بلوغ المرام
كتاب الطهارة
طہارت کے مسائل
9. باب التيمم
تیمم کا بیان
حدیث نمبر: 112
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله: «الصعيد وضوء المسلم وإن لم يجد الماء عشر سنين. فإذا وجد الماء فليتق الله وليمسه بشرته» . رواه البزار وصححه ابن القطان لكن صوب الدارقطني إرساله، وللترمذي عن أبي ذر نحوه وصححه والحاکم أيضا.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مٹی مومن مسلمان کا وضو ہے خواہ دس برس تک اسے پانی نہ ملے۔ مگر جب پانی دستیاب ہو جائے تو پھر اللہ سے ڈرنا چاہیئے اور اسے اپنے جسم پر پانی پہنچانا چاہیئے۔“
اسے بزار نے روایت کیا ہے اور ابن قطان نے صحیح قرار دیا ہے، تاہم دارقطنی نے اس کے مرسل ہونے کو درست اور قرین صواب کہا ہے۔ ترمذی میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے، اسے ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے اور حاکم نے بھی صحیح کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البزار، في كش الأستار: 1 / 157، حديث: 310 وهو حديث حسن بالشواهد، والترمذي، الطهارة، حديث:124، من أبي ذر رضي الله عنه، وأبوداود، الطهارة، حديث: 332 وسنده حسن.»
حكم دارالسلام: حسن
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 112 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 112
لغوی تشریح:
«اَلصَّعِيدُ» پاکیزہ مٹی کو کہتے ہیں۔
«وَإِنْ لَّمْ يَجِدْ» اس میں إن وصلیہ ہے جس کے معنی ہیں: اگرچہ اس کی جزا ہمیشہ محذوف ہوتی ہے جس پر اس کا ماقبل دلالت کر رہا ہوتا ہے۔
«عَشْرَ سِنِينَ» دس برس۔ اس سے مراد مبالغہ ہے، وقت ومدت کا تعین مقصود نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جتنی مدت تک پانی دستیاب نہ ہو اس وقت تک تیمّم کی اجازت ہے۔
«فَلْيَتَّقِ اللهَ» ”اللہ سے ڈرنا چاہیے“ کا مفہوم یہ ہے کہ طہارت و وضو میں کسی قسم کی کمی واقع نہ ہونے پائے اور صرف مٹی پر انحصار نہ کرے۔
«وَلْيُمِسَّهُ» «إِمْسَاس» سے ماخوذ ہے، یعنی پانی پہنچائے۔
«بَشَرَتَهُ» ”با“ اور ”شین“ دونوں پر فتحہ ہے۔ مراد جسم کی کھال ہے۔
«صَوَّبَ» «تَصْوِيب» سے ماخوذ ہے اور معنی یہ ہوئے کہ اس حدیث کا مرسل ہونا درست اور صحیح ہے۔
فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث یہ فائدہ دے رہی ہے کہ تیمّم کے لیے وقت و مدت کا تعین نہیں اور جب پانی کی دستیابی کی صورت میں عذر باقی نہ رہے تو پھر پانی کا استعمال واجب ہے۔
➋ اس حدیث میں تیمّم کو وضو قرار دیا گیا ہے تو گویا تیمّم وضو کا قائم مقام اور بدل ہے۔ جب یہ پانی کا بدل ہے تو پھر دونوں کے احکام بھی ایک جیسے ہوں گے، یعنی ایک وضو سے جتنی نمازیں پڑھ سکتا ہے تیمم سے بھی اتنی پڑھی جا سکتی ہیں۔
➌ بعض لوگ اس حدیث کی رو سے تیمم سے رفع حدث کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک صرف نماز مباح ہوتی ہے، جب نماز سے فارغ ہو گا تو پھر پہلے کی طرح بےوضو یا جنبی شمار ہو گا۔ پہلا مسلک احناف کا ہے، ان کے نزدیک ایک تیمّم سے جب تک تیمّم قائم رہے کئی فرائض ادا ہو سکتے ہیں۔ سعد بن مسیّب، حسن بصری، زہری اور سفیان ثوری رحمہم اللہ کی بھی یہی رائے ہے۔ مگر امام شافعی، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ تیمّم سے طہارت کاملہ حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس سے جو طہارت حاصل ہوتی ہے اس کی حیثیت معذور کی اس طہارت کی طرح ہے جو محض ضرورت کے لیے ایک محدود مدت تک حاصل ہوتی ہے اور اس سے صرف ایک ہی فرض (جس کے لیے تیمّم کیا گیا ہو) ادا ہو سکتا ہے۔
➍ ترمذی میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح حدیث، جس کا حوالہ دیا گیا ہے، اس طرح ہے: ”سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو جب مدینہ منورہ کی آب و ہوا راس نہ آئی تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اونٹوں میں رہنے کا حکم فرمایا۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے اونٹوں میں رہنا شروع کیا۔ کچھ دیر بعد ابوزر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ ابوذر تو تباہ ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ” کیا ہوا؟“ انہوں نے عرض کیا کہ جنابت لاحق ہو جاتی ہے اور میرے پاس پانی نہیں ہوتا (کیا کروں؟) ارشاد ہوا: جسے پانی نہ ملے اس کے لیے مٹی پاک کرنے کا ذریعہ ہے اگرچہ دس سال تک یہی حال رہے۔“ ترمذی کی روایت میں اختصار ہے۔ اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے: [سنن أبى داود، الطهارة، باب الجنب يتيمم، حديث: 332، 333]
راویٔ حدیث: (سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ) ”را“ پر تشدید ہے۔ نام ان کا جندب بن جنادہ تھا۔ جنادہ میں ”جیم“ پر ضمہ ہے۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے جو زاہد اور دنیا سے بےرغبت تھے۔ مکہ میں ابتدائے اسلام ہی میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ پھر اپنی قوم کی طرف واپس چلے گئے۔ مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش ہوئے۔ مقام ربذہ میں رہائش رکھی، اور وہیں پر 32 ہجری میں وفات پائی۔ بہت متقی، پرہیزگار اور اللہ پر توکل کرنے والے تھے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 112
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 332
´جنبی تیمم کر سکتا ہے`
«. . . فَقَالَ: الصَّعِيدُ الطَّيِّبُ وَضُوءُ الْمُسْلِمِ وَلَوْ إِلَى عَشْرِ سِنِينَ، فَإِذَا وَجَدْتَ الْمَاءَ فَأَمِسَّهُ جِلْدَكَ فَإِنَّ ذَلِكَ خَيْرٌ . . .»
”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پاک مٹی مسلمان کے لیے وضو (کے پانی کے حکم میں) ہے، اگرچہ دس برس تک پانی نہ پائے، جب تم پانی پا جاؤ تو اس کو اپنے بدن پر بہا لو، اس لیے کہ یہ بہتر ہے . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 332]
فقہ الحدیث
➊ پاک مٹی پانی کے قائم مقام ہے جب پانی نہ ملے تو اس سے تیمم کر لینا چاہئیے۔
➋ جس طرح ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں اسی طرح پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم سے کئی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں اور جو ناقض وضو ہیں وہی ناقض تیمم بھی ہیں۔
➌ «عشر سنين» سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر لمبی مدت تک پانی نہ ملے تو اس اثنا میں تیمم ہی سے نماز ادا کی جائیں گی۔
➍ پانی کی موجودگی میں بغیر کسی عذر کے تیمم سے نماز نہیں پڑھنی چاہئیے کیونکہ اصل حکم پانی سے وضو کر کے نماز ادا کرنے کا ہے۔
➎ امام نسائی رحمہ اللہ نے دیگر محدثین کے برعکس اس حدیث کو قدرے مختصر بیان کیا ہے جو قطعاً مضر نہیں۔
ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 133، حدیث/صفحہ نمبر: 5
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 323
´ایک ہی تیمم سے کئی نمازیں پڑھنے کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پاک مٹی مسلمان کا وضو ہے، اگرچہ وہ دس سال تک پانی نہ پائے۔“ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 323]
323۔ اردو حاشیہ:
➊ طیب کا لفظ دلیل ہے کہ جس مٹی سے تیمم مقصود ہے، وہ پاک ہونی چاہیے۔
➋ تیمم بھی پانی نہ ملنے کی صورت میں وضو کا ہم مرتبہ ہے، لہٰذا جب تک تیمم قائم ہے اور پانئ نہیں ملتا، اس کے ساتھ کئی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں اور یہ حدیث اس کی دلیل ہے جب کہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ تیمم مجبوری کی طہارت ہے۔ مجبوری والی چیز ضرورت کے بعد ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا جب نماز پڑھی گئی تو مجبوری ختم ہو گئی، لہٰذا تیمم بھی ختم۔ نئی نماز کے وقت دوبارہ پانی تلاش کیا جائے گا، نہ ملے تو پھر تیمم کیا جائے گا۔ لیکن ایک نماز پڑھنے کے بعد تیمم کے ختم ہونے کی کوئی صریح صحیح دلیل موجود نہیں، صرف عقلی باتیں ہیں، جب شریعت نے مجبوری کے باعث رخصت دی ہے اور کوئی حد بندی بھی نہیں کی تو ہم کون ہو سکتے ہیں کہ فقہی موشگافیوں اور قیاس آرائیوں کی بنا پر اس عظیم رخصت کو کالعدم قرار دیں۔ ہاں! اس بات سے تو انکار نہیں کہ دوسری نماز کے وقت پانی کے عدم وجود کے تحقق کے بعد ہی نماز پڑھی جائے گی یا قطعی ذرائع سے یہ معلوم ہو چکا ہو کہ پانی دستیاب نہیں ہے اور نہ اس کا حصول ممکن ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 323
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 332
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پاک مٹی مسلمان کے لیے وضو (کے پانی کے حکم میں) ہے، اگرچہ دس برس تک پانی نہ پائے، جب تم پانی پا جاؤ تو اس کو اپنے بدن پر بہا لو، اس لیے کہ یہ بہتر ہے۔“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/ باب الْجُنُبِ يَتَيَمَّمُ/ ح: 332]
(جمہور، اہلحدیث، امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمد رحمہ اللہ) نبیذ کے ساتھ وضو کرنا جائز نہیں۔ [بداية المجتهد 66/1]
ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ نبیذ پانی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے صرف مطلق پانی کے ساتھ طہارت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اور پانی کے دستیاب نہ ہونے کی صورت میں نبیذ نہیں بلکہ مٹی سے تیمم کا حکم دیا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے کہ:
«فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا» [4-النساء:43]، [5-المائدة:6]
اور حدیث میں ہے کہ
”مٹی مومن کا وضو ہے خواہ دس سال تک اسے پانی میسر نہ آئے مگر جب پانی دستیاب ہو جائے تو پھر اللہ سے ڈرنا چاہیے اور اپنے جسم پر پانی پہنچانا چاہیے۔“ [صحيح: ابوداود 332]
فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 138
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 124
´پانی نہ پانے پر جنبی تیمم کر لے۔`
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”پاک مٹی مسلمان کو پاک کرنے والی ہے گرچہ وہ دس سال تک پانی نہ پائے، پھر جب وہ پانی پا لے تو اسے اپنی کھال (یعنی جسم) پر بہائے، یہی اس کے لیے بہتر ہے۔“ محمود (محمود بن غیلان) نے اپنی روایت میں یوں کہا ہے: پاک مٹی مسلمان کا وضو ہے۔“ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 124]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں عمرو بن بجدان،
مجہول ہیں،
لیکن بزار وغیرہ کی روایت کردہ ابو ہریرہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے،
ملاحظہ ہو:
صحیح سنن أبی داود 357،
والإرواء 153)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 124