماز کا وقت سرخی غائب ہونے تک رہتا ہے اور عشاء کی نماز کا وقت درمیانی رات کے نصف تک رہتا ہے اور صبح کی نماز کا وقت طلوع فجر سے سورج نکلنے تک رہتا ہے، جب سورج نکلنے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1388]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جب سورج طلوع یا غروب ہوتا ہے تو شیطان اپنے سینگ سورج کے قریب کر دیتا ہے تاکہ ان اوقات میں جو لوگ سورج کو سجدہ کریں وہ یوں لگے کہ وہ اس لعین کو سجدہ کر رہے ہیں اصل مقصود کافروں کی مشابہت سے روکنا ہے کہ وہ ان اوقات میں سورج کی پرستش کرتے ہیں اس لیے مسلمانوں کو ان اوقات میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے لیکن شیطان کے دو قرنوں اور ان کے درمیان سورج کے طلوع و غروب کی حقیقت ہمارے معلومات کے دائرہ سے اسی طرح باہر ہے جس طرح شیطان کی پوری حقیقت جاننا باہر ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1388
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1389
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے نمازوں کے اوقات کے بارے میں دریافت کیا گیا؟ تو آپﷺ نے فرمایا: فجر کی نماز کا وقت اس وقت تک رہتا ہے جب تک سورج کا ابتدائی کنارہ نہ نکلے اور ظہر کا وقت اس وقت ہوتا ہے جب سورج آسمان کے درمیان سے مغرب کی طرف ڈھل جائے اور اس وقت تک رہتا ہے جب تک عصر کا وقت نہیں ہوتا اور عصر کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے جب تک سورج زرد نہ پڑ جائے اور اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1389]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپ نے سائل کے جواب میں اکثر نمازوں کا آخری وقت بتایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل یہی پوچھنا چاہتا تھا کہ پانچوں نمازوں کے اوقات میں کتنی وسعت ہے اور ہر نماز کس وقت تک پڑھی جا سکتی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1389